سوشل میڈیا سے خائف اشرافیہ  (1)


باقی دنیا کے  لیے سوشل میڈیا رابطے کا کوئی اضافی ذریعہ ہوگا مگر پاکستان جیسے ملک میں یہ اظہار رائے کا ایک غیر معمولی ذریعہ ہے۔  جس سرزمین پر اظہار رائے جیسا بنیادی حق یرغمال ہو وہاں سوشل میڈیا کا کردار وہی ہوجاتا ہے جو تیرھویں صدی کے آخر اور چودھویں صدی کے اوائل میں لگنے والے پرنٹنگ پریس کا تھا۔علم اور سچائی بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلتے ہیں۔ فریب کاریوں پر اٹھائے گئے معاشروں میں ان کا یوں سر عام ساتھ چلنا فحاشی کے زمرے میں آتا ہے۔علم اور سچائی  پر عام آدمی کی نظر پڑ جائے یہ  مذہبی اشرافیہ کے ہاں غیرشرعی اور سیاسی اشرافیہ کے ہاں غیر قانونی ہوتا ہے۔ پرنٹنگ پریس نے علم اور سچائی کو بے پردگی کا پہلا موقع دیا ۔یورپ میں پہلا چھاپہ خانہ لگا تو ایوان اقتداراورکلیسا میں پھیلنے والی تشویش کی لہر کی شدت یکساں ریکٹر اسکیل پر ریکارڈ ہوئی تھی۔ علم جوکہ صرف مذہبی اشرافیہ اور سیاسی اشرافیہ کے ہاں یرغمال تھا، عام آدمی تک اس کی رسائی کا امکان پیدا ہوا۔ اثر ورسوخ سے محروم مگر ذہانت سے بھرپور آدمی کے لیے امکانات روشن ہوئے کہ وہ اپنے نئے خیالات کولکھ کر چھپواسکے۔پڑھنے والوں کے لیے ممکن ہوا کہ وہ نئے خیالات دینے والی کتابیں خرید سکیں ، کرائے پر لے سکیں  ،  کتب خانوں میں جاکر پڑھ سکیں یا پھرجن صاحبِ استعداد لوگوں نے  کتاب خرید کرپڑھ لی ہے ان سے اس کتاب کا مرکزی خیال جان سکیں۔ نئے خیالات کو شیخ وشاہ نے ہمیشہ ریاست اور مذہب کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔چنانچہ یورپ کے چھاپے خانوں کے خلاف کلیسا نے فتوے صادر کیے اور ایوان اقتدار نے ان پر عمل درامد کیا۔

شیخ وشاہ کے باہمی دلچسپی کے اسی اتفاق کے تحت دو صدی سے زائد کے عرصے تک   پبلشروں کو موت کی سزائیں دی گئیں۔  مارے جانے والے تمام پبلشر ز کو دو ٹائٹل ملے۔ غدارِ وطن اور گستاخ ِ مذہب۔ جان ٹوائن تو اس حوالے سے استعارہ ہیں۔ استعارہ اس لیے کہ پیسے کمانا ان کا ترجیحی مقصد نہیں تھا۔ بنیادی طور پر وہ ایک سوچنے والے آدمی تھے۔ سوچنے والا ذہن  اپنے نتائج فکر کا اظہار کیے بغیر سکون نہیں پاسکتا۔جان ٹوائن کا ترجیحی مقصد اس فکر کی ترویج تھا جسے وہ نئی نسل کے لیے بہتر سمجھتے تھے۔ ٹوائن  نے اسی مقصد کے تحت ایک قابلِ دست اندازیِ پولیس  کتاب شائع کر دی۔ مصنف کا نام چھپا دیا۔ اس کتاب نے شیخ کی حرم اور شاہ کی بزم میں بیک وقت  فکری ارتعاش پیدا کردیا۔ کیونکہ کتاب کا متن اقتدار میں عوام کی براہ راست شراکت پر اصرار کرتا تھا۔جب اشرافیہ کی سیہ کاریاں اشرافیہ کے ہی گھڑے ہوئے مفروضوں اور الوہی تصورات کے دم قدم سے آباد ہوں تو سچ کہنے سے ریاست اور مذہب دونوں خطرے میں پڑجاتے ہیں ۔ٹوائن سے مصنف کا نام پوچھا گیا، نہیں بتایا۔شیخ نے قتل کا فتوی دیا قاضی نے قتل کا فیصلہ دیا۔ کتاب شائع کرنے اور نام چھپانے کے جرم میں اسے پھانسی دے دی گئی۔ پبلشر، قاضی ، مفتی  ،حاکم  اور ان کے حامی دانشور وںمیں سے آج کوئی نہیں ہے۔پرنٹنگ پریس اور اس سے شائع ہونے والا سچ موجود ہے۔ یعنی ٹائن موجود ہے۔    

سلطنت عثمانیہ میں پہلا پرنٹنگ پریس پندرھویں صدی  کے پہلے نصف میں  ابراہیم  رعدنے لگایاتھا۔ اس پرنٹنگ پریس کے خلاف پہلے جمعے کے خطبات میں اشتعا ل انگیز تقاریر ہوئیں بعد ازاں معاملہ شیخ الاسلام کے حضور میں پہنچا۔ معاملے کا بغور جائزہ لینے کے بعد شیخ الاسلام نے تفصیلی فتوی جاری کیا۔فرمایا،” پرنٹنگ پریس  کی مشینوں پر قرآن  مجید کی کوئی آیت یا حدیث مبارکہ کا کوئی ٹکڑا شائع کرنا  براہ راست اسلام کی توہین ہے۔اور ایسے الفاظ جو قرآن وحدیث کا حصہ تو نہیں ہیں مگر مقدس تصور کیے جاتے ہیں ان  کی اشاعت باالواسطہ اسلام کی توہین ہے۔ پریس کی مشینوں پر کتابوں کی اشاعت یہود ونصاری کی مشابہت ہے اور ازروئے حدیث جو کفار کی مشابہت اختیار کرے گا وہ ہم میں سے نہیں ہوگا۔  جو لوگ  اشاعت کا یہ جرم  کررہے ہیں وہ توبہ کریں۔ جو اشاعت کا سلسلہ جاری رکھیں وہ ازروئے شرع توہینِ اسلام  کی سزا کے مستحق ہیں”۔  اس فتوے کے بین السطور میں چھپے منشاکو غیرت مند مسلمانوں نے سمجھ لیا۔ منشا کے عین مطابق وہ اشتعال میں آگئے  اور تکبیر کی صداوں میں ابراہیم رعد کے چھاپے خانے کونذر آتش کردیا۔ابراہیم رعد جان بچا کر دائیں بائیں  ہوگیا۔ رات کی تاریکی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ استنبول چھوڑ کر اسکندریہ کے ایک دور افتادہ گاوں میں روپوش ہوگیا۔ اسلام کو پرنٹنگ پریس سے لاحق خطرات کے حوالے سے جب ہر طرف اطمینان کے سائے پھیل گئے تو پندرھویں صدی کے دوسرے نصف میں ایک عبقری عالم سعید آفندی نے پرنٹنگ پریس لگادیا۔ مذہبی حلقوں میں پھر سےا شتعال پھیل گیا۔ سعید آفندی کو حاکم وقت  سلطان احمد سوئم کی خاموش تائید حاصل تھی ۔(اس نے سوچاہوگاکہ اس سے پہلے یوٹیوب پر پابندی لگا کر ہم نے کون سا فائدہ حاصل کرلیا تھاجو اب فیس بک پر بھی پابندی عائد کردی جائے)۔راسخ العقیدہ طبقے میں اشتعال تو تھا مگر حاکم وقت کی اس خاموش تائید ہی کے سبب  فتوی سازکارخانوں کی چمنیاں غیر متوقع طور پر کچھ ٹھنڈی پڑی ہوئی تھیں۔ مگر تابکہ؟ نکڑوں اور حجروں میں بیٹھے اینکر صاحبان نے اشتعال کی آنچ کوشام کے  آٹھ پانچ پہ رکھا ہوا تھا۔ اشتعال بڑھا تو شیخ الاسلام نے نیا فتوی جاری کیا ۔چونکہ اس فتوے نے وزارت داخلہ کی پالیسی بھی بننا تھا اس لیے  پہلے والے فتوے کی نسبت یہ نیم سیاسی فتوی تھا۔ فرمایا، پرنٹنگ پریس لگانے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ قرآن وحدیث کی اشاعت ان مشینوں پر نہ ہو، آئین ان دو قسم کی اشاعتوں کو  گستاخی تصور کرتا ہے۔ یہود ونصاری کا لٹریچر ان مشینوں پر چھاپنے کی البتہ اجازت ہے، اس سے  کسی بھی طرح کا وقار مجروح نہیں ہوتا”۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).