ملالہ اور میڈم کا ٹویٹ


میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ نہ تو ملالہ اور نہ ہی اس کے والد ضیاالدین نے کبھی کوئی میری ذاتی مدد کی ہے اور نہ کبھی کسی چیز کی امید ہے۔ بس ملالہ کے خلاف باتیں اچھی اس لئے نہیں لگی کیونکہ ان میں حقیقت نہیں۔

ملالہ نالائق بچی ہے وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت سے کوسوں دور بلکہ اٗس بھی دور!

 یہ موسم سرما کی ایک ٹھنڈی، یخ اور سرد شام تھی۔ میرے ساتھ میرے ماموں کا بیٹا لقمان خان بھی تھا جو لڑکیوں کی تعلیم کا سخت مخالف تھا کیونکہ وہ اپنے اپ کو قبائلی روایات کا پاسدار سمجھتا تھا اور ہے بھی حالانکہ نہ میں اس وقت اٗس کے خیالات سے متفق تھا اور نہ اب ہوں۔ خیر بات کوئی دوسرا رخ اختیار نہ کرے اس لئے میں ملالہ کی انٹرویو پر آ جاتا ہوں۔

میں اپنے ریڈیو فیچرکا سکرپٹ تقریباؑ مکمل کر چکا تھا بس صرف ضیاٰالدین صاحب کی انٹرویو کا انتظار تھا۔ ضیاالدین نے مجھے ایک جگہ بلایا جو کہ کلینیک تھا۔ اس کے ساتھ انٹرویو جوں ہی ختم ہوا تو ضیاالدین نے کہا کہ ملالئی میری بیٹی ہے اور اپ اس کا بھی چاہے تو انٹرویو کر سکتے ہیں۔ میں جلدی میں تھا لیکن ضیاالدین صاحب کو نا نہیں کر سکتا کیونکہ وہ بے حد نفیس انسان ہیں اور بہت دوستانہ انداز میں ملا تھا حالانکہ وہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔ خیر مروت میں ملالہ کا انٹرویو شروع کیا تو ہر جواب کو انجوئے کرتا رہا۔ انٹرویو اردو میں تھا لیکن ملالہ کی انگلش کا اندازہ انٹرویو کے دوران ہی ہوا۔ روانی، شائستگی، لفظوں کا انتخاب اور انگریزی پر گرفت کا شاید مجھے بھی اتنا پتہ نہ چلتا اگر میں خود ایم اے انگلش ڈگری ہولڈر اور انگریزی زبان کا استاد نہ ہوتا۔ اس کے علاوہ بھی میں انگریزی چینل کیساتھ کام کر رہا تھا اور ملالہ کے انگریزی میں انٹرویو کو اسی طرح لگا لیا کیونکہ اس کی انگریزی میں غلطیاں ہی نہیں تھیں۔ اب اگر وہ انگریزوں کی اولاد ہو تو اس کے ڈی این اے پر کوئی ڈکٹر ہی بات کر سکتا ہے۔ اور جہاں تک مجھے یاد ہے اس طرح کچھ کہا اور لکھا بھی جا چکھا ہے بس کچھ لوگ اپنے اپ کو میڈیا میں ان رکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ کر ہی لیتے ہیں۔ ملالہ ایک ایک اسان اور زبردست زریعہ ہے کیونکہ وہ اب تو صرف سوات کی شہزادی نہیں رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں مقبول ہے۔ یقین نہ آئے تو زرا گوگل کو تو دیکھ۔

اوہ، بھول نہ جاوں کہیں!

انٹرویو کے دوران مجھے بھی شک ہوا کہ اس بچی کو رٹا لگایا ہے ضیاالدین صاحب نے کیونکہ اتنی روانی، شائستگی، کنٹرول، لفظوں کا انتخاب اور اوپر سے بلا کا اعتماد۔ میں نے سوالات اسکول اور سٹڈی سے ہٹا کر ان کی شادی اور دیگر مختلف موضوعات پر شروع کیے تو بھی بہترین جوابات ملے۔

اس بات کو اللہ گواہ ہے کہ ہضم نہیں کر سکتا کہ ملالہ نالائق بچی تھی، بلکل بھی نھیں، کیونکہ جرنلزم اور پڑھانے کے پیشے نے اتنا تو سکھایا ہے کہ نالائق اور لائق کے درمیان اسانی سے فرق کر سکوں۔

ہاں البتہ پشتونوں کی روایات کے برعکس میں نے ایک والد کے سامنے اس کی بیٹی جو میری بھی بیٹی کی طرح ہے سے اس کی شادی کے متعلق سوالات کئے لیکن یہ بھی غلط نہ ھو گا کہ ایک غیرت مند پشتون باپ کی طرح ضیاالدین صاحب مسکرا رہے تھے اور ایک قابل بیٹی کے باپ ہونے پر مغرور اور فخر بھی ان کے چہرے پر عیاں تھا۔ انٹرویو کے دوران ہی مجھے اس بات پشیمانی اور شرمند گی ہونے لگی۔ مگر انسان ہوں،خطا ہو سکتی ہے

اوپر سے رہی سہی کسر لقمان نے پوری کی جب اس نے انٹرویو کے ختم ہوتے ہی کہا ‘‘یارہ، کمال کی بچی ہے۔ قابلیت کی حد ہے بس یہ کچھ نہ کچھ بنے گی۔’’

لقمان اور اس کا یو ٹرن! یقیناؑ صرف ملالہ کی طرح قابل اور ذہین بچی ہی کر سکتی تھی۔ لقمان اب بھی ملالہ سے بہت متاثر ہے، جا کر لنڈیکوتل کے ملک نادرخان ذخہ خیل کے گاوں میں پوچھ سکتے ہیں۔

میرے جذبات لقمان سے زیادہ تھے مگر میں خاموش رہا کیونکہ میں ملالہ پر ہی اپنی فیچر بنانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔

ضیاالدین سے اجازت لیتے ہی اس نے کہا ـ {She is made for skies not for caves}

میں نے اسی جملے سے ہی اپنے ریڈیو فیچر کا اغاز کیا اور ملالئ کا نام گلالئ رکھا کہ اسکو کوئی مشکل نہ ہو۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ضیاالدین نے اس کو ملالئئ کے نام سے ہی پکارا تھا۔ اب اگر میڈم صاحبہ ملالئ کو ملالہ کہنے پر اعتراض کرے تو میں اس کے ساتھ ہوں کیونکہ ملالئ میں پشتونوں کو زیادہ اپنایئت لگتی ہے۔ ہاں البتہ یہ اور بات ہے کے اب ملالہ ایک سلیبرٹی اور انٹرنیشنل شخصیت بن گئی ہے۔ سی ایس ایس پاس کرنے والے تو کیا بہچتے ہیں، کنیڈا کے چہیتے وزیراعظم بھی ملالئی کا فین ہے۔

{She is made for skies not for caves} جملے کو زہن میں رکتھے ہوئے اب میڈم صاحبہ کو مجھے بھی سکرپٹ کا حصہ سمجھنا چاہئے کیونکہ ملالہ کے نام پر ‘‘سیارے’’ کا نام بھی رکھا گیا ہے اور ملالہ خود بھی کہکشاں کے کسی چمکتے دمکتے ستارے سے کم تو نہیں اب اگر کوئی جلے تو برنال ہی اچھا اور فوری علاج بھی۔ ہماری اتنی قسمت کہاں کیونکہ ہماری اوقات تو ملالئ کیا اس کے دوستوں تک بھی نہیں پہنچتی تو میڈم کیوں ہمارا نام لے!

اب میڈم کی طرف اتا ہوں۔

میڈم سے انٹریو کئلیے ٹائم لے کر ان کے گھر پہنچا۔ میرے کیمرہ مین دوست سراج اور اعجاز بھائی بھی ساتھ تھے۔ بےحد احترام کیساتھ۔ ۔ ان کے گھر میں داخل ہوتے ہی میڈم نے کہا کہ اپ لوگ جرنلسٹ ہیں لیکن اپ نے وہ کرنا ہو گا جو وہ کہے اور اسے اچھا لگے۔ ہاں کی بجائے خاموشی پر ہی اکتفا کر لی کیونکہ کبھی اس طرح کیا نہیں تھا۔ میڈم کا نیا پشتو انٹرویو میری بات کی گواہی کے لیے کافی ہی ہو گا۔ بیچارے صحافی دوست کے ساتھ بس ہمدردی ہی کر سکتا ہوں۔

میڈم نے شاہین بونیری صاحب کا ذکر کیا تومعلوم ہوا میڈم اس سے بھی خوش نہیں تھیں، معلوم کیا تو بونییری صاحب نے اسے اسکے انٹرویو کا لنک یا انٹرویو نہیں بھیجی تھی تو سراج نے مسکرا کے میری طرف دیکھا مطلب یہ تھا کہ میں نے بھی کبھی بھی اپنی انٹرویو کسی کو بھی نہیں دی ہے۔ مطلب کہ میری بھی خیر نہیں!

میڈم صاحبہ سے ہم انٹرویو لے رہے تھے کڑھائی سلائی کے سنٹر کے بارے میں لیکن باتیں ہو رہی تھی پورے جہاں کی۔ باتوں باتوں میں میڈم نے رحمان ملک اور زرداری صاحبان کے خلاف باتٰیں شروع کی کیونکہ اس وقت پی پی پی پی کی حکومت تھی۔ پہلے تو ہم سمجھے میڈم صاحبہ دیگر عوام کی طرح اٗن صاحبان پر غریبوں کے خلاف پالیسیوں کی وجہ سے اٗن سے نالاں ہے لیکن پھر بھی جرات کرکے وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ ملک صاحب نے سیدپور میں میڈم صاحبہ کو ڈسپلے کے نام پر دوکان الاٹ نہیں کی ہے۔ شکر ہے کی اس وقت وجہ پوچھ ہی لی تھی ورنہ پتہ نہیں ان کے مخلفین ناحق اور غلط فہمی میں میرا بھی اضافہ ہوتا۔

میڈم پی ٹی آئی کے سیٹ پر قومی اسمبلی ائی تھی لیکن پارٹی کے فیصلہ کرنے کے باوجود سیٹ نہیں چھوڑی اور ریکارڈ پر موجود ہے کہ وہ عمران خان اور پی ٹی ائی کے خلاف بات کر تی تھیں جوکہ الیکشن قریب آتے ہی تھوڑی تھم سی گئی ہے۔ اب ہم تو یہی ہی سمجھیں گے کہ پھر پی ٹی آئی کے سیٹ پر قومی اسمبلی کے سیٹ پر نظریں ہیں

بادشاہ بادشاہ ہی ہوتے ہیں، گھمنڈ،غرور، تکبر اور بڑائی ایسے لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے۔

میڈم! جان کی امان پاوں تو اپ نے طارق افغان کو بھی ٹویٹر پر بلاک کیا تھا کیونکہ اس نے بھی آپ کی باتوں سے اختلاف کیا تھا اگر یاد ہو تو۔ طارق افغان نوجوان وکیل اور ایکٹیویسٹ ہے جو ہمیشہ ہی بابنگ دہل اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔

میڈم! اللہ نے اپ کو پی ٹی ائی کی وجہ سے کرسی دی ہے اور میں وثوق سے کہتا ہوں کہ وہ بھی دوبارہ نہیں دیں گے اور نہ ہی ملے گی اپ کو جبکہ ملالہ کو اسکی قابلیت اور بہادری سے مقام ملا ہے۔

 بادشاہی کب کی ختم ہوئی ہے اب غریب استاد اور محنتی بچیوں اور بچوں کو ہضم کرنا ہو گا بلکہ نہ کہ فرعونیت کی پیروی۔ یہی وقت کا تقاضہ ہے۔ فرعون بچوں اور بچیوں کو قتل کرتا تھا کہ اس کو اپنی کرسی، عہدے، رتبے اور مقام کا ڈر تھا کہیں اپ تو اس طرح نہیں؟ بادشاہ کے خاندان کی تو اپ بھی ہیں؟۔

ہسے یوہ خبرہ دہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).