پرانے ڈاکو نئے شریفوں سے زیادہ غیرت مند ہوا کرتے تھے


”یار محمد کی کل کائنات اب مسجد کے کونے میں پڑ ایک پرانے بستر اوردو چار پرانے جوڑے کپڑوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ کھانا اسے مسجد کے مولوی کے گھرسے ملتا تھا۔ کھانا بھی وہ جو مولوی صاحب کے طالب محلے بھر سے جمع کرکے لاتے۔ یہ رنگ برنگا سالن اور روٹی کے ٹکڑے کھاکر یار محمد دل کی گہرائی سے اللہ کا حمد کہتا اور پھر ذکر میں مشغول ہوجاتا۔ کھانے کی اس کی مخصوص مقدار تھی، اس سے زیادہ بھیجا جاتا تو وہ مولوی صاحب کے گھر واپس کردیتا۔ روٹی کے اضافی ٹکڑے دسترخوان میں لپیٹ کر پھر سے مولوی کے گھر بھجواتا۔ اذان دینے میں وہ محلے کے موذن سے ہمیشہ پہل کرتا۔ مہینوں مہینوں گھرنہ جاتا۔ وہ کہتا تھا میں اللہ کے گھر میں خوش ہوں مجھے اپنے گھر کی کیا ضرورت ہے“۔

سرخ خضابی مونچھوں والا بوڑھا بلوچ آگے مزید کہنے لگا: ”یارمحمد کی کہانی اس کے حال سے بھی زیادہ دلچسپ تھی۔ وہ اپنے دور کا مشہور ڈاکو رہا تھا۔ اس کی دہشت اور خوف سے اہل شہر کانپتے تھے۔ پولیس کو انتہائی مطلوب افراد میں سرفہرست یار محمد تھا۔ اس کی بڑی مونچھوں نے اس کی سیاہ رنگت کو اور بھی ہیبتناک بنا رکھا تھا۔ رحم اور ہمدردی کے الفاظ سے ہی اسے الرجی تھی۔ مگر تم جانتے ہو حافظ جی!؟ انسان کی زندگی میں اس کا ضمیر ایک بار ضرور جاگتا ہے! بس وہی موقع ہوتا ہے انسان کے سدھرنے کا۔ ایسے موقع پر اگر ضمیر کا گلا گھونٹ دیا جائے تو پھر طویل عرصے کے لیے اس کے سدھرنے کے امکانات دم توڑ جاتے ہیں۔ یار محمد نے بھی ایک ایسے ہی موقع پر ضمیر کی آواز سنی تھی“۔

بوڑھے بلوچ کی آواز بلند ہوگئی، میں بھی اس کی جانب پور ی طرح متوجہ تھا۔ بلوچ کہنے لگا ”مولانا! یار محمد کی ضمیر کی آنکھ بھی ایک مرتبہ کھلی تھی اور اس نے اپنے ضمیر کو پھر سونے نہیں دیا۔ یار محمد بتایا کرتا تھا کہ جرائم اور قتل وغارت کی زندگی سے میں نے توبہ کیسے کی؟ یہ بھی ایک نہتی لڑکی کا احسان ہے مجھ پر۔ اس رات میں اپنے چھ ساتھیوں کے ساتھ ایک مکان میں کودا، اپنے ساتھیوں میں سے سینئرمیں تھا۔ سب میرے حکم کی تعمیل کررہے تھے۔ مکان کے دو کمروں میں جھانک کر ہم نے دیکھا کوئی نظر نہ آیا۔ ایک کمرے کے کونے میں ایک اکیلی لڑکی نظر آئی، جو یقینا ہمارے کودنے کی آواز سے جاگی تھر تھر کانپ رہی تھی۔ دوپٹہ اس کا سونے سے پہلے جہاں رکھا تھا وہیں رہ گیا تھا۔ وہ الجھے بالوں کے ساتھ دیوار سے لگی جارہی تھی۔ اپنے جسم تلے دبے کمبل کے کونے کھینچ کھینچ کر اپنا جسم ڈھانپنے کی ناکام کوشش کررہی تھی، میں اندر کی جانب بڑھا۔

اکیلے گھر میں اکیلی لڑکی؟ ماجرا کیا ہے؟ گھر میں کوئی مرد نہیں ہے؟ میں رعب جمانے کے لیے زور سے دھاڑا۔ اس نے لجاجت سے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا“ میرے والد چوکیدار ہیں وہ رات کو ڈیوٹی پر گئے ہیں۔ گھر میں ایک والدہ اور دو بہنیں تھیں جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ اب میں رات کو اکیلی ہوتی ہوں“۔ بات سمجھ آنے والی تھی۔ اب میں مزید کچھ کہتا کہ وہ کانپتی لرزتی لڑکی رو رو کر کہنے لگی: ”میرے زیور اس الماری میں ہیں تم وہ سب اٹھا کر لے جاو، یہ سامان رکھاہے یہ بھی اٹھا کر لے جاؤ مگر خدا کے لیے مجھے ہاتھ مت لگاؤ۔ تمھیں خدا کا واسطہ میرے قریب مت آو“۔ گھر کی حالت ایسی کہ غربت اس کی دیواروں سے ٹپکتی محسوس ہوتی تھی، ایسے گھر کی لڑکی کے پاس زیور کہاں سے آئے اس وقت میں حیرت میں تو پڑگیا مگر اس کا جواب مجھے کچھ دیر بعد ملا۔ کمرے میں جس سامان کی طرف اس نے اشارہ کیا تھا وہ بھی نیانیا سا تھا۔ کمرے میں بلب کی زرد روشنی کسی آسیب کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ میں اس کی جانب بڑھنے لگا۔ میری پرچھائیوں میں نظرآتے بڑے اور الجھے بالوں کےگھچے کا سیاہ سایہ کسی عفریت کی طرح اس پر پڑنے لگا۔

وہ کبھی چیختی چلاتی، کبھی روتی اور کبھی ہاتھ جوڑ کر سرمایہ ناموس کی بھیک مانگتی۔ میں نے ایک قدم اس کے سرہانے کی جانب اٹھایا۔ سرہانے رکھے اس کی چادر اٹھاکر دونوں ہاتھوں میں پھیلاکر اس کے وجود پر ڈال دی۔ ساتھیوں کی جانب رخ کرکے میں نے کہا : یہ میری بہن ہے، جس نے بھی اسے چھوا اس نے میرے ناموس کو چھوا ہے، پھر وہ میری دشمنی کے لیے تیار ہوجائے۔ ساتھیوں کو حیرت کے جیسے جھٹکے لگے۔ سب نے کہا سردار یہ ہمارا طریقہ نہیں ہے۔ میں نے کہا ہم سات کڑیل مسلح طاقتور مرد، اور یہ ایک نہتی اکیلی کمزور ذات، غریب اتنی کہ اس کا والد اسے اللہ کے سہارے اکیلے چھوڑ کر دوسروں کی رکھوالی کرتا ہے، ایسی لڑکی کو لوٹ کر تم اپنے خدا کو کیا جواب دو گے؟ تمھاری طاقت اور غیرت کیسے برداشت کرتی ہے کہ تم اپنا زور ایک نہتی لڑکی کی عزت تاراج کرنے پر صرف کرو؟ اب چلو یہاں سے۔ یہ لڑکی میری بہن ہے، میری بہن کے گھر کی جانب کسی نے آنکھ اٹھاکر بھی دیکھا تو میں اس کی آنکھیں پھوڑ دوں گا۔ ساتھی آہستہ آہستہ کرکے نکلنے لگے۔ لڑکی جو یہ سب کچھ تماشا دیکھ رہی تھی اب اس کے کچھ اوسان بحال ہونے لگے۔ میں جب وہاں سے نکل رہاتھا تو لڑکی نے جاتے جاتے آواز دی جب تم نے مجھےاپنی بہن کہا ہے تو آپ بھی میرے بھائی ہیں۔ چار دن بعد میری شادی ہے بھائی! اس میں تم ضرور آنا۔ میں نے مڑ کر اسے اتنا کہا کہ بہن میں ضرورآوں گا مگر اپنا روپ بدل کر، کیوں کہ پولیس مجھے ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ مجھے یہاں کسی نے پہچان لیا تو فورا پولیس کو اطلاع کردے گا۔

یہاں تک کہہ کر یار محمد کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگتے۔ وہ کہتا تھا اگلے دن ہمارے گروپ کے سردار نے مجھے طلب کیا۔ اس نے کہا یارو! یہ ہمدردی اور ترحم ہمارے دھندے میں نہیں ہوتے۔ اگر ہم ہر کسی پر رحم کھانے لگیں تو ایک روپیہ بھی لانے سے رہ جائیں گے۔ میں نے کہا سردار آپ کی مرضی جیسا آپ حکم کریں، مگر بات یہ ہے کہ وہ لڑکی اکیلی تھی اور ہم سات مرد تھے۔ یہ غیرت بھی نہیں مان رہی تھی کہ ایک نہتی لڑکی کو سات مرد مل کر لوٹیں۔ ہمیں اپنے مقابلے کا کوئی ملے تو لوٹنے میں مزا بھی آئے۔ سردار نے کہا یارو! تم نے کل رات دوستوں کو ناراض کرکے بڑی غلطی کی ہے۔ اب تم ہی اس کی تلافی کروگے اور جاکر اس گھر سے لڑکی سمیت سب کچھ لے کر یہاں آو گے۔ میں ایک دم سکتے میں آگیا۔ چند سیکنڈ خاموش رہنے کے بعد میں پوری طاقت سے سر اٹھاکر سردار کے سامنےتن کر کھڑا ہوگیا، میں نے کہا سردار وہ اب ایک لاوارث لڑکی نہیں میری بہن ہے! جس نے اس گھر کی جانب غلط نظروں سے بھی دیکھا تو اس کی آنکھیں پھوڑ ڈالوں گا۔ میں اس کی شادی تک اس کی گلی میں پہرہ دوں گا، کسی میں ہمت ہو تو آئے اس گھر کی جانب! بات کرتے ہوئے میرا لہجہ اتنا سخت ہوگیا کہ سردار بھی کانپ گیا۔ یار محمد کہتا تھا میں نے زندگی میں پہلی بار رشتوں کی مٹھاس چکی تھی۔ یہ رشتوں کی بے لوث محبت کتنی پیاری ہوتی ہے، افسوس ہم اپنی وحشیانہ زندگی میں کبھی اس طرف توجہ ہی نہ دے سکے۔ ایک ایک کرکے اپنے سارے قریبی رشتے الگ کردیے اورآ ج دنیا میں اکیلے رہ گئےہیں، ایسا کہتے ہوئے یار محمد کے چہرے پر آنسووں کی لڑی بہہ نکلتی۔

یار محمد نے اپنی کہانی آگے سنائی :“میں نے اگلے تین راتوں تک اس کے گھر کے باہر پہرا دیا مگر کوئی نہ آیا۔ چار دن بعد اس کی شادی ہوگئی۔ میں اپنی بہن سے اس کے بعد صرف ایک بار ملا تھا وہ بھی اس کے میکے میں۔ بہن نے کہا تم مجھ سے ملنےمیرے سسرال بھی آجایا کرو، میں نے کہا بہن! میں تمھاری زندگی برباد نہیں کرنا چاہتا۔ میں ساری دنیا کا مجرم، پولیس کو مطلوب ہوں۔ تمھارے سسرال میں تم پر لوگ شک کرنے لگیں گے کہ یہ مشہور چور ڈاکو تمھارا بھائی کیسے ہوگیا؟ اس نے پھر بھی اصرار کیا کہ سب میں سنبھال لوں گی۔ مگر میں انکارہی کرتارہا۔ مگر میں نے اسے اتنا بتایا کہ میں باہر باہر سے سسرال میں تمھاری حالت کا پتہ کرتا رہوں گا۔ کسی نے تم سے برا سلوک کیا تو خدا کی قسم اس کی خیر نہیں ہوگی، میں ایک بھائی کی طرح تمھاری حفاظت اور خبر گیری اپنا فرض سمجھتا ہوں، اور تمھیں اپنے اس بھائی کی سر کی قسم، جب کبھی کسی چیز کی ضرورت ہومجھے ضرور یاد کرلیا کرنا۔

یار محمد کو اس کے گروپ سردار نے گروپ سے نکال دیاتھا اور کسی اور گروپ میں اس نے ایڈجسٹ ہونے کی کوشش نہیں کی۔ رشتہ داروں اور دیگرجان پہچان والوں سے تو وہ ویسے بھی چھپ کےپھرتا تھا۔ اس لیے اس کی زندگی اکیلی ہوتی گئی اور وہ زندگی کے تھپیڑے جھیلتا اس مسجد تک آپہنچا۔

سرخ مونچھوں والے بوڑھے بلوچ کی آنکھوں میں نمی بھر آئی وہ کہنے لگا حافظ جی! تمھارے عہد کے شریفوں میں بھی وہ غیرت نہیں رہی جو ہمارے دور کے ڈاکووں میں ہوا کرتی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).