نرگسیت زدہ مقبولیت پسندی اور وکیلوں کا منصب


  گزشتہ دنوں کینیڈا کی سپریم کورٹ کی جسٹس ’روزالی اَبیلا ؔ، Justice Rosalie Abella   نے امریکہ کی ایک جامعہ کی تقریبِ اسناد میں، دنیا بھر میں ’ نرگسیت زدہ مقبولیت پسندی ‘ Narcissistic Populism کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تنقید کرتے ہو ئے کہا تھا کہ طالب علموں کو اس رجحان کے خلاف مستعد رہنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ شدید حق تلفی اور ناانصافی کا سبب بن رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ جنگِ عظیم کے بعد اقوامِ عالم کے عوام نے عہد کیا تھا کہ سب مل کر ان اقدار کا پرچار اور تحفظ کریں گے جونا انصافی اور حق تلفی کا سدِّ باب کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ، بڑھتی ہو ئی ـ’نرگسیت زدہ مقبولیت پسندی‘، تعصبات کی غیر صحتمندانہ مقبولیت، عدم مساوات کے خلاف دانستہ عدم ِتوجہ، جمہوریت کے وسائل کے بارے میں دانستہ غفلت، صاحبانِ اقتدار اور ایوان ہائے اقتدار کی نگرانی اور جواب دہی کرنے والے اداروں،مثئلاً صحافت اور عدالت کی توہین و ہتک اور ان کے درمیان قائم حدوں کا خاتمہ، اس عہد کو ملیا میٹ کر رہا ہے جو عہد کہ اقوامِ عالم نے انسان اور سماج کی مساوات کے لیئے شروع کیا تھا۔

جسٹس ابیلاؔ نے اس تقریر میں کسی رہنما یا ملک کا ذکر تو نہیں کیا لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ ان کا اشارہ امریکہ، اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ ؔ کی طرف بھی تھا اور دنیا بھر میں اسی قسم کے بڑھتے ہوئے قبیح رجحانات کی طرف بھی۔

ہمارے خیال میں جسٹس ابیلاؔ کے مخاطب صرف ایک امریکی جامعہ کے قانون کے طالب علم ہی نہیں تھے۔بلکہ دنیا کا ہر وہ شہری تھا، جو جمہوریت کی بالا دستی، سماجی حقوق، اور انسانی مساوات کے بارے میں حساس اور فکر مند رہتا ہے۔ ان کی یہ تقریر سن کر ہمارا ذہن پاکستان میں وکیلوں کی اس تاریخی جدو جہد کی طرف گیا جس کے نتیجہ میں ایک آمرِ ِوقت کو شکست ہوئی تھی اور پاکستان سالہا سال کی سختیوں کے بعد اپنے عوام کے درمیان سماجی معاہدے یعنی آیئن کی تجدید کے قابل ہو سکا تھا۔ اس جد و جہد کے نتیجہ میں شاید ہماری عدالتوں کا وہ سیاہ باب بھی مٹا دیا گیا تھا جس میں پاکستان کے عوام کو مختلف نظریہ ہائے ضرورت کے تحت آمرانہ حکومتوں کے زیرِ نگیں رکھا جاتا تھا۔ یہ ایک خوش آئند پیش رفت تھی۔

لیکن اس کے فوراً ہی بعد شاید ہمارے وکلا رہنمائوں نے اپنے منصب فراموش کر دیئے، اور ظلم کے سامنے مظلوموں کے دفاع کے بجائے ظالموں کی بلا واسطہ یا بالواسطہ حمایت کرنے لگے۔ اس کی اہم ترین مثال پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کا بہیمانہ قتل تھا، جس کے بعد وہی وکلا جو اب سے پہلے قانون اور آیئن کی سر بلندی کی صفِ اول میں شامل تھے، ایک قاتل کا منہ چومنے لگے اور اسے ہیرو ثابت کرنے لگے۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جب جب بھی کسی پر توہینِ مذہب کا غیر مصدقہ الزام لگا، ہمارے بعض وکلا نے ان ملزموں کی پیروی سے انکار کر دیا۔ یہ انکار خواہ کسی پر تشدد ہجوم کے دبائو کے تحت کیا گیا ہو یا کسی بھی وکیل کے اپنے عقیدہ کے تحت، یہ رویہ ہر وکیل کا اپنے منصب سے انحراف ہے۔ وکیل کا بنیادی منصب، قانون کے اس بنیادی اصول کا دفاع کرنا ہے کہ ہر ملزم مصدقہ شہادتوں اور غیر جانب دار عدالتی کاروایئوں کے فیصلوں تک معصوم قرار دیا جاتا ہے۔

 ہمارے وہ وکلا جو توہینِ مذہب کے مقدمات میں ملزمان کی پیروی کرنے سے انکار کرتے ہیں وہ پاکستان کے بانی قائدِ اعظم محمد علی جناح کے اس کردار کو فراموش کردیتے ہیں، جس میں انہوں نے وکیل کے منصب پر دیانت دارانہ عمل کرتے ہوئے ملزم علم دین کی سزا کے خلاف اپیل کی پیروی کی تھی، گو کہ وہ یہ مقدمہ ہار گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ وہ واحد مقدمہ ہے جو وہ ہارے تھے۔

یہ بھی من حیث القوم ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم وکلا کو اپنے منصب سے گریز کرتے ہوئے خود اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف ہجوم کشی کرتے دیکھتے ہیں۔ ان ساتھیوں میں عاصمہ جہانگیر بھی شامل ہیں اور اعتزاز احسن بھی۔ یہی رویہ ہمیں جب بھی نظر آتا ہے جب ہمارے دانشمند ماہرینِ قانون زیرِ سماعت مقدمہ کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی مقدمہ کے ایک فریق کے خلاف پُر ہجوم کارروایئوں کی دھمکی دیتے ہیں۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ منتخب وزیرِ اعظم کے خلاف ہماری تحریک، عدالتی احترام کی سابقہ تحریک سے بھی سخت تر ہوگی۔ وہ یہ حقیقت بھلا دیتے ہیں کہ سابقہ عدالتی تحریک آیئن اور عدالت کی سر بلندی کے لیئے تھی۔ جس تحریک کی اب دھمکی دی جارہی ہے وہ عدالت کے ایک اکثریتی فیصلہ کے خلاف ہوگی جس میں عدالت شہادتوں کے عدم وجود کی وجہہ سے واضح فیصلہ نہ کر پائی۔ اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات وکلا ان ہجوموں کی تایئد کرتے ہیں جو عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے لیئے عدالتوں کا گھیرائو کرتے ہیں، یا جو منصفوں کو دھمکیا ں دے کر مقدمات کی کاروائی سے ہٹنے پر مجبور کرتے ہیں۔

ساری دنیا میں وکلا کو اپنے حقوق کے لیئے پر امن عوامی جدو جہد کرنے کا شہری حق حاصل ہے۔ ایسی جدوجہد حال ہی میں بھارت میں بھی دیکھی گئی جو وہاں کے وکلا نے وکیلوں کی ہڑتال کے حق کو سلب کرنے کے خلاف شروع کی تھی۔ ایسی کسی بھی جدو جہد میں پر تشدد ہجومی کاروائی کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔

پاکستان میں جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لیئے، سماجی، انسانی حقو ق کے قیام، فروغ، اور تحفظ کے لیئے دیانت دار اور منصب سے وفادار وکلا کی رہنمائی کی بھی ضرورت ہے، اور انسانی حقوق کے ہر مقدمہ میں ان کی پیروی کی بھی۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کا ہر وکیل اس منصب کو سمجھتا بھی ہے اور اس کو ادا کرنا اپنا فرض بھی گردانتا ہے۔ یہی وہ منصب ہے جس کے بارے میں کینیڈا کی جسٹس ابیلاؔ نے دنیا بھر کے شہریوں کو آگاہ کیا ہے۔ اس منصب کی حفاظت کے بغیر پاکستان اور ہر ملک فسطایئت کے قعرِ مذلت میں گرنے کا قوی امکان رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).