روزہ اگر نہ کھائے، تو ناچار کیا کرے


رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور اس کے ساتھ ہی بجٹ کی تیاریاں عروج پر ہیں، ایک طرف دنیا بھر کے مسلمانوں کی طر ح پاکستان کے مسلمان بھی اپنی روحانی تر بیت کے عظیم مراحل کے لیے تیار ہو رہے ہیں اور دوسری طرف ناجائز منافع خور اور اُن کے ایجنٹس ہو شر با مہنگائی کرنے اور عام آدمی کی زندگی اجیرن بنانے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ حکومتی کارندے بجٹ کی صورت میں عوام کا معاشی استحصال کر نے کی پیش بندی کر رہے ہیں ۔ ہندسوں کے ہیر پھیر سے وہی کچھ دہرایا جا ئے گا جو پچھلے کئی برسوں سے ہو رہا ہے۔پچھلے ما لی سال کی کامیابیاںگنوائی جائیں گی، ٹیکس کی مد میں وصولیوں کا تخمینہ لگایا جائے گا آئندہ بجٹ میں بڑے بڑے دعوے کیے جائیں گے۔ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے ا علان کیے جائیں گے۔ ڈیسک بجائے جا ئیں گے واک آﺅٹ کیا جائے گا ، میڈیا پر مباحثے ہوں گے ، بہت سے موسمی ماہرین اقتصادیات اچانک نمودار ہو جائیں گے ۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے حامی دانشوروں ، صحافیوں ، تجزیہ نگاروں اور سیاسی عمائدین کے درمیان لفظی جنگ ہو گی، محاذ فکرو نظر پر گولہ باری ہو گی، ہائے ہائے اور واہ واہ کا شور بلند ہو گا اور اس کے بعد وہی پہلے جیسی خاموشی اور بے حسی کا راج ہو گا، امیر ، امیر سے امیر تر ہو تا جائے گا اور غریب ، غریب سے غریب تر ہو جا ئے گا۔

ماہ رمضان کے حوالے سے غالب نے بہت پہلے عام آدمی کی ذہنی ، مالی اور روحانی کیفیات کا نقشہ کھینچ دیا تھا ، صورتِ حال اب بھی نہیں بدلی، غالب نے کہا تھا:

افطارِ صوم کی کچھ، اگر دستگاہ ہو

اُس شخص کو ضرور ہے، روزہ رکھا کرے

جس پاس روزہ کھول کے، کھانے کو کچھ نہ ہو

روزہ اگر نہ کھائے ، تو ناچار کیا کرے

غالب کا عہد سخت اقتصادی بحران کا زمانہ تھا ، جنگ آزادی کے بعد انگریز عملداری میں مقامی باشندوں کو خام مال کی طرح استعمال کیا گیا اور مسلمانوں کو بالخصوص نفرت کا نشانہ بنایا گیا اور اقتصادی طور پر مفلوج کیا گیا ۔ غالب کا وظیفہ بند ہو گیا اور اردو ادب کا یہ

 انا پرست شاعر ملکہ وکٹوریہ کے قصائد لکھنے پر مجبور ہو گیا ، قرض کھانے تک نوبت آگئی اور پھر ماہِ رمضان میں ایک عام آدمی کی طرح غالب کے ساتھ بھی وہی ہوا جو اس عہد میں سب کے ساتھ ہوتا رہا۔غالب کے عہد کے بارے میں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ عالمی جنگوں اور بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے ہندوستان میں شدید قسم کی کساد بازاری کا عہد تھا اور اُن سے پہلے جس قحط سالی کا شکار مشرق وسطیٰ بالخصوص ایران، عراق اور دمشق وغیرہ ہو ئے اس کا اظہار سعدی شیرازی نے اس خوبصورت انداز میں کیا کہ یہ شعر اَمر ہو گیا :

چناں قحط سالے شُد اندر دمشق

کہ یاراں فراموش کردند عشق

اس عہد میں اگر روزہ افطار کر نے اور اس کے لوازمات ضروریہ کے لیے عوام میں قوتِ خرید نہیں تھی تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن موجودہ عہد میں جب دنیا تر قی کے نصف النہار پر ہے ، کیا سائنس اور کیا علوم و فنون ، ہر شعبہ زندگی میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں اور تمام تر دہشت گر دی ، جنگی جنون اور زمینی و آسمانی آفات کے باوجود انسان چاند پر نئی بستیاں بسا رہا ہے، ہر قابلِ ذکر ملک میں جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں اور جمہوریت کا منشور” جمہوریت عوام کے لیے ، عوام کے ذریعے سے اور عوام میں سے “ کا غلغلہ عام ہو رہا ہے ، ہر جگہ فلاحی مملکتوں کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے ، عوام اور انسان کو بنیادی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ایسے میں عوام کی ضروریات زندگی سے پہلو تہی کر نا عوام کے نام پر لوٹ کھسوٹ کر نا ، انہیں بنیادی ضرورتوں سے محروم کر نا اور رہزنی ، چوری بم دھماکوں ، بیماری اور جہالت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود مورچہ بند ہو کر اپنے اپنے محلات میں شا ہانہ زندگی گزار نا اور عوام کے ٹیکس کا پیسہ ذاتی تعیشات پر خرچ کرنا، ماہِ رمضان جیسے مقدس ایام میں شدید مہنگائی کا شکار عوام پر زندگی کے دروازے بند کر دینا ، لوڈ شیڈنگ ، ناانصافی اور معاشی تنگ دستی کے شکار عام لوگوں کو محرمیوں ، مایوسیوں اور بر بادیوں کے سپرد کر کے ان کے خون پسینے کی کمائی پر عیش و عشرت کی زندگی بسر کر نا ، بیرون ملک ناجائز طر یقے سے قومی دولت سے سر مایہ کاری کر نا اور محض چند گھرانوں کا بیس کروڑ عوام کو بیچ کھانا ، سمجھ سے بالا تر ہے۔رمضان مبارک اور بجٹ کا قریب قریب ایک ساتھ آنا ہمارے ” موجودہ جمہوری حکمرانوں“ کے لیے نہ صرف ایک چیلنج ہے بلکہ واقعتاً مقہور، مجبور اور مہجور عوام کو زندگی اور اپنے قریب لانے کا شاید آخری موقع بھی ہے ۔ دیکھئے وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا ہر بات کی طرح ضائع جانے دیتے ہیں !

ڈاکٹر اصغر علی بلوچ
Latest posts by ڈاکٹر اصغر علی بلوچ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر اصغر علی بلوچ

ڈاکٹر اصغر علی بلوچ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد میں شعبہ اُردو کے چیئرمین ہیں۔

asghar-ali-baloch has 4 posts and counting.See all posts by asghar-ali-baloch