فرید اختر کے دعوے کی تجرباتی تصدیق کر دی گئی


انجینئیر فرید اختر صاحب نے سائنس کی دنیا الٹ پلٹ کر دینے والی دریافت کی تو سارے پاکستانی ہی ان کی مخالف ہو گئے۔ لیکن ایسے میں اس ناچیز جیسے کئی سمجھدار لوگ موجود تھے جو وطن عزیز کے سپوتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے قائل ہیں اور ہم بضد تھے کہ جھٹلانے سے پہلے ایک بار فرید صاحب کی بات تو سنی جائے، پھر کوئی حکم لگایا جائے۔

تمام دنیا میں فرید اختر صاحب کا کشش ثقل کا نظریہ کا تہلکہ مچا رہا ہے۔ ان کا ایک دوسرا اہم انکشاف کامیابی کی اس گرد میں گم ہو گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ خلا میں ہوا نہیں ہے اور وہاں صرف گیسیں ہیں، اور یہ خلا تمام سیاروں کی ہوا کو ان کے گرد سختی سے ‘پریس’ کرتی ہے جس سے ان کا کرہ ہوائی بنتا ہے۔

ہم جیسوں کے برخلاف فرید صاحب خود غرض نہیں ہیں کہ اس تہلکہ خیز کامیابی کو اکیلے ہضم کرنے کے بارے میں سوچیں۔ انہوں نے پاکستانی اور غیر ملکی اہل علم کو اپنے ساتھ مل کر اس نظریے پر کام کرنے کی دعوت دی ہے۔ اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے ایک بڑے انسان کی طرح تسلیم کیا کہ ان کی رسمی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ الیکٹریکل میں ایک رینکر انجینئیر ہیں۔ رینکر وہ سیلف میڈ لوگ ہوتے ہیں جو کسی شعبے کی رسمی تعلیم نہیں رکھتے ہیں بلکہ نچلے عہدے پر بھرتی ہو کر سینیارٹی کے بل بوتے پر بڑے مرتبے پر پہنچ جاتے ہیں۔

انجینئیر فرید اختر صاحب پریس کانفرنس کر رہے ہیں

فرید صاحب کہتے ہیں کہ ’میں زندگی میں جواب پر پہلے کھڑا ہو جاتا تھا اور سوالات کو بعد میں تلاش کرتا تھا۔‘ بخدا یہی ایک سچے پاکستانی کی نشانی ہے۔ ہم سب سچے پاکستانی ہر چیز کے جوابات پہلے ہی سے جانتے ہیں اور اس کے حق میں دلائل و سوالات بعد میں تراشتے ہیں۔ درست طریقہ یہی ہے، نہ کہ مغرب کا وہ گمراہ طریقہ جس میں وہ پہلے مشاہدہ کرتے ہیں، پھر نظریہ (ہائپوتھیسس) بناتے ہیں، پھر تجربات کرتے ہیں، اور پھر نظریہ پیش کرتے ہیں۔ اپنے تئیں بڑے اردو دان اور سائنس دان بنے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہائپوتھیسس کا ترجمہ مفروضہ ہوتا ہے، نظریہ نہیں، بلکہ لفظ تھیوری کا ترجمہ نظریہ ہوتا ہے، تو وہ لوگ غلط ہیں اور آپ کو بہکا رہے ہیں۔ مغرب کا یہ طریقہ جو کہ سائنٹیفک میتھڈ کہلاتا ہے، گمراہی کی طرف لے کر جاتا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ مغربی تہذیب گمراہ ہو چکی ہے اور جلد ہی یہ اپنے خنجر سے خودکشی کر لے گی۔

اپنے نظریے کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرید صاحب نے یہ بتایا کہ ہر چیز ہوا کے دباؤ کی وجہ سے سطح زمین سے چپکی ہوئی ہے۔ اس پر سائنس سے نابلد ایک صحافی نے سوال اٹھایا کہ ایسی بات ہے تو پھر خود ہوا زمین کے گرد کیوں چپکی ہوئی ہے؟ اور چاند تک تو زمین کا کرہ ہوائی نہیں پہنچتا ہے، تو پھر وہ زمین کے گرد کیوں گردش کر رہا ہے؟ فرید صاحب نے اس جاہلانہ سوال کا جواب نہایت تحمل سے دیتے ہوئے بتایا کہ ’سارے سیاروں کے بیچ خلا ہے جو گیسوں سے بنی ہوئی ہے۔ یہ خلا تمام سیاروں کی ہوا کو پریس کر کے ان کے ساتھ چپکائے ہوئے ہے۔ اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ چاند زمین کی کشش کی وجہ سے اس کے گرد گھوم رہا ہے تو ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک پورا سسٹم ہے جو خلا مینٹین کرتی ہے۔ جسے ہم خلا کہتے ہیں وہ بھی اصل میں گیسوں کا مرکز ہے۔ خلا ویکیوم نہیں ہے۔ ہم خلا میں موجود گیسوں پر ریسرچ اس لئے نہیں کر سکتے ہیں کہ نہ ہمارے پاس وہ طریقہ کار ہیں، نہ وہ ایکٹیویٹیز ہیں۔ یہ میرا ایک نظریہ ہے جس کی بنیاد پر یہ کہہ رہا ہوں۔ وقت ایسا نہیں ہے کہ میں اسے پروو کر سکوں۔ میں نے تجربات نہیں کئے ہیں۔ میں نے نظریہ پیش کیا ہے‘۔

واہ صاحب، دیکھیے یہ ہوتی ہے ایک سچے عالم کی نشانی۔ کیسے ایک بڑا نظریہ پیش کر دیا ہے، اور انکساری و عاجزی کا یہ علم ہے کہ عقل کل ہونے کا دعوی نہیں کرتا ہے، بلکہ کہتا ہے کہ دیکھو، میں نے آئن سٹائن کی طرح ایک نظریہ دے دیا ہے۔ اب سو پچاس سال بعد کوئی اسے ثابت بھی کر دے گا۔ بلکہ وہ تمام پاکستانی و عالمی سائنسدانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آؤ، میرے ساتھ مل کر اس پر تحقیق کرو۔ کشش ثقل کو ماننے والے ناقدین کی فرید اختر صاحب نے ایک سادہ سا سوال اٹھا کر بولتی بند کر دی۔

کہنے لگے کہ ’جب ہم زمین کی سطح سے نیچے جاتے ہیں تو عام طور پر سمجھی جانے والی کشش ثقل کم ہوتی جاتی ہے۔ وجہ صاف ہے کہ زمین کے نیچے جانے پر ہوا کا والیم کم ہوتا جاتا ہے۔ ہوا کرہ ارض سے باہر نکل جائے تو تمام اجسام بھی خلا میں نکل جائیں گے۔ لیکن ایک سوال اہل علم کے لئے میں بھی چھوڑنا چاہتا ہوں۔ ناسا اور دوسری سپیس ایجنسیاں جب اپنی (خلائی) مشقیں کرتی ہیں تو اس وقت جب زمین پر مصنوعی خلا بنائی جاتی ہے تو اس وقت گریوٹی کہاں جاتی ہے؟‘۔

ذرا جواب تو دیں امریکی کہ وہ اینٹی گریویٹی چیمبر کیسے بناتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ چیمبر سے ہوا نکال کر، وہاں گیسیں بھر کر خلا بنائی جاتی ہے، اور اس چیمبر میں ہوا کی غیر موجودگی کی وجہ سے اجسام اپنا وزن کھو بیٹھتے ہیں۔ اور ہمیں وہ چکر دیتے ہیں کہ گریویٹی ہوتی ہے۔ امریکیو سن لو، ہم تیسری دنیا والے اتنے بھی جاہل نہیں ہیں جتنے تم سمجھے بیٹھے ہو۔ ہم تمہارے خواب و خیال سے کہیں بڑے ہیں۔

آپ نے دیکھا ہو گا کہ کیسے چند صحافی، جو کہ ہماری نہایت ہی محتاط اور معتدل رائے میں ممکنہ طور پر ناسا، موساد اور را کے پے رول پر ہو سکتے ہیں، اس بات پر معترض تھے کہ تجربے کے بغیر یہ نظریہ کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ یہی لوگ ہمارے سائنسی تنزل کا باعث ہیں۔ جب بھی کوئی پاکستانی نوجوان، جسے اغیار کی سازش کے ذریعے تکنیکی تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے، تمام رکاوٹوں کو بکھیر کر علم کی دنیا میں دھماکہ کر دیتا ہے، تو یہ اسے اس حد تک زچ کر دیتے ہیں کہ وہ علم سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اس کے لئے ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے، یا تو امریکہ جا کر اس کی خدمت کرے، یا پھر اپنے ملک میں رہے اور گمنامی کی مٹی میں مل کر خاک ہو جائے۔

ایک صاحب نے اپنے تئیں بڑا عالم سمجھ کر یہ سوال داغا کہ ’گریویٹی تجربات سے ثابت ہو چکی ہے۔ آپ ایک اور آغا وقار ہیں جو بغیر کسی ثبوت کے مین سٹریم پر آ رہے ہیں اور ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں‘۔

فرید صاحب نے مسکرا کر نہایت تحمل سے جواب دیا کہ ’آپ اس وقت تھوڑے سے جذباتی ہو رہے ہیں۔ میں صرف آغا وقار کی بات کرنے لگا ہوں۔ آغا وقار کا ہائیڈروجن سے گاڑی چلانا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ میں کسی ایسے معاملے میں نہیں الجھنا چاہتا ہوں جو پولیٹیکل ہو جائے یا انٹرنیشنل افئیرز اس میں افیکٹ کریں‘۔

بخدا یہ ایک عالم کا کام ہی نہیں ہے کہ اس طرح سیاست یا بین الاقوامی مسائل میں الجھے۔ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ فرید صاحب نے اپنا نظریہ تجربات سے ثابت نہیں کیا ہے، ان سب کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ بات تجربے سے آج سے کئی دہائیوں پہلے اس وقت ثابت کی جا چکی ہے جب یہ خاکسار سکول کا طالب علم تھا۔ بدقسمتی سے خاکسار کو پریس کانفرنس کرنا نہیں آتا تھا اور نہ ہی اس کو اتنا جیب خرچ ملتا تھا کہ اخبار میں اشتہار چھپوا سکے، اس لئے اس کے مقدر میں اتنی شہرت نہیں رہی جتنی کہ فرید صاحب کو نصیب ہوئی ہے۔ ویسے یہ بات بھی یہ عاجز مانتا ہے کہ اسے احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ وہ سائنس کی دنیا تہہ و بالا کر دینے والا تجربہ کر چکا ہے اور اسے اپنی تحقیق سے دنیا کو مطلع کرنا چاہیے۔ آپ لوگ خود اپنے گھر میں یہ سادہ سا تجربہ کر کے انجینئیر فرید اختر صاحب کے نظریے کی تصدیق خود کر سکتے ہیں کہ یہ ہوا کا دباؤ ہی ہے جس کی وجہ سے تمام انسانات و جمادات ہو حیوانات زمین کی سطح پر چپکے ہوئے ہیں اور پھسل کر خلا کی عمیق گہرائیوں میں نہیں جا گرتے ہیں۔


عدنان خان کاکڑ اپنے تجربات کی مدد سے ہوا کے دباؤ سے اجسام کا سطح زمین سے چپکنا ثابت کر چکے ہیں

ایک سادہ سا تجربہ جو فرید اختر صاحب کے نظریے کی صداقت کو ثابت کر دیتا ہے

ایک ڈیڑھ لیٹر والی کولا کی بوتل، ایک سٹرا، بچوں کے کھیلنے والی ‘پلے ڈو’ اور پانی کا ایک جگ لیں۔ بوتل کو پانی سے تین چوتھائی بھر لیں۔ سٹرا کا ایک سرا پلے ڈو سے بند کر دیں۔ دوسرا سرا کھلا رہنے دیں اور اس کے گرد پلے ڈو کا رنگ بنا دیں۔ اس کی مقدار اتنی ہو کہ سٹرا بمشکل پانی پر تیر سکے۔ اب بوتل کا ڈھکن مضبوطی سے بند کر دیں اور دونوں ہاتھوں سے بوتل کو زور سے دبائیں۔ اس سے بوتل کے اندر ہوا کا دباؤ بڑھ جائے گا اور سٹرا تیزی سے بوتل کی تہہ کی طرف جائے گا اور اس سے چپک جائے گا۔ ہاتھوں کی گرفت کم کریں تو یہ اوپر ابھرے گا۔

پس ثابت ہوا کہ انجینئیر فرید اختر صاحب درست کہتے ہیں کہ ہوا کے دباؤ ہی کی وجہ سے سب انسانات و حیوانات و جمادات زمین کی سطح سے چپکے ہوئے ہیں۔ ہم سب بھی زمین نامی اس بوتل میں بند ایسے ہی تنکے ہیں جن کو ہوا کا دباؤ زمین سے چپکائے ہوئے ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments