مسجد جاؤں یا کلب


ایک عجیب مشکل آن پڑی تھی۔ دونوں کے ہاتھوں میں بئیر کی بوتلیں تھیں۔ لڑکی کا ایک ہاتھ اپنے بوائے فرینڈ کی کمر کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا اور لڑکے کا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا ہوا تھا لیکن پریشانی دونوں کے چہروں سے عیاں تھی۔

یہ دو یا تین برس پہلے کی یہ بات ہے، ہفتے یا اتوار کی یہ رات تھی۔

جب کبھی کبھار گناہوں یا تنہائی کا احساس اچانک بڑھے جائے تو آپ ایک دم اسے کم کرنے کا سوچتے ہیں۔ میں بھی اس دن جرمنی اور پاکستان کے رمضان کا موازنہ کر رہا تھا کہ کیسے سحری میں امی جی کے پراٹھے ہوتے تھے، لسی ہوتی تھی، سبھی بہن بھائی مل کر کھانا کھاتے تھے، گلی میں ڈھول والا آتا تھا، جس کی یہ صدا بار بار کانوں میں گونجتی رہتی تھی“ روزے دارو، اللہ دے پیارو، سحری کے لیے اٹھ جاو“ محلے دار سحری کے وقت کھانوں کا تبادلہ کر رہے ہوتے تھے۔ کوئی کسی سے کچھ مانگ رہا ہے اور کوئی کسی کو کو پلیٹ میں رات کے بچے چاول دینے آ رہا ہے۔ سحری کے وقت ایک عجیب سی رونق ہوتی تھی، یوں لگتا تھا کہ سارا محلہ رات کو اٹھ کھڑا ہوا ہے۔

اس دن بھی خیر ماضی کی یادیں تھیں اور جرمنی کی سرد ہوائیں۔ پاکستان ایسا رمضان دیکھے مجھے کوئی دس سال سے زائد عرصہ گزر چکا تھا۔ جرمنی میں جو بھی سحری ہوئی تو صبح اٹھ کے کجھوریں یا پانی ہی حلق سے نیچے اترا۔ جتنے برس جرمن دوستوں کے ساتھ رہتے ہوئے گزرے تو وہاں کافی بھی شامل ہو جاتی۔ ایک دو جرمن دوست میرے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے کوئی دو چار گھنٹے کا روزہ رکھ لیتے اور اس ہمدردی میں ان کی گرلز فرینڈز بھی کبھی کبھار ساتھ دیتیں۔ ہم کبھی کبھار افطاری کے لیے کسی ترک مسجد بھی چلے جاتے کیوں کہ میرے جرمن دوستوں کو بھی میری طرح مفت کا اور غیر ملکی کھانا بہت پسند تھا۔

خیر اس دن چھٹی بھی تھی اور خیال آیا کیوں نہ رمضان کی وجہ سے فجر کی نماز مسجد میں جماعت سے پڑھ لی جائے۔ گھڑی پر نظر ڈالی تو نماز میں کوئی دس منٹ رہتے تھے۔ مسجد تقریبا تین کلومیٹر دور تھی، سوچا پہنچ ہی جاؤں گا۔ میں نے جلدی سے جرابوں کے ساتھ چپل پہنی اور گاڑی کی طرف دوڑ لگا دی۔ گاڑی کے قریب ایک لڑکی لڑکا کھڑے تھے، قریبی شہر کولون سےآئے تھے اپنا راستہ بھول چکے تھے۔ صبح کے چار بجے انہوں نے شکر کیا کہ کوئی بندہ نظر آیا ہے۔ انہوں نے فوری طور پر ایک کلب کا نام لیا اور پوچھا کہ وہ کدھر ہے، انہیں وہ مل نہیں رہا۔ لڑکی تو شاید اس دن کافی زیادہ شراب پی چکی تھی لیکن لڑکا کچھ کچھ سمجھداری کی باتیں کر رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کوئی ایک گھنٹے سے انہی سڑکوں پر ”خجل خراب“ ہو رہے ہیں لیکن انہیں وہ کلب مل نہیں رہا۔ لڑکا کہہ رہا تھا کہ کلب ہے یہیں کہیں کیونکہ وہ پہلے بھی وہاں آیا ہوا ہے۔ میں نے اپنے ذہنی وکی پیڈیا کو استعمال کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ اس نام کا کلب تو قریب میں کوئی بھی نہیں ہے، آخر ہم بھی جوان ہیں اور ایسے تمام ٹھکانوں کی خبر رکھتے ہیں۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ کسی ٹیکسی والے کو کال کرو، اسے شاید معلوم ہو۔ ان دونوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ وہ اسٹوڈنٹ ہیں اور ان کے پاس اب پیسے نہیں بچے کیوں کہ وہ پہلے ہی ایک پارٹی میں سب کچھ خرچ کر آئے ہیں لیکن مطلوبہ کلب میں جانا ضروری ہے کیوں کہ وہاں ان کے دوست کی سالگرہ پارٹی ہے۔ انہوں نے ایک نشانی بتائی کے کلب کے پاس ایک پل ہے۔

میں نے دوبارہ ذہنی وکی پیڈیا پر زور ڈالا تو یاد آیا کہ ایک پل کوئی دو سے چار کلومیٹر دور تھا لیکن یہ کنفرم نہیں تھا کہ وہاں کوئی کلب بھی ہے۔ میں نے انہیں راستہ سمجھانے کی کوشش کی لیکن نشے اور پریشانی کی وجہ سے انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ دوسری طرف میری نماز کو دیر ہو رہی تھی۔ ایک عرصہ ہوا تھا کہ میں نے فجر مسجد میں نہیں پڑھی تھی۔ اللہ اللہ کر کے بڑی مشکل سے اس دن کفر ٹوٹا تھا اور خود کو مسجد جانے پر قائل کیا تھا۔ میں نے ان کو کہا کہ سوری میں فی الحال آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔

میں نے ان کو وہی چھوڑا اور قریب میں ہی کھڑی گاڑی اسٹارٹ کی۔ میں ابھی قریب سے گزر ہی رہا تھا کہ دونون کی حالت اور پریشان شکلیں مجھ سے دیکھی نہ گئیں۔ لیکن دوسری طرف میرا جوشیلا اور اس دن حرکت میں آیا ہوا یمان تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ جماعت سے نماز چھوڑی جائے یا ان کو کلب پہنچایا جائے۔ کشمکش عجیب تھی۔ مجھے واقعی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں، چند سیکنڈز میں ہی معاملہ کفر اور ایمان کی جنگ میں تبدیل ہو چکا تھا۔

اگر آج میں نے ہمت کر کے، وہ بھی رمضان میں، فجر جماعت سے پڑھنے کا ارادہ کر ہی لیا ہے تو آگے سے یہ دونوں مل گئے ہیں، عجیب سی صورتحال تھی۔

خیر میرے اندر کے ”متقی“ نے حسب معمول کہا کہ جماعت سے نماز چھوڑی جائے۔

خیال یہ آیا کہ اس وقت ان کو واپسی کی ٹرین بھی نہیں ملنی اور ان دونوں نے مزید یہاں ذلیل و خوار ہوتے رہنا ہے لہذا انہیں کلب چھوڑا جائے۔ نماز پھر کسی ہفتے جماعت سے پڑھ لیں گے اور یہ کہ رمضان میں ابھی کچھ اور چھٹیاں بھی تو آنی ہی ہیں نہ۔

میں نے ان کو گاڑی میں بٹھایا اور کہا کہ اگر وہ مطلوبہ کلب نہ ہوا تو بھی میں تم دونوں کو ٹرین اسٹیشن چھوڑ دوں گا، ان دونوں نے فورا ہاں میں ہاں ملا دی۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد لڑکی نے پوچھا کہ تم کون سے کلب میں جا رہے ہو اس وقت۔ میں نے اسے سمجھایا کہ چرچ کی طرح کا ہی ایک کلب ہے، جہاں مسلمان دعائیں وغیرہ کرتے ہیں۔ اس نے بئیر کا ایک گھونٹ لگایا اور حیرانی سے پوچھا اس وقت اتنی صبح، میں نے بتایا کہ رمضان میں صبح کی دعا اتنے بجے ہی ہوتی ہے، اس نے بئیر کا ایک اور گھونٹ لگایا اور پوچھا کہ رمضان کیا ہوتا ہے۔

اس سے پہلے کہ میں اسے مزید کچھ بتاتا ہم گپیں شپیں لگاتے پل کے قریب پہنچ چکے تھے۔ خوش قسمتی سے یہ وہی کلب تھا، جس کی وہ تلاش میں تھے۔ ان کے دوست کلب کے باہر جمع تھے۔ ”متقی“ امتیاز احمد نے ان کو وہاں اتارا، ان دونوں نے تحسین بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور شکریہ ادا کیا، جیسے میں نے ان کو سمندر میں ڈوبنے سے بچا لیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ آو اندر کچھ بئیر وغیرہ پی لو، تھوڑی دیر سیلیبریٹ کرتے ہیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے انہیں کہا کہ نہیں میں آج مسلمانوں والے کلب جاؤں گا۔ میں نے گاڑی مسجد والی سڑک پر چلانا شروع کر دی کہ چلو جماعت نہ سہی نماز تو مسجد میں پڑھ ہی لوں گا۔ ہمارے پورے قصبے میں ایک ہی مسجد ہے اور وہ بھی ترکیوں کی ہے۔ میں وہاں گیا تو معمول کے خلاف ابھی جماعت ہو رہی تھی۔ نماز کے بعد پوچھنے پر پتا چلا کہ اس دن قاری صاحب کی فجر کی تقریر کچھ زیادہ لمبی ہو گئی تھی لہذا جماعت تاخیر سے کرائی گئی ہے۔

میرے اندر کے ”متقی“ نے فورا کہا، ان کے ساتھ تھوڑی دیر سیلیبریٹ کیا جا سکتا تھا۔ اسے بھی میں نے حوصلہ دیا پھر کبھی سہی، رمضان گزر ہی جانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).