پیپلز پارٹی مر رہی ہے


”میں اب پارٹی میں اجنبی ہوں۔ میں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ مجھے پارٹی چھوڑنے کی اجازت دی جائے۔ پارٹی کے کارپوریٹ کلچرکے ساتھ میرا گزارا نہیں ہوتا۔ میں اس کے ساتھ چل نہیں پا رہا۔ میں ایک باوقار انداز میں اس پارٹی کو الوداع کہنا چاہتا ہوں۔ جس کے ساتھ میں نے تیس سال گزارے۔ آصف زرداری سے میں نے ملاقات بھی کی۔ چیرمین بلاول بھٹو کو وٹس ایپ میسج بھی کیا۔ کوئی جواب نہیں آیا۔ میں پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر رہا ہوں“۔ نوابزادہ غضنفر علی گل

گجرات کے چودھریوں کے مستقل سیاسی حریف نواب فیملی سے ان کا تعلق ہے۔ وقت بدل جاتا ہے ایک وقت میں نوابزادہ فیملی گجرات کی سیاست کا مرکز تھی۔ پھر چودھری ظہور الہی سیاسی منظر پر آئے ان کے بعد ان کے وارث ان کے بیٹے اور بھتیجے۔

نوابزادہ صاحب سے تعلق پرانا ہے۔ ان سے اکثر بات ہوتی رہتی تھی۔ نجم سیٹھی، نواز شریف، شہباز شریف اور نوابزادہ غضنفر گل اکٹھے پڑھتے رہے ہیں۔ ان کے تعلق پرانے ہیں اور باہمی رابطہ ہمیشہ رہا ہے۔ نوابزادہ صاحب پی پی کے لیے میاں صاحب سے رابطوں کہ لیے ایک اہم چینل رہے۔ نوازشریف کی خواہش کے باوجود انہوں نے پارٹی بدلنے سے گریز ہی کیا۔ ان کے بڑے بھائی گجرات سے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر ایم این اے ہیں۔

نواب صاحب سے جب بھی پی پی کے بارے میں بات ہوا کرتی تو یہ کہتے کہ پارٹی تو اب رہی ہی نہیں۔ پارٹی تو بی بی کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ ہم تو بس بیٹھے تعلق نبھا رہے ہیں اب اس عمر میں کیا پارٹیاں بدلیں گے۔ پچھلے سال ڈیڑھ سے مسلسل اضطراب میں تھے۔ ایک ایسا سیاستدان جو اپنی پارٹی کو اپنے سامنے گم ہوتا دیکھا رہا تھا۔ نواب صاحب نے آخر کار مشکل فیصلہ کر لیا پارٹی چھوڑ دی۔ ان کے بقول جب یہ وہ پی پی ہی نہیں تو اس کے ساتھ چلنا رہنا ہی بے معنی ہے۔

لگتا ہے آصف زرداری صاحب سے دیر ہو چکی ہے۔ پی پی بہت تیزی کے ساتھ ان علاقوں میں اپنا اثر کھو رہی ہے جہاں کبھی اسے چیلنج کرنا ہی مشکل ہوا کرتا تھا۔ پشاور سے ارباب نور عالم نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ نذر محمد گوندل نے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ فردوس عاشق اعوان پی ٹی آئی میں شامل ہو چکی ہیں۔ زیادہ تر لوگ پارٹی کو اس لیے چھوڑ رہے ہیں کہ ان کے نزدیک پی پی میں ووٹر کے لیے کوئی اٹریکشن نہیں رہی۔ الیکٹورل پالیٹکس کے کھلاڑیوں کا ایسا سوچنا زمینی حقائق کے مطابق ہے۔

ان لوگوں کے لیے اداسی کے دن ہیں جن کے لیے پی پی ایک رومانس رہی ہے۔ بھٹو کی پارٹی نے اپنا عروج پنجاب میں دیکھا تھا۔ سندھ بعد میں بھٹو کے پیچھے چلنا شروع ہوا تھا۔ آج پنجاب سے ہی پی پی بیدخل ہوچکی ہے۔ پی پی جسے ضیا مشرف کی آمریتیں نہ مار سکیں اسے پی پی کی اپنی پرفارمنس اور قیادت نے مار دیا۔

اچھی بات صرف ایک ہے کہ پاکستان میں ووٹر اب خیالوں خوابوں کی دنیا سےباہر آ گیا ہے۔ اس نے نام نہاد نظریاتی سیاست کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ وہ حکومتوں کا اور پارٹیوں کا انتخاب کارکردگی کی بنیاد پر کرنے لگ گیا ہے۔ تیسرا الیکشن سر پر ہے، ہم اپنی آنکھوں سے پی پی کو کمزور ہو کر غیر متعلق ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اس پی پی کو جو کبھی پاکستان کی فیصلہ کن قوت تھی۔

پیپلز پارٹی مر رہی ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi