میلانیہ نے ٹرمپ کا ہاتھ کیوں جھٹکا


امریکی صدر اہل و عیال کے ہمراہ سعودی عرب سے اسرائیل پہنچے تو ایک واقعہ خلاف معمول ہوا۔ جہاز سے اترنے کے بعد سرخ قالین پر چلتے ہوئے ٹرمپ نے (اپنی) اہلیہ کا ہاتھ پکڑنا چاہا اور انہوں نے بے نیازی سے جھٹک دیا۔ جیسے کہہ رہی ہوں چھڈ میری وینی نہ مروڑ، کچ دیاں ونگاں نہ تروڑ (چھوڑو، میرے کلائی نہ مروڑو، کانچ کی چوڑیاں ٹوٹ جائیں گی)

اب خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے ۔۔۔ شاید یہ میلانیہ کی ادا ہی ٹھہری ہو، لیکن یہاں تو ترک تعلق کے فسانے گھڑ لیے گئے۔ بھئی ہو سکتا ہے خاتون اول وہاں سعودی عرب میں کوئی فر کوٹ خریدنے کو مچل گئی ہوں اور ٹرمپ نے ٹھینگا دکھا دیا ہو۔ شاید ٹرمپ نے کہا ہو، “بھلیے لوکے، گرمیوں میں فر کوٹ کون پہنتا ہے؟ اور میں نے کون سی لندن میں جائیدادیں بنائی ہیں جو تمہارے فر کوٹ پر پیسے اجاڑوں۔” میلانیہ نے جواب دیا ہو گا، “گرمیوں کی وجہ سے ہی تو پندرہ پرسنٹ سیل لگی ہوئی ہے۔”

امریکی صدر نے اپنی بیگم کو کہا ہو گا، “بھلیے لوکے! ابھی ابھی تو سعودی عرب کو اربوں ڈالر کے ہتھیار بیچے ہیں، ابھی بھی ہم نے ڈسکاؤنٹ پر ہی چیزیں لینی ہیں تو چار حرف اس تجارت پر۔ ویسے بھی میں تمہیں روسی ریچھ کی کھال کا کوٹ لے کر دوں گا، وہ زیادہ پائیدار ہوتا ہے۔ اور وہاں سے میرا خاص دوست شاید مفت ہی بھجوا دے۔” میلانیہ شوہر کی باتوں میں تو آ گئی ہوں گی لیکن بات دل سے نکالی نہیں ہو گی۔ جہاز کے سفر میں اسی پر سوچتی رہی ہوں گی۔ یہ خیال بھی دل میں آیا ہو گا کہ صدر بننے کے بعد ٹرمپوا بدل سا گیا ہے۔ پہلے تو میں جو بات منہ سے نکالتی تھی وہ پوری کرتا تھا۔ اب تو جو بندہ اس کی بات پوری نہ کرے یہ اسے نوکری سے ہی نکال دیتا ہے۔

محبت وہی انداز پرانے مانگے، لیکن ٹرمپ تو گولیاں کرانے کے بہانے مانگے

اسرائیلی سرخ قالین پر چلتے ہوئے میلانیہ یہی کچھ سوچ رہی ہوں گی جب ٹرمپ نے تھامنے کو اپنا ہاتھ بڑھایا ہو گا۔ بس اسی لمحے خاتون اول کے دل میں میل سا آ گیا ہو گا، یا پھر اس تذبذب کا شکار ہو گئی ہوں کہ ہائے ربا، یوں سب کے سامنے بیوی کا ہاتھ کون تھامتا ہے، ٹرمپ کو تو ذرا لاج نہیں آتی۔

یہ بھی تو دیکھیں کہ ٹرمپ، اسرائیلی وزیراعظم اور ان کی اہلیہ تو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں لیکن میلانیہ چند قدم پیچھے ہیں۔ میں ترے سنگ کیسے چلوں ساجنا، تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا۔۔۔

چلیں بھیا، ہو جاتا ہے۔ کون سا گھر ہے جہاں میاں بیوی میں روٹھا راٹھی نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے باراک اوباما بھی نیلسن منڈیلا کی آخری رسومات پر ڈنمارک کی وزیراعظم کے ساتھ سیلفیاں لیتے دانت نکال رہے تھے اور ان کی بیگم منہ سجائے بیٹھی تھیں۔ اب صدارت کے بعد اسی بیگم کو نکڑ کی دکان سے روز دہی لا کر دیتے ہیں۔

تاہم ٹرمپ اور میلانیہ کا معاملہ کچھ زیادہ ہی گڑبڑ لگتا ہے۔ شاید جو دیوار ڈونلڈ ٹرمپ امریکا اور میکسیکو کے درمیان تعمیر کرنا چاہتے تھے وہ ان کے اور بیگم کے دلوں کے درمیان کھڑی ہو گئی ہے۔ اگر اسرائیل میں ہوا واقعہ اتفاق بھی قرار دے دیا جائے تو قریب قریب یہی معاملہ اٹلی میں بھی پیش آیا۔ دارلحکومت روم پہنچنے پر جیسے ہی دونوں جہاز کے دروازے پر آئے، ٹرمپ نے میلانیہ کا ہاتھ تھامنے کو اپنا ہاتھ آگے بڑھایا، اور عین اسی لمحے ۔۔۔ عین اسی لمحے میلانیہ ہاتھ بڑھا کر اپنی الجھی لٹ سلجھانے لگیں۔

بھیا ٹرمپ، آپ ایک طاقت ور ملک کے صدر بے شک ہیں، لیکن گھر میں تو آپ صرف ایک شوہر ہی ہوں گے۔ لہذا اگلے چار سال خیریت سے گزارنے ہیں تو اپنے گھریلو معاملات ٹھیک کریں۔ بیگم کوئی امت مسلمہ تو ہے نہیں کہ اس کے ساتھ جیسا چاہیں سلوک کر لیں۔

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood