ووٹر اور لیڈر مل کر اپنا برا وقت لاتے ہیں


اکا دکا پولنگ سٹیشنوں سے نتائج آ رہے تھے۔ یہ پاکستان کا ایک اہم حلقہ تھا اورپیر صاحب یہاں سے امیدوار تھے۔ ہم لوگ بار بار بات کرنے کے لیے پیر صاحب کو فون ملا رہے تھے۔ ان کا ملازم بہانے کر رہا تھا کہ وہ مصروف ہیں، تھوڑی دیر تک بات کراتا ہوں۔ تنگ آ کر وہیں پہنچ گئے، جہاں ان کے ہونے کا امکان تھا۔ ملازم نے دیکھتے ہی کہا کہ سائیں ہوری سو رہے ہیں جگانا ہے تو خود ہی جگا لو۔ کسی نہ کسی طرح سائیں کو جگا ہی لیا۔ ان سے پوچھا کہ سائیں کرتے آپ سیاست ہیں، الیکشن کا وقت ہے اورآپ مزے سے سو رہے ہیں۔ سائیں بولے کہ یار یہ الیکشن تو میں ہار چکا ہوں۔ ہم لوگ حیران ہوئے، ابھی تو نتیجہ نہیں آیا۔ سائیں بولے، تمھارا مطلب یہ ووٹوں کی گنتی؟ ظاہر ہے سائیں فیصلہ تو گنتی پر ہی ہو گا۔ سائیں نے کہا یار میں جھک مارتا ہوں سیاست میں اگر مجھے نتیجے کا ہی پتا نہ ہو۔ میں خود کو بھی جانتا ہوں اوراپنے ووٹر کو بھی۔ یہ الیکشن میرا بنتا نہیں ہے، میں ووٹروں کے کام کر کر کے تھک چکا ہوں اور ووٹر مجھ سے کام کرا کرا کے۔ اب اس ووٹر کو مجھے مزید کام کہتے ہوئے شرم آتی ہے اس لیے اس بار وہ میری بجائے سردار کو ووٹ دے کر باقی کام اس سے کرائیں گے۔ سائیں کا یہ قصہ ہمیں ہمارے گرو نے ووٹر لیڈر کا تعلق سمجھاتے ہوئے سنایا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سائیں نوکریاں بانٹنے کے چکر میں عدالتوں میں بھی رلتے رہے۔

ایک قصہ اور یاد آیا۔ ایک امدادی ادارے کے دل میں پاکستانی سیاست کو سدھارنے کا درد اٹھا۔ انہوں نے سوچا کہ سیاستدانوں کو مقامی ایشوز سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی ڈیٹا بیس بنایا جائے۔ جب سیاستدان کو یہ پتا ہو گا کہ حلقے کے مسائل کیا ہیں تو وہ ان کے حل کی کوشش کرے گا۔ سیاستدانوں کو اس پراجیکٹ کی افادیت بتانے کے لیے وسی بابے کا انتخاب ہوا۔ پاکستان میں جگہ جگہ سیاستدانوں سے پھر اپنی بزتی کرا کے یادگار تجربہ حاصل ہوا۔ ”اتھرا گجر“ فلم دیکھنے کا تو اتفاق نہیں ہوا البتہ اسی پراجیکٹ کے سلسلے میں ایک ایسے ممبر صوبائل اسمبلی سے ملنے کا شرف ضرور حاصل ہوا۔ وہ ہماری ساری سکیم سن کر کہ ہم اسے یہ بتا سکتے ہیں کہ اس کے حلقے میں مسائل کیا کیا ہیں، یہاں پر کون کون سی برادریاں ہیں، کتنے بنیادی صحت کے مراکز ہیں، سکولوں میں بچوں کی حاضری کتنی ہے استاد آتے ہیں یا نہیں یہ سب بتا سکیں گے۔ گجر صاحب نے کہا کہ اگر مجھے اپنے حلقے کی یہ سب تفصیلات نہیں پتہ تو میں سیاست میں اپنے ساتھ کیا کرانے آیا ہوں۔ انہوں نے کیا کرانے کی تفصیل بھی بتائی تھی پر چھوڑیں، کیا کریں گے سن کر۔

کل وقتی سیاستدانوں کو اپنے حلقے کا سب پتا ہوتا ہے۔ وہ اپنے ووٹر کے موڈ سے واقف ہوتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہوتے ہیں کہ ان کی سیاسی پوزیشن کیا ہے۔ کس ایشو پر ان کا کون سا موقف، ان کی پوزیشن خراب کرے گا۔ وہ کب رسک لے سکتے ہیں، کب انہیں چپ رہ کر ووٹر کے ساتھ چلنا ہے اور کب ضد کر کے اپنے ہی ووٹر کے سامنے کھڑے ہو جانا ہے۔

ایک وٹو دوست نے بتایا کہ غمی خوشی میں شریک ہونا تو ٹھیک ہے۔ ہم لوگ تو کوشش کرتے ہیں کہ اگر کسی کی بھینس گائے مر گئی ہو تو ا س کے مالک سے بھی افسوس کر لیں۔ لوگ یاد رکھتے ہیں وہ بھی جن کا نقصان ہوا ہوتا ہے اور وہ بھی جو دیکھتے ہیں کہ اس نے افسوس کیا تھا۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے اس کا کہنا تھا بھینس آمدن کا ذریعہ تو ہوتی ہی ہے۔ دودھ دہی لسی کی صورت ایک خاندان کو خوراک بھی فراہم کرتی ہے۔ بہت سے خاندانوں کی مہمانداری کا انحصار ہی بھینس کے دودھ پر ہوتا۔ ایسے حالات میں مال ڈنگر چوری کرانے اور چوری شدہ مال واپس کرانے کی صلاحیت رکھنے والے امیدوار بھی ووٹر کے لیے بہت ہی اہم ہوتے ہیں۔

زرعی ترقیاتی بنک کے دفتروں میں سیاست کے رجحانات تشکیل پاتے ہیں۔ کاشتکاروں کی حالت ان کے مسائل کا بہت کچھ اندازہ ان دفاتر کے ایک چکر سے بھی ہو جاتا ہے۔ اچھے سیاستدان تھانہ کچہری کے ساتھ زرعی قرضوں کی صورتحال پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کے لیے وہ لوگ بہت اہم ثابت ہوتے ہیں جن کے ووٹ زیادہ ہوں، جو بنکوں کے چکر میں پھنسے ہوئے ہوں۔ ساہیوال میں اپنے دوست بنک افسر کے پاس بیٹھے ایک سابق وزیر کو دیکھا۔ وزیر صاحب درجن ڈیڑھ کسانوں کو ہانک کر بنک لائے ہوئے تھے۔ ان سب کو ٹریکٹر دلوانے کے لیے ان کے فارم فل کرا رہے تھے۔ وزیر صاحب سے کہا سر آپ جیسے لوگ ہی پھر الیکشن جیت سکتے ہیں۔ آپ اپوزیشن میں رہ کر بھی لوگوں کا کام کرانے آئے ہوئے ہیں۔ وزیر صاحب اور بنک افسر باجماعت ہنسے، ان کے اس طرح ہنسنے کی وجہ سمجھ نہ آئی۔ دوست نے کہا یہ ٹریکٹر وزیر صاحب لے رہے ہیں بنک سے قرضہ منظور کروا کر، بیچیں گے۔ تو یہ قرضہ واپس کون کرے گا۔ بنک افسر نے کہا ظاہر ہے وہی لوگ کریں گے جن کی زمین گروی ہو گی۔ وزیر صاحب ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ یہ سن کر وزیر صاحب بولے کہ یہ ضروری ہے، ایک تو ان کو یہ پتہ لگے گا کہ میرے پاس گھر چلانے کے لیے بھی پیسے کوئی نہیں۔ دوسرا یہ اگلے الیکشن میں ووٹ پکے ہو جائیں گے، ادھر ادھر بھاگیں گے نہیں۔ تیسرا میرے احسان مند رہیں گے جب انہیں چھڑوایا کروں گا بنک اور پولیس کے چھاپوں سے۔ لوگ اسی لیڈر سے خوش رہتے ہیں جو ان کی ذاتی مصیبتوں میں ان کے کام آئے، چاہے وہ مسئلے اُسی لیڈر نے کیوں نہ کھڑے کیے ہوں۔

زرعی ترقیاتی بنک میں ککڑ حال ووٹروں کا لیڈر کے ہاتھوں حشر دیکھ کر سمجھ آئی کہ ابھی لیڈر ووٹر کا تعلق جاننے کے لیے ہمیں مزید کئی سو سال لوگوں میں خجل ہونا ہے۔ اب لیڈر کو ٹریکٹر کا نذرانہ دینے والے ووٹر سے زیادہ کس کو پتہ ہو گا کہ اگر اس کا لیڈر جیت نہ سکا تو اسے قرضہ واپس نہ کرنے پر اندر جانے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ووٹر لیڈر برے وقتوں کے ساتھی ہی نہیں ہوتے یہ برا وقت لاتے بھی مل جل کر ہی ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi