ایمن آباد کے اجڑے مندر


6 دسمبر 1992ء کو بھارت کی ریاست اتردیش کے شہر ایودھیا میں ایک انتہاپسند ہندو تنظیم کی جانب سے بابری مسجد پر چڑھائی کی گئی اور سولہویں صدی کی اس یادگار کو شہید کردیا گیا۔ ہندوئوں کا ایمان ہے کہ ایودھیا ان کے بھگوان رام کی جنم بھومی ہے اور مغلیہ دور میں تعمیر ہونے والی یہ مسجد ٹھیک اُسی جگہ بنائی گئی تھی جہاں رام کا جنم ہوا تھا۔ اس فساد میں ہزاروں مسلمانوں کے شہید ہونے کی خبریں آئیں جس پر پوری امت مسلمہ کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور مذمتی بیان جاری کیے گئے۔ ہمارا موقف یہ تھا کہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا احترام ہر مذہب میں سکھایا جاتا ہے اور ہندوئوں نے مسجد کا احترام نہ کرکے انتہاپسندی اور جہالت کا ثبوت دیا ہے۔ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی اگر آپ کو جہالت کا سرٹیفکیٹ دلاتی ہے اور اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ سرٹیفکیٹ صرف ہندو ہی جیت سکتے تھے اور انہوں نے یہ کارنامہ 1992ء میں کر دکھایا ہے تو ایک لمحے کے لئے رُک جائیں۔ ہم سومنات کا مندر اس سے کئی سال پہلے توڑ چکے تھے اور اس کی تازہ مثال بھی موجود ہے جس کے لئے آئیے میں آپ کو گوجرانوالا کے نواحی قصبے ایمن آباد لئے چلتا ہوں۔ ممکن ہے آپ بھی کسی اور طرح سے سوچنا شروع کردیں۔

لاہور سے جی ٹی روڈ کے ذریعے گوجرانوالا جاتے ہوئے کامونکی سے تین چار کلومیٹر آگے موڑ ایمن آباد کے نام سے ایک بس سٹاپ آتا ہے جہاں سے شمال کی سمت 4 کلومیٹر پر ایمن آباد کے نام سے ایک قصبہ صدیوں سے آباد ہے جو لاہور ہی کی طرح ایک والڈ سٹی تھا جس کے تاریخی دروازوں کے نشان آج بھی ملتے ہیں۔ ایمن آباد کسی وقت میں بھائی چارے کی ایک عمدہ مثال پیش کرتا تھا جہاں ہندو، سکھ، مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ باہم شیروشکر تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہاں مندر بھی موجود ہیں، گردوارے بھی اور مساجد بھی۔ مگر تقسیم کے بعد دیگر مذاہب کے لوگوں اور ان کی عبادت گاہوں کے لئے حالات قدرے تبدیل ہوتے گئے۔ نظراندازی کا چلن جب عام ہوا تو یہاں موجود گردوارے روڑی صاحب نے بھی مشکل دن دیکھے۔ سکھوں کے یہاں سے چلے جانے کے بعد گردوارہ ویرانیوں کا مسکن بن گیا اور عنقریب یہ کھنڈر میں بدل جاتا مگر چند سکھ خاندان اس کے اردگرد آکر آباد ہوگئے اور انہوں نے رضاکارانہ طور پر اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھائی۔ یہی وجہ ہے کہ گردوارہ آج کافی حد تک بحال ہوچکا ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

بات یہاں تک تو ٹھیک تھی مگر شہر کے اندر موجود تین مندروں کی حالت دیکھ کر ہمیں بحیثیت قوم اپنی سوچ اور ذہنیت پر شرمندگی سے دوچار ہونا پڑا۔ شہر کے اندر اس وقت تین مندر موجود ہیں اور تینوں کی حالت دِگرگوں ہے جسے دیکھنے کے وقت سے لے کر تادمِ تحریر ضمیر پر مسلسل ایک بوجھ سوار ہے۔ شہر میں داخل ہوتے ہی پہلے مندر کا مینار نظر آیا تو اسے قریب سے دیکھنے کا اشتیاق بھی بڑھا۔ دروازے پر جا کر معلوم ہوا کہ مندر کے اردگرد چاردیواری بنائی جا چکی ہے اور چاردیواری کے اندر مندر کے احاطے میں کچھ خاندان رہائش پذیر ہیں۔ ہمیں دروازے پر دستک دینی پڑی اور اندر سے 15، 16 سال کا جو لڑکا برآمد ہوا اس نے جواب دیا کہ گھر میں اس وقت صرف خواتین ہیں لہٰذا آپ اندر نہیں آ سکتے۔ ہم نے اصرار کیا کہ ہم لاہور سے آئے ہیں اور مندر دیکھنا ہے۔

آپ لوگ تھوڑی دیر کے لئے پردہ کروا لیں مگر اس کے باوجود ہمیں اندر جانے کی اجازت نہ مل سکی۔ افسوس تو ہوا ہی لیکن غصہ زیادہ آیا کہ ایک قدیم یادگار کو یوں رہائش گاہ میں تبدیل کر لیا گیا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب سرے سے مندر کے اس مینار کو گرا کر اس کا نام و نشان ہی مٹا دیا جائے گا۔ غصے کی اسی کیفیت میں ہم دوسری جانب بڑھے جہاں دو اکٹھے مینار نظر آ رہے تھے۔ دماغ میں وسوسے جنم لے چکے تھے اور ہم غیرارادی طور پر کسی ایسی ہی غیر متوقع صورت حال کے لئے تیار ہوچکے تھے۔ چنانچہ وہی ہوا جس کے بارے میں بار بار دماغ میں خیال منڈلاتا تھا اور ہم اسے بار بار جھٹک دیتے تھے کہ نہیں ایسا ویسا کچھ نہیں ہوگا، پہلے مندر کے علاوہ باقی دونوں میں حالات اس سے قدرے مختلف ہوں گے اور وہ واقعی بہت مختلف تھے۔

گلی سے ہم اندر داخل ہوئے اور رہائشی مکانوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ چل نکلا جو مندر کے احاطے سے ذرا پہلے دائیں بائیں مڑ گیا۔ سامنے والا مندر خاصی حد تک خستہ حالی کا شکار تھا جس کے سامنے اور بغلی دونوں دروازوں پر تالے لگے ہوئے تھے۔ بغلی دروازے والا تالہ تو ساخت کے اعتبار سے کئی برس پرانا نظر آتا تھا جب کہ سامنے والے دروازے پر لگا تالہ آج کل بھی بازار میں عام دستیاب ہوتا ہے جس سے اندازہ ہوا کہ یہ تالا کسی آج کے انسان نے ہی لگایا ہے اور اس کی چابی بھی ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ وہاں موجود ایک لڑکے سے ہم نے چابی کی بابت سوال کیا تو انہوں نے پاس والے گھر میں رہائش پذیر ایک بابا جی کی طرف اشارہ کیا کہ چابی ان کے پاس ہوتی ہے۔ ہمیں اتفاق سے بابا جی بھی نظر آ گئے۔ ان سے ہم نے چابی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے محض ہاتھ کے اشارے سے ہی ہمارے سوال اور ہمارے وجود کو جھٹکتے ہوئے دوسری طرف کی راہ لی اور غائب ہو گئے۔

اب ہمیں تجسس ہوا کہ مندر کے اندر ایسی کیا چیز موجود ہوگی جس کی وجہ سے بابا جی نے خالصتاً ذاتی طور پر اس کے دروازے کو مقفل کیا ہوا ہے۔ ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ مندر کے اندر کیا کیا چیزیں رکھی گئی ہیں۔ ہوسکتا ہے ہمیں کوئی پرانی مورتی دیکھنے کو مل جائے، کوئی تاریخی ترشول پر ہماری نظر پڑ جائے، کوئی مٹی کا دیا، کوئی پھولوں کی مالا، کوئی سیندور کی ڈبیا ہمارے بصری تجربے کا حصہ بن جائے۔ سامنے والے دروازے کی بغل میں دیوار سے ایک اینٹ نکال کے چھوٹا سا سوراخ کیا گیا تھا۔ ہماری نظر اس پہ پڑی اور اس سوراخ کی مدد سے ہماری نظر اس قابل ہوگئی کہ احاطہء مندر پر پڑ سکتی۔ پہلی نظر میں جو نقشہ ہمیں نظر آیا ہم نے فوراً اس امیج کو جھٹک دیا کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ مگر باری باری جب تک سب لوگ سوراخ میں سے دیکھ کر اپنی اپنی تسلی کر چکے تھے تب تک ہمارے چہرے اتر چکے تھے اور ہم گونگے ہو چکے تھے۔ مندر کے اندر ایک ٹوکہ مشین لگی ہوئی تھی جو مویشیوں کے لئے چارہ کاٹنے کے کام آتی ہے۔ یہ ٹوکہ مشین رواں حالت میں موجود تھی اور جن بابا جی کے پاس اس تالے کی چابی تھی یہ ٹوکہ مشین انہیں کی ملکیت تھی اور انہیں کے زیراستعمال تھی۔ لہٰذا ہم قطعاً یہ نہیں کہہ سکتے کہ مندر ویران پڑا تھا۔ آس پڑوس کے مسلمان رہائشیوں نے اسے آج تک آباد کر رکھا ہے اور یہ سب جان کر اگر ہمیں غصہ آیا ہے تو آپ اسے محض ہماری کم عقلی اور تاریخ سے کم علمی ہی سمجھئے۔ آپ نارمل رہیے۔

اگر آپ کو بھی یہ دیکھ کر غصہ آیا ہے تو آپ بھی ہماری طرح قابل رحم ہیں۔ جتنی پکچر ہم اس وقت تک دیکھ چکے تھے ہمارے لئے اتنی ہی کافی تھی مگر تھوڑی دیر میں ایک دوست نے دوسرے مندر کی طرف اشارہ کرکے آواز لگائی کہ پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست۔ اس تیسرے مندر کی حالت مذکورہ بالا دونوں مندروں سے زیادہ قابل رحم اور شرم دلانے والی تھی۔ مندر کے بالکل اندر، مطلب مندر کے صحن میں نہیں بلکہ مندر کے احاطے میں ایک طرف ایک بڑی سی بکری بندھی ہوئی تھی اور دوسری طرف ایک بیل اور دونوں کا فضلہ بھی ان کے پائوں کے نیچے مندر کے اندر ہی پڑا ہوا تھا۔ پچھلے مندر پر تالا دیکھنے تک ہماری ہمت اس قابل تھی کہ ہم نے بابا جی سے چابی مانگ لی تھی مگر یہ منظر دیکھنے کے بعد تو ہم کسی سے بات کرنے کی حالت میں بھی نہیں رہے تھے۔ ہم اجتماعی طور پر اپنے رویوں اور اپنے دعوئوں پہ شرمندہ تھے اس لئے خاموشی سے باہر آ گئے۔ ایمن آباد کے چوک میں سے گزرتے ہوئے ہم یہی سوچ رہے تھے کہ یہاں کی کھلی کھلی اور صاف ستھری گلیوں اور اونچے اونچے اونچے کشادہ مکانوں کے بیچوں بیچ بسنے والے انسان کس قدر تنگ نظر و تنگ دل ہیں۔ محکمہ آثارِ قدیمہ اور محکمہ اوقاف کے آثار کہیں نظر آئیں تو ان سے اپیل کریں کہ آپ لوگ بھی کسی دن ایئرکنڈیشنڈ گاڑی سے زمیں پہ اتریں اور ہلکا پھلکا سا ایک دورہ ایمن آباد کا بھی کرلیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).