ڈاکٹر پرویز ہودبھائی : کچھ اتفاق کچھ مزید سوالات


ہم سب کے سلسلہ انٹرویوز میں جناب پرویز ہودبھائی نے جن خیالات کا اظہار کیا تھا اس پر اپنےطالب علمانہ سوالات کے حوالے سے کچھ خام لکھاتھا۔ وہی تحریر قائد اعظم یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے درمیان ہونے والے مسلح تصادم اور عبدالولی خان یونیورسٹی سے اسلحہ برآمدگی کے واقعات کے بعد ایڈیٹ کی ہے ۔ یاد رہے اس تحریر کا جناب پرویز ہود بھائی کے حوالے سے سوشل میڈیا پرشروع ہونے والی مخصوص بحث سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس تحریر میں صرف ان کے شائع کردہ انٹرویو کے حوالے سے کچھ طالب علمانہ گفتگو کی گئی ہے

 ***  ***
ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کی گفتگو میں پہلے سوال کے جواب میں دو چیزیں جو ہم کہتے تھے ان کی تصدیق ان کی گفتگو سے ہوگئی ۔ پہلی بات انہوں نے یہ کی کہ انتہا پسندی شروع سے نہیں تھی اب بڑھ رہی ہے ۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے بچپن کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ “ان کی زندگی کے ابتدائی سال،1950 سے لے کر 1968 تک زندگی کراچی میں گزری ہے جہاں ہرطرح کے مذاہب اور فرقوں کےلوگ رہتے تھے اور وہ ایک دوسرے کی تہواروں میں شریک ہوتے تھے، اب ایسا نہیں رہا “۔ اور دوسری بات انہوں نے مشال خان ، پہلو خان {بھارت} اور چترال واقعے کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان سب سے معلوم ہوتا ہے کہ انتہائی پسند کوئی مخصوص ٹولہ نہیں ہے ، بلکہ یہ خرابی پورے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کی طرح ہم شروع سے اس بات کے قائل رہے ہیں کہ انتہا پسندی ، اشتعال اوراندھی غیرت کا اپنا خود ساختہ معیار ہماری معاشرتی خرابی ہے یہ مدارس یا کسی مخصوص طبقہ کی خصوصیت یا پیداوار نہیں ۔ ایک موقع پر بہت سے لبرل دوستوں نے ہم سے اختلاف کیا اور کچھ انتہاپسند وں نے اپنے تئیں ہماری باقاعدہ کلاس بھی لی۔ مدارس کا وجود یوں تو ہمیشہ سے ہے مگر موجودہ سلسلہ دارالعلو م دیوبند کے قیام کے بعد سے شروع ہوا ہے جس کو ابھی ڈیڑھ سو سال سے زائد ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے جس دور کی مثال دی ہے اس وقت تک مدارس کو وجود میں آئے سوسال ہوچکے تھے ۔ مدارس انتہا پسندی کا باعث ہوتے تو سو سال میں اپنی سار ی “بہار” دکھاچکے ہوتے ۔ اگر سو سال بعد بھی مدارس نے کوئی مذہبی تفریق معاشرے کو نہیں دی تو اگلے پچاس سال کے لیے بھی مدارس کو قصور وار ٹھہرانا مدارس کے کردار کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔
اور ان کی یہ بات کہ انتہا پسندی معاشرے میں ایک ناسور ہے ، یہ کوئی مخصوص ٹولہ نہیں ہے تو تائیداً عرض ہے کہ صرف مذہبی ہی نہیں ہر طرح کی انتہاپسندی اور لاقانونیت ہمارے معاشرے کا حصہ ہے ۔ پسند کی شادی پرپابندی ، گھر سے بھاگنے والی لڑکی کا والد اور بھائیوں کے ہاتھوں قتل یہ سب کچھ صرف ہمارے ہاں نہیں سیکولر بھارت کے ہندووں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ انتہاپسندی اور اشتعال کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ ہمارے ہاں ایک لبرل سیاسی تنظیم کی سربراہ کے مارے جانے پر پاکستان ہی کو توڑنے کی بات کی جاتی ہے ۔ (اس جماعت کے سب سے ذمہ دار رہنما نے انتہائی کشیدہ صورت حال میں پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کیا تھا۔مدیر) قانون ہاتھ میں لے کر سزا دینے کی ایک رسم کراچی شہر میں یہ پڑی کہ چوروں اور ڈاکووں کو پکڑ کر خوب مارا پیٹا جاتا اور لہو لہان کرکے جسم کی ہڈیاں ریزہ کردی جاتیں اور پھر انہیں زندہ جلادیا جاتا ۔ اس طرح کی مثال جمع کرنا شروع کردیں تو صرف ایک سال میں ایک بڑی فائل تیار ہوسکتی ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کی پوری گفتگو پڑھنے کے بعد ایک مسئلہ ان کی گفتگو میں انتہاء پسندی کا سرا ڈھونڈناہے۔ پاکستان میں جب انتہاء پسندی پر بات کی جاتی ہے تو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور ضیاء الحق کے دور کو وہ انتہاء پسندی کی ابتدا قرار دیتے ہیں ۔ یونیورسٹیوں میں جاری شدت پسندی کو وہ آج کا مسئلہ قرار دے کر نصاب پر اس کا الزام لگاتے ہیں ۔ اور جب ان سے بات کی جاتی ہے عالمی دنیا میں بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی کی تو ان کا جواب یہ ہے کہ یہ جدیدیت اور سائنس کے خلاف قدامت پرستی اور مذہب کی مزاحمتی کوششیں ہیں۔
ساری دنیا اور پاکستان کی صورتحال بقول ان کے ایک جیسی خرابی کی طرف بڑھ رہی ہے مگر اس کی وجہ پاکستان میں الگ ہے اور پوری دنیا میں الگ ہے یہ بات سمجھ سے کچھ بالاتر ہے۔ چلیے مان لیتے ہیں پاکستان میں مذہبی انتہاء پسندی کی ابتداء قادیانی مسئلہ سے ہوئی ہے تو پھر دوسری اشتعال انگیزیوں یا معاشرتی انتہاء پسندیوں کی ابتداء کی وجوہات کیا ہیں ؟ اس پر بھی کچھ غور کیا جانا چاہیے ۔ ایک لیڈر کی شہادت پر ہم پورا ملک توڑنے کی بات کیوں کرتے ہیں۔ مشال خان کو مارا جاتا ہے تو یہ مذہبی انتہا پسندی کی بھیانک شکل ہمارے سامنے ہے ، کراچی میں چوروں کو مارمار کر خوب زخموں سے چور کیا جاتا ہے ، ان کے جسم میں ہڈیاں ریزہ ریزہ کی جاتی ہیں اور پھر انہیں زندہ آگ میں بھڑکادیاجاتاہے ، اس انتہا پسندانہ رویے کا آغاز کب سے ہوا تھا؟
یونیورسٹیوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی وجہ اگر نصاب ہے تو جو شدت پسندی ہماری یونیورسٹیوں میں پہلے سے پائی جاتی تھی اس کی وجہ کیا ہے ۔ سیاسی اور لسانی تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان یونیورسٹی اورکالج ہاسٹلوں میں فائرنگ کے تبادلے ، تشدد اور ہاسٹلوں پر قبضہ کے واقعات آج بھی آئے روز پیش آرہے ہیں۔ یہاں بلوچستان میں ہم نے خود ایسےواقعات دیکھے ہیں جہاں دو لسانی تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان لڑائی ، فائرنگ اور ایک دوسرے کے کارکنوں پر تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ سیاسی یا لسانی جنگوں کے علاوہ ایسے واقعات بھی یہاں رونما ہوچکے ہیں جہاں تعلیمی اداروں کےگرلز ہاسٹل سے طالبہ کی کئی دن پرانی لاش ملی ہے ۔اور یہ متشدد سلسلہ کبھی کم یا ختم نہیں ہوا ۔ ان سب کی وجوہات کیا ہیں؟
ایک بات انہوں نے اور بھی کی ہے جس سے ہم ان سے اختلاف کی جرات کریں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ” اگرچہ انتہا پسندی پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے لیکن جتنی خرابی پاکستان کے اندر آ چکی ہے، جتنا تعصب، جتنی نفرتیں ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری گئی ہیں، اس کا مقابلہ ہم کسی اور ملک کے ساتھ نہیں کر سکتے۔”
اگر ایسا ہی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بھارت میں مودی جیسا متشدد ہندو اپنے تعصب ہی کی بنیاد پر مقبولیت حاصل کرلیتا ہے اور ملک کا وزیر اعظم بن جاتا ہے مگر پاکستان میں حافظ سعید کو ان کا مخصوص طبقہ ہی فیور کرتا ہے ۔ بھارت میں شدت پسند ہونا سیاسی طورپر کامیابی کی ضمانت ہے ،پاکستان میں ہر شدت پسند میڈیا پر اپنا امیج بہت صاف رکھنے کے لیے وسعت نظری اور برداشت کی بات کرتا ہے ۔ پاکستان میں ٹرمپ جیسا قوم پرست لیڈر اب تک پیدا ہی نہ ہوسکا کیوں کہ یہاں اس رویے کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔ لبرل بے نظیر دو مرتبہ وزیر اعظم بن گئیں ، مولانا احمد لدھیانوی کی جماعت اپنے ایک حلقے سے باہر نہیں آسکی ۔ علامہ ساجد نقوی کو اب تک پارلیمنٹ کا راستہ بھی شاید صحیح طریقے سے معلوم نہیں ہے۔ چین جیسا ملک جو ترقی کی شاہراہ پر سر پٹ دوڑ رہا ہے وہاں بھی اپنی کمیونزم سے باہر کوئی شخص قدم رکھنے کی نہیں سوچتا۔ پاکستان کو جتنا ہم نے آزاد ملک بلکہ نظریاتی ہائیڈ پارک بنارکھا ہے ایسی مثال دنیا کے بہت سے اچھے جمہوری ملکوں میں نہیں ملتی۔
مقصد کہنے کا یہ ہے کہ انتہاء پسندی صرف مذہبی نہیں ہر طرح کی انتہاء پسندی ہمارے معاشرے کا حصہ ہے ۔ اور یہ افسوسناک رویے جنم لیتے بھی رد عمل میں ہیں ۔اور یہ ردعمل ایک دن کا نہیں ہوتا ۔ معاشرے میں پھیلتی ہوئی ہر چھوٹی سے چھوٹی محرومی اس میں ایک درجہ اضافہ کرتی ہے ۔ تعلیم اور اس سے زیادہ بہترین اخلاقی تربیت کا فقدان ، کرپشن اور عدالتی ناانصافی یہ تین اسباب ہیں جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ جہالت کی جانب روز بروز بڑھ رہا ہے ۔ اور یہ بات تو پتھر پر لکھ کر رکھیے کہ اگراس معاشرے میں یہی چیزیں زندہ رہیں تو آگے اس سے بھی زیادہ انتہا ء پسندی اور لاقانونیت بڑھتی رہے گی ، چاہے آپ معاشرے کو مذہب سے بالکل ہی خالی کرلیں ، اور یہاں کسی مذہب کا کوئی نام لیوا نہ رہے تب بھی تشدداور انتہاء پسندی بڑھے گی اور بڑھتی رہے گی۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مشہور قول دہراتے ہیں ۔ فرمایا:”مملکتیں کفر کے ساتھ تو چل سکتی ہیں مگر ظلم کے ساتھ نہیں”۔ ظلم اسلامی مملکت میں ہو یا غیر مذہبی ریاست میں ، معاشرے کو مزید ظلم سے بھرتا رہے گا ، ایسی قوموں کا زوال پھر کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).