خلیج کے پانیوں میں لگی آگ


 میان سے نکلی ننگی تلواریں لیئے بڑی بڑی عباؤں میں رقص کرتے خادمین حرمین شریف کے بمع عرب شہزادوں سے ہمقدم تھری پیس والے سوٹ میں ملبوس امریکی آقا کے رقص کے بیک گرائونڈ میں چلنے والے موسیقی عرب صحراْوں کے رقص کے لیئے کے لئے بیشک موزوں تھی مگر اس موسیقی کے ساتھہ جس جنگ کے طبل کا شور صاف سنائی دے رہا تھا وہ جنگ، جس سرزمین کو سرخ کرنے کے لیئے اپنا آکسٹرا بجا رہی تھی وہ کوئی دور سات سمندر پار سات نسلوں سے کافر نہیں بلکہ اسلامی دنیا سے تعلق رکھنے والی سر زمین ایران تھی۔۔جس کے گرد دائرہ حیات تنگ کرنے کے لیئے ٹرمپ کو ان ممالک کی سیر کرنی پڑی جن سب کو وہ اقتدار میں آنے سے پہلےکراہت بھرے لھجے میں تھوک کے حساب سے گالی دیتے دھشت گردی کی ماْئیں کہا کرتا تھا ۔

’’خونی ایران‘‘ ، ’’جنونی شام‘‘ اور ’’وحشی اسلامی ریاستیں‘‘ دراصل وہ لیبل تھے جو کسی بھی خون آشام جنگی ٹیکسٹ کی تیاری کے لئے امریکا کے پاس پہلے سے ہی تیار شدہ تھے۔ بس مناسب وقت و موقع دیکھ کر کسی معاہدے اور امداد کے نام پر اسلامی دنیا میں متعارف کروانا تھا۔

سرزمین سعود پہ پہنچتے ہی وہ اسلامی دینا کی آنکھ کا تارا محسوس ہوا، اپنی آقا کے لئے رکوع میں جھکے پچاس سے زائد اسلامی ریاستوں کے سربراہوں سے حضرت ٹرمپ نے یوں خطاب کیا جیسے پاپائے روم؛ ویٹیکن سٹی سے اپنے مذہبی عقیدت مندوں کو کوئی اخلاقی درس دے رہا ہے یا پھر حجاز مقدس کے اندر امام کعبہ کا حج زائرین کو کوئی روحانی فیض پہنچانے والا خطاب ھو۔ چھتیس منٹ پر محیط اس عقیدت بھرے خطاب میں محترم ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے اسلامی ریاستوں والے خطے کے مستقبل میں روڈ میپ پر بات کی۔ پینٹاگون کی ترتیب شدہ اس روڈ میپ کی لانچنگ کو تمام اسلامی ممالک کے سربراہان نے اس طرح سنا جیسے وہ کوئی آسمان سے اتری بشارت اور بہشت کی خوشخبری ہو۔ حالانکہ ان کے خطاب کے چنے گئے الفاظ اور ان کی انداز اادائیگی سے بلکل واضح تھا کہ وہ اس مقدس سرزمین پر کسی مقدس فریضے کی ادائیگی کے لئے بلکل بھی نہیں آیا تھا۔ اس کی دلچسپی کا واحد مرکز اس خطے میں وہ امریکی مفاد تھے جس سے بھاری اسلحہ کی خریداری اور مستقل معاشی مفاد کی پاسداری ممکن ہو سکے۔ لہٰذا اسلامی دنیا کے مرکز مشرق وسطیٰ میں اس کی حاضری صرف اامریکی مفادات کے پیش نظر اس خطے میں اپنے نئے کردار کو دوبارہ متعارف کرانے اورنئے معاھدوں کی ضمانت لینی تھی۔ بادشاھت سعود، عرب مہمانداری کے تمام فرائض بخوبی سر انجام دینے کے بعد مع اپنے تمام ہم خیال اسلامی سربراہوں کے ٹرمپ کا خطاب سننے کے لیئے ہم تن گوش تھے، اس کی آواز امریکی بیانیئے کا نیا ورژن تھا

’’ہم یہاں کسی لیکچر کے لئے جمع نہیں ہوئے ہیں، اور نہ ہی ایک دوسرے کو بتانے آئے ہیں کہ ہمیں کس طرح رہنا چاہئے۔؟ کیا ہونا چاہئے یا پھر کس طرح عبادت کرنا چاہئے، اس کے برعکس ہم یہاں اپنی ’’پارٹنرشپ ‘‘ (حصے داری، یا شراکت داری) آفر کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں، جوکہ اجتماعی مفادات اور ویلیوز پر مشتمل ہوں اور جو صرف اس لئے کہ ہم سب کے لئے بہتر ہو۔‘‘

نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت ٹرمپ نے اپنی خطاب میں امریکی سیاسی مفاد کے مستقل حصے یعنی دہشت گردی کو بلکل نظرانداز کیا ہوگا مگر اپنے سابقہ پیش رو بش کے عین برعکس جس نےدہشتگردی کی جنگ کو ’’صلیبی جنگوں‘‘سے مماثلت دے کر ان کو ’’تہذیبوں کی جنگ اور تصادم‘‘ قرار دیا تھا۔ سر جھکا کر بیٹھے اپنے دامن میں پنپنے والی دھشت گردی کے حقیقی شکار ان اسلامی ریاستوں کے تمام سربراہان کو مخاطب ہوتے ٹرمپ نے روایتی لہجے میں بار بار دوہراتے ہوئے کہا

’’ یہ جنگ مختلف عقیدوں، فرقوں اور تہذیبوں کے درمیان نہیں ہے۔ ‘‘

’’یہ جنگ ان وحشی درندوں اور دنیا کے تمام امن پسند انساںوں کے درمیان ہے جوکہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ـ‘‘

’’یہ حق اور باطل کی لڑائی ہے‘‘

کسی بھی مذہبی رہنما کے پاس اپنے عقیدے سے وابستہ لوگوں کے لئے ٓسمنی خوشخبری کسی جنگ یا کسی دشمن کے خاتمے کے ساتھ مشروط ہوتی ہے، بلکل ایسے ہی طرح ٹرمپ کی خوشخبری میں بھی ایک ’’دشمن کی شناخت‘‘ ضروری تھی۔ ایک ڈر ضروری تھا جس سے جنگ لازم تھی۔ اور یہ جنگ حق اور باطل کی جنگ تھی۔ دشمن کی شناخت کرنا، اسے تنہا کرنا، اور اپنی وفاداری اپنی آق اور سالار جنگ سے مشروط کرنے کے لے لازمی تھا کہ اس دشمن کو ظاہر کر ے اور اس پہ اپنی عداوت کو ظاھر کیا جائے۔ اس لئے ٹرمپ نے بھی بغیر کسی شرم۔ ہچکچاہٹ اور رعایت کے مسلم دنیا پر یہی واضح کرنا چاہا۔ جنگ کے لیئے اسے کسی بہانے کی اتنی ہی ضرورت تھی کہ جتنا افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے کوئی بہانہ چاہئیے تھا یا پھر بابلی تہذیب کا ماضی رکھنے والی عراقی قوم پر ہلہ بولنے کے لئے کیمیائی اسلحے کا بہانہ ضروری تھا۔ یہاں پر بھی ایران کا نام لیتے ہوئے پچاس سے زائد اسلامی ممالک کے تمام سربراہوں کو گواہ بناتے ہوئے فرد جرم عائد کی۔

’’دہائیوں سے ایران؛ دہشت اور فرقے واریت کی آگ پر تیل کا کام کر رہا ہے، ایرانی حکومت عام آدمیوں کے قتل، اسرائیل کی تباہی، ۔ امریکا کی موت، اور یہاں اس ھال میں بیٹھے تمام اقوام کی تباہی کے لئے بات کرتا ہےــ‘‘

’’جب تک ایرانی حکومت اس امن میں ہماری اتحادی نہیں ہوتی، جب تک دہشت گرد گروہوں کی مالی امداد سے انکار نہیں کرتی اور جب تک وہ ایرانی حکومت وہاں کے نیک لوگوں کے حوالے نہیں کرتی جس کا وہ حقدار ہیں، تب تک تمام باضمیر قوموں کو متحد ہو کر ایران کو تنہا کرنا چاہئے۔‘‘

 کون نہیں جانتا کہ امریکہ کی اس حکمت عملی کو جامہ پہنانے اور ایران کو تنہا کرنے والے باضمیر اقوام کے اس قافلے کا سپہ سالار تو ہم میں سے ہی تھا جس نے قوم کی ’’شکریہ راحیل شریف‘‘ کہنے کی عادت کو اتنا پختہ کر دیا تھا کہ اس وقت بھی جب ہمارے میڈیا میں وزیراعظم کے ان با ضمیر قوموں میں عزت کے ساتھ شمولیت نہ ہونے پر احتجاج ، سوگ ،ماتم اور گریہ جاری تھا تب بھی جانے کیوں ایسا لگ رہا تھا جیسے ٹرمپ کے خطاب کے ہر جملے کے بعد پوری قوم ایک آواز ہوکر ’’شکریہ راحیل شریف‘‘کہہ رہی ہے۔ عالمی میڈیا میں جاری ہونے والی تصاویر سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ ہماری جرنیل ایران کو تنہا کرنے والے اس سارے کھیل میں پہلی صف میں شریک ہونگے۔

ہمارے ہاں بائیں بازو کی جماعتوں نے مل کر ھیلری کے ہارنے پر جو مشترکہ بھنگڑا ڈالا تھا کہ ‘‘ داعش کی بیٹی ہار گئی۔۔۔’’ ان کی امیدوں پہ بھی پانی پڑ گیا کہ امریکیوں نے اس بار واقعی داعش کی بیٹی کو مات دیکر داعش کے باپ کو جتوایا تھا۔ بائیں بازو کی امیدوں کے عین برعکس روسیوں سے ان کے روابط کسی کام کے نہ تھے یہ بظاہر تو اسلام اور اس کے نام پہ ہونے والی دہشت گردی کے خلاف لفاظی میں ہیلری سے خاصے آگے تھے مگر ہمارے لوگوں سے یہی بھول ہوئی کہ انہوں نے سمجھا کہ امریکی خارجہ پالیسی پیٹرو ڈالر کے بجائے شاید کچھ پارٹیوں اور شخصیات کی ترتیب دی ہوگی جوکہ پارٹیوں کی تبدیلی سے رات بیچ میں کوئی انقلابی قلابازی کھائے گی۔

اصل میں امریکی خارجہ پالیسی اور مشرق وسطیٰ کی اسلامی ریاستوں سے اامریکہ کے تعلق کی بنیاد یہی پیٹرو ڈالر پالیسی ہے جو کہ 1971ع والے ‘‘نکسن شاک’’ کے بدولت ترتیب دی گئی جس میں دنیا کی گولڈ اسٹینڈرڈ کو رد کرکے ڈالر کو ریزرو کیا گیا تھا۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ کس طرح پیٹرو ڈالر سسٹم نے آئل رکھنے والی ریاستوں کو داخلی و خارجی جنگوں کا میدان بنا ڈالا۔ دہشتگردی مخالف جنگ بھی اصل میں ان پیٹرو ڈالر معیشیت کا سیاسی نام تھا، جس سے ایک طرف تو امریکا نے دنیا پر راج کیا اور دوسری جانب تیل کے ذخیروں پر امریکا کے قبضہ گیری کی اجارہ داری قائم رکھنی تھی۔

ٹرمپ کی جیب میں اس وقت 110بلین ڈالر کے اسلحے کی ہڈی تھی اور 350 بلین کا وعدہ الگ تھا۔ مشرق وسطیٰ کی جلتے جھنم فلسطین پہ بھی اس نے بس یوں بات لپیٹی کہ امریکہ اسرئیل کی مدد سے خط امن قائم کرے گا مگر یہ وعدہ لیا کہ اس تمام کوشش سے پہلے سب کو ایران کو اکیلا کرنے کا کام پورا کرنا ہوگا، یہ امریکہ کے آقائوں کی پرانی ادا تھی۔

یہاں اپنے مقامی میڈیا یا سوشل میڈیا میں یہ شور بلکل متوقع تھا کہ جس وقت اسلامی دنیا کے تقریبا مشرق وسطی کے تمام مسلمان سربراہ اپنی آقا کی امامت میں ایران کو تنہا کرنے والے اعلان پر محو رقص ہوں تو اس وقت ہماری توجہ ملینا کی آدھ ننگی ٹانگوں کی طرف مبذول کرادی جائیں جو ان کے استقبالیہ کے لیئے بچھے سرخ قالین پہ سعودی حکومتی قوانین کو تہس نہس کرتی ہوئی نظر آئیں۔ عرب بادشاہ زادوں کی طرح جو خود بھی جب ملینا کی ٹانگوں میں الجھے ہوئے تھے۔ تقریبا اسی وقت پورا ایران اپنی نئی متخب صدر کی کامیابی پر رقصاں تھا۔ دوسری جانب ننگے تلواروں سے امریکی آقا ایک نئے دور کی شروعات کررہے تھے جس میں خلیج میں نئی آگ لگانے کی یقین دہانی تھی۔

جس وقت میلینا کی ننگی ٹانگیں،اسکارف کے بغیر کھلا سر، ٹرمپ کی کھانے کے میز پر پڑے جام اور اپنا پرانا جرنیل ۔۔۔۔۔۔یہ سب ہمارے چھچھورے مذاق کا نشانہ بن رہے تھے ٹھیک اسی وقت پیٹرو ڈالر پالیسی ایک بار پھر عرب دنیا کی سربراہوں کو نچا کر ۔۔۔۔اسلامی ریاستوں کے کپڑے کے بنے گڈوں جیسے سربراہان کا ٹھٹھا اڑاتی نظر آئی۔

ایران کو تنہا کرنا، شام کوبے یار و مددگار چھوڑ دینا ، لبنان اور فلسطینی جدوجہد سے آنکھیں پھیرنے سے سے پہلے بھی خادمین حرمین شریف اور حجاز کے بادشاھان کوئی قابل فخر ماضی نہیں رکھتے اور نہ ہی دوسرے عیاش مسلمان سربراہوں کی ریڑھ کی ہڈی سلامت ہے کہ وہ فخر سے سر اونچا کرکے ان امریکی آقا سے دوٹوک بات کرنے کی حیثیت رکھتے ہوں۔ مگر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ افغانستان پر حملے میں یا عراقی آئل پر قبضے کے لئے اتحادی افواج متحد ہوکرسرزمین عرب پہ اتریں تو یورپ اور امریکا میں ہزاروں لوگ جنگ مخالف احتجاج کے لئے سڑکوں پہ نکل آئے تھے مگر ہمارے ہاں اس وقت بھی کوئی مخالف آواز نہیں اپنے حکمرانوں کے لیئے جب وہ اپنے آقا کی ایران کو تنہا کرنے کی دھمکی دیتے خلیج کی پانیوں میں نئی جنگ کے امکاں پیدا کرنے والے خطاب سن رہے تھے۔

اسلامی دنیا میں شاید وہ اقلیتی گروہ بھی ناپید ہو جنہوں نے مقدس سرزمیں پر سجے بادشاہی رقص پر جھومنے والے اپنے حکمرانوں کے سامنے اس ٹیکسٹ پر کوئی اعتراض کیا ہوگا کہ سعودی عرب کو امریکا سرکار سے ملنے والے  110 بلین کے اسلحے کے معاہدے کے نتیجے فارس اور خلیج کی پانیوں میں جو آگ لگنی ہے اس کا ایندھن کون بنے گا؟

شام، زخم خوردہ ہے ۔۔۔یمن پہ فضایہ کے حملے ابھی جاری ہیں۔۔۔فلسطین کی لڑائی گولی سے ہوتی پتھروں سے ہوئی اور اب زبانی خرچ پہ تمام ہو رہی ہے۔۔۔ مشرق وسطیٰ سے خون کا کھیل ختم کب ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ نئی آگ کی دھائی ہے۔۔۔۔۔

بشمول جماعت اسلامی ان بہت ساری مذہبی تنظیموں کی یاداشت فی الوقت گم ہو چکی ہے جوکہ اسلامی امت کا گھونٹ بھرتے ہوئے ’’امریکا کا یارہے۔۔۔۔۔۔۔ ــ‘‘کی لعن طعن کرتے تھکتی نہیں تھیں، افغانستان و دنیا بھر میں امریکی جہاد کے لئے جنگجو بھرتی کرتے کرتے اب وہ بوڑھی عورت کی طرح نہ چل سکنے والے اپنے گھٹنوں کو بھی لعن طعن کرنے کے قابل بھی نہیں رہی ہیں۔

نواز شریف کو پچھلی کرسیوں پر بٹھانے کے طعنے دینے والی سیاسی پارٹیوں کو اس وقت سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہئے کیونکر پاکستان اپنے سابقہ جرنیل کی سپہ سالاری میں بننے والے اس چالیس ملکی سعودی اتحاد کا ممبر بنا ہے جوکہ امریکی آقا کی ہدایتوں پر ایران کو تنہا کرنے کے لئے میدان میں اترنے ہیں۔۔۔۔ ان اسلامی ممالک کی ملی بھگت کا حصہ بننے کے بعد پاکستان اپنے سماج کی رستے زخموں کو کیسے چھپا پائے گا جس میں شیعہ سنی لڑائی ایک خونی کھیل کی صورت تک پہنچ چکی ہے۔

پاکستان اس لڑائی کا کس طرح شریک بن سکتا ہے کہ سوائے ایران کے وہ پہلے ہی اپنی دیگر سرحدوں پہ غیر علانیہ تصادم کی حالت میں ہے۔ نیوکلیر پاور ہونے کے باوجود یہ ریاست اپنے تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بیک وقت چومکھی لڑائی کیسے لڑے گی کہ اب صرف بھارت ہی نہیں مگر کسی وقت افغانستان کی فوجیں بھی سرحدوں پر اپنے اسلحے کھول دیتی ہیں۔اس کے بعد ایران سے لڑائی کے جرمانے پاکستان کیسے بھرے گا۔۔۔۔ اب کون ہمیں سمجھائے کہ میلینا ٹرمپ کی ٹانگوں اور عرب بادشاہوں کے کھانے کے میز پر پڑے جام میں مشروب پہچاننے کے بجائے ان غور طلب باتوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).