لینن کی خفیہ محبوبہ انیسا آرمنڈ کی کہانی (2)


ایک بار ایسا بھی ہوا کہ لینن نے انیسا کو پیغام بھیجا کہ “میرے تمام خطوط لے آؤ”۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کیسے ان کی انتہائی نجی اور خلوت میں کی جانے والی باتیں غائب ہوگئی۔ اس میں سے جو قدرے کم نجی خطوط ہیں انہیں سنسر کیا گیا۔ مگر لینن کا غیر محتاط پہلو اس کے انیسا سے طویل اور ہنگامہ خیز تعلق سے جھلکتا ہے، ایسا تعلق جو ان کے ارد گرد کی تلخ حقیقتوں اور خون ریز واقعات سے ماورا تھا۔ “جب تمہارا پوسٹ کارڈ ملا تو میں ہنس ہنس کر بے حال ہوگیا”، ایک دفعہ قدرے غیر متوقع شوخی سے لینن نے انیسا کو لکھا، “جیسا کہ کہتے ہیں، مجھے خود پر قابو نہ رہا تھا”۔

بائیوگرافر مائیکل پیرسن کا کہنا ہے کہ پانچ بچوں کی ماں اور لینن کی انقلابی محبوبہ انیسا آرمنڈ روس کی انتہائی بااختیار عورتوں میں سے ایک تھی۔ مگر اب تک اس کی کہانی پارٹی کی سنسر شپ کی نذر ہوتی رہی۔

1910ء  میں چالیس برس کا ولادیمیر لینن اپنی بیوی نادیژدا کے ساتھ روس کے انقلابی بالشویک گروپ کے سربراہ کے طور پر پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس کے کامریڈ اسے کیفے ایونیو ڈی آرلینز میں ملتے جہاں وہ بیئر یا گریناڈائین سوڈا پیتے اور اوپری منزل میں لیکچر اور گفتگو کا اہتمام ہوتا۔

یہاں، خزاں میں ان کی ملاقات ساتھی کامریڈ انیسا آرمنڈ سے ہوئی۔ وہ چھتیس برس کی سرخی مائل بالوں اور سبز آنکھوں کی مالک، ماسکو کی فرانسیسی کمیونٹی کا حصہ تھی اور روسی پولیس کو مطلوب تھی۔

لینن جو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا ہنگامہ خیز رکن تھا شدید مخالفت کی زد میں تھا۔ اس کے فنڈ رک گئے تھے اور اس کا اخبار پرولتاریہ بند کر دیا گیا تھا۔ انیسا آرمنڈ چار زبانوں میں مہارت رکھتی تھی اور اسے تنظیمی معاملات سنبھالنے کا فن آتا تھا۔ جلد ہی لینن کو اس کی قابلیت سے متاثر ہونا پڑا۔

مشترکہ مقصد کے لئے کام کرتے ہوئے ایک ایسا عشق پروان چڑھا جو اگرچہ شدید بھی تھا مگر ہنگامہ خیز بھی۔ اس کے ساتھ جلاوطنی کے سات سال بانٹنے کے بعد انیسا مسائل سے نبرد آزما ہونے میں اس کی قریبی ساتھی بن گئی۔ اس نے لینن کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں مدد دی اور مستقبل میں اس کی مدد کے ساتھ لینن بالشویکوں کو ایسی طاقت بنانے میں کامیاب ہوا جو زار روس سے بھی زیادہ بااختیار تھے، اسی وجہ سے انیسا 1919 تک ماسکو کی سب سے بااختیار عورت بنی۔ مگر حیرت کا مقام ہے کہ دانشوروں اور تاریخ دانوں کی چھوٹی سی دنیا کے علاوہ کم ہی لوگ اسے جانتے ہیں، اس لئے کہ لینن کی کردار سازی پر عرصے تک پارٹی کا کنٹرول رہا۔

پیرس کی ایک اوپیرا سنگر کی ناجائز اولاد انیسا آرمنڈ نے الیگزینڈر آرمنڈ سے شادی کی جو ٹیکسٹائل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک رئیس روسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ نو سال تک انیسا ایک نوجوان امیر بیوی رہی جس سے الیگزینڈر کے چار بچے ہوئے۔ اٹھائیس سال کی عمر میں وہ اسے چھوڑ کر ولادیمیر ولودیو کے ساتھ کھلے عام رہنے لگی۔ ولادیمیر الیگزینڈر کا سترہ سال کا یونیورسٹی میں پڑھنے والا چھوٹا بھائی تھا اور انقلابی خیالات رکھتا تھا۔

الیگزینڈر آرمنڈ نے بہرحال پھر بھی انیسا آرمنڈ سے تعلق قائم رکھا اور اس کے بچوں کی پرورش میں بھی اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ جب اس نے 1903 میں ولادیمیر کا بچہ آندرے پیدا کیا تب بھی الیگزینڈر نے اسے اپنا کر جائز حیثیت فراہم کی۔ جب تک انیسا لینن کو ملی وہ چار بار جیل جا چکی تھی اور میزین جیسے آرکٹک سرکل کے دور افتادہ قصبے میں دی گئی جلاوطنی سے فرار بھی ہو چکی تھی۔ 1909 میں اس کے فرار کے چند ہفتوں بعد ہی ولادیمیر ولودیو نے ٹی بی کے مرض کی وجہ سے اس کی بانہوں میں جان دی۔

اگلے سال انیسا آرمنڈ نے لینن کے گروپ میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس نے پیرس کے قریب ایک انقلاب کا سکول کھولا، یہیں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تاریخی عشق پروان چڑھا۔ انیسا آرمنڈ نے پراگ میں ہونے والی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی کانفرنس میں لینن کو چالبازی سے بالشویک اکثریت حاصل کرنے میں مدد دی۔

لینن کی بیوی نادیژدا کرپسکایا نے اسے چھوڑنے کا عندیہ دیا مگر لینن نے اسے جانے سے روک لیا۔ نادیژدا مان تو گئی مگر اس نے خواب گاہ علیحدہ کر لی۔ یہ اور بات ہے کہ نادیژدااور انیسا اچھی سہیلیاں تھیں جو انقلابی مقاصد اور فیمینزم میں گہرا یقین رکھتی تھیں۔ نادیژدا کرپسکایا کو انیسا آرمنڈ کے بچوں سے بہت پیار تھا اور انیسا آرمنڈ کی وفات کے بعد اس نے غیر علانیہ طور پر اس کے کم سن بچوں کو گود بھی لے لیا تھا۔

لینن کے کہنے پر انیسا آرمنڈ روس واپس گئی اور سینٹ پیٹرزبرگ نیٹ ورک جسے پولیس نے کافی حد تک نقصان پہنچایا تھا میں واپس تنظیم لانے میں جت گئی۔ اگرچہ کہ اس نے پولش کسان کا روپ دھارا تھا وہ پہچانی گئی اور چھ ماہ جیل میں قید رہی۔

الیگزینڈر آرمنڈ نے 6500 روبل کی خطیر رقم کے بدلے اس کی ضمانت کروائی لیکن وہ الیگزینڈر کی مرضی کے ساتھ اپنے مقدمے سے پہلے ہی فرار ہو گئی اور 1913 میں کارکرو کے مقام پر لینن کے پاس چلی گئی۔ یہاں لینن کے ساتھ اس کا عشق کڑے امتحان سے گزرا۔

1913 کے اواخر میں لینن نے اس عشق کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا انیسا آرمنڈ کے اکلوتے بچ جانے والے خط سے پتہ ملتا ہے۔ “میں تمہاری دید کے سہارے اور تمہارے بوسوں کے بغیر جی سکتی ہوں۔۔۔ تم سے کبھی کبھی بات کر کے جو مسرت مجھے ملتی ہے اس سے کسی کا کیا جاتا ہے، اس سے مجھے کیوں محروم رکھا جائے؟”

لینن نے اس کی بات نہ مانی۔ جنوری 1914 کے بعد لینن نے اسے ڈیڑھ صد سے زائد خطوط لکھے، اکثر میں احکام بھجوائے جاتے مگر خط کے آخر میں اندرونی احساس گناہ اور افسوس غالب آجاتا، وہ اس کی سلامتی کے لئے گہری تشویش ظاہر کرتا۔ جنگ کے ابتدائی زمانوں میں انیسا لینن اور نادیژدا کے ساتھ سویٹزرلینڈ میں رہی جہاں پہاڑوں کے درمیان ان تینوں کی مشترکہ خوبصورت سیروں کا ذکر نادیژدا نے کیا ہے۔ مگر اب انیسا آرمنڈ لینن کے فیصلوں سے اختلاف کرنا شروع کر چکی تھی۔ جب جنوری 1916 میں لینن نے اسے صوفیہ پوپوف کے فرضی نام سے پیرس بھیجا تو ان کے بیچ ایک بڑا جھگڑا ہوا۔ لینن جنگ میں گھرے فرانس میں اس کے لئے حمایت اکٹھی کرنے کی انیسا کی کوششوں سے مطمئن نہیں تھا، اس کا اس نے انیسا آرمنڈ سے اظہار بھی کر دیا۔ لینن اس کے غصے سے بھرے جواب سے حیران رہ گیا۔ لینن نے لکھا کہ “ایسی سخت زبان استعمال کر کے تم اور تو کچھ حاصل نہ کر سکی، ہاں اس کے بعد مزید رابطہ رکھنا بے کار ضرور ہوگیا ہے”۔

Lenin & Karupskaya

وہ قید ہونے سے تقریبا بچ کر بارڈر کراس کر سکی۔ اس کے بعد وہ لینن سے دور سب چھوڑ چھاڑ کر جنیوا کی جھیل کے پار پہاڑیوں میں جا کر رہنے لگی۔ وہاں لینن نے فون کالوں اور خطوط کی بھرمار کر دی۔ وہ اکثر لینن سے کھیل کھیلتی، تب تک اس کے خطوط کا جواب نہ دیتی جب تک وہ منتوں پر نہ آجاتا۔ اکثر شرارتا نادیژدا کو جواب لکھتی۔

فروری 1917 میں برپا ہونے والے انقلاب کے بعد انیسا آرمنڈ لینن کے ساتھ دشمن ملک جرمنی سے ہوتے ہوئے خفیہ ٹرین کے ذریعہ روس واپس آگئی۔ اکتوبر میں لینن اور اس کے بالشویکوں نے اقتدار حاصل کر لیا۔

اگلے سال مارچ میں انیسا ماسکو سوویت کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن کے لئے نامزد ہوئی۔ اگست میں ماسکو میں ایک تقریر کے بعد فینی کپلان نے جو مخالف سوشلسٹ پارٹی کی ممبر تھی لینن پر گولیاں برسا دیں۔ لینن بال برابر فاصلے سے موت سے بچا۔ اس نے ایسی حالت میں انیسا کو بلا بھیجا۔

انیسا آرمنڈ نے اپنی بیٹی کو خط میں لکھا، “اس واقعہ نے ہمیں اور بھی قریب کر دیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد وہ کریملین کے باس ایک بڑے اپارٹمنٹ میں منتقل ہوگئی اور لینن سے براہ راست فون پر گفتگو کا اختیار رکھنے والے چند افراد میں شامل ہوگئی۔ اس کا احساس نادیژدا کو بھی ہوگیا۔ صحت یابی کے بعد نادیژدا لینن کو چھوڑ کر چلی گئی اور اس کی واپسی کے بعد کریملن سے نکل گئی۔

1918 تک انیسا اپنے شوہر الیگزینڈر کو پارٹی کا ممبر بنوانے میں کامیاب ہوگئی۔ جلد ہی اسے سنٹرل کمیٹی کے عورتوں کے سیکشن کی سربراہ بنا دیا گیا جہاں اسے قوانین بنانے کا اختیار حاصل تھا۔ وہ روزانہ چودہ گھنٹے کام کرتی اور اسے شورش، قحط اور بدترین فلو کی وبا جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور آخر کار وہ اس سب کے سامنے تھک گئی۔

1920 میں اس کی دوست پولینا جب اسے ملی تو اس کی حالت دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس نے بتایا کہ “گھر گرد سے اٹا پڑا تھا، وہ بار بار

Anessa at work

کھانس رہی تھی اور ٹھنڈ سے کانپتی جاتی تھی اور اپنی پھونکوں کے سہارے اپنی انگلیوں کو گرمائش دیے جاتی تھی”۔

لینن جو کچھ ہی عرصہ پہلے صحت یاب ہوا تھا اسے مسلسل خطوط لکھتا رہتا۔ اس نے ڈاکٹر بھیجا جس نے بتایا کہ انیسا کو نمونہ ہوگیا ہے۔ “تمہیں بہت احتیاط کی ضرورت ہے”، لینن نے اسے تاکید کی، “اپنی بیٹیوں کو کہو کہ مجھے روز فون کریں اور بتائیں کہ تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ کیا آگ جلانے کے لئے لکڑی کی ضرورت ہے؟ کھانے کی؟ تمہارے لئے کون کھانا پکاتا ہے؟ میری ان تمام باتوں کا جواب ضرور دینا۔۔۔ تمہارا لینن”

وہ صحت یاب ضرور ہوئی مگر کام کا بوجھ پھر بھی اتنا ہی رہا۔ لینن نے اسے چھٹی پر جانے کی تاکید کی۔ کسلوودسک میں ایک سنیٹورہم میں جانے کا مشورہ دیا جو کوکوسس کی پہاڑیوں میں ایک پرفضا مقام ہے۔ مگر جب اسے پتہ چلا کہ شورش کے اختتام کے باوجود اس علاقے میں “سفید فام ڈاکو” ہیں تو اس نے انیسا کو اس علاقے سے نکالنے کے آپریشن کا حکم دیا۔

حملوں کے دوران مہمان اور مریض سب کو پارٹی ہیڈ کوارٹر کی جانب سے رائفلز دی جاتیں اور سائرن کے ذریعہ بلایا جاتا۔ انیسا نے اپنی ڈائری میں اس سب کا ذکر نہیں کیا۔ وہ تو اپنی ہی قنوطیت کا شکار تھی، اس نے لکھا “میرے شدید خواہش ہے کہ میں تنہا ہوجاؤں، میں اپنے بارے میں لوگوں کی باتوں سے تنگ آچکی ہوں۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ شاید اس اندرونی موت کی کیفیت سے میں جانبر نہ ہوسکوں۔۔۔ دوسروں کی مسکراہٹ اور قہقہے مجھے اجنبی سے محسوس ہوتے ہیں۔۔۔ دل میں صرف اپنے بچوں اور لینن  کے لئے گرم جذبات پاتی ہوں۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ میرا دل مردہ ہوچکا ہے۔”

Inessa Armand funeral

ستمبر 14 کو پارٹی کمیٹی کے دو ممبر اس کے قریب ہی قتل ہوگئے۔ ملٹری ٹرین میں سفر کرتے ہوئے وہ لوگ مشین گن کے حملے کی زد میں آگئے تھے۔ کچھ دنوں بعد یہ ٹرین جب بیلسن پہنچی تو وہ ایک ٹی بی کے مریض کے لئے بازار سے انڈے اور دودھ لینے نکلی جہاں سے اسے ہیضہ ہوگیا۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا مگر 23 ستمبر کی رات وہ بے ہوش ہوگئی اور اگلی صبح ڈاکٹر نے کہا “وہ ہمیں چھوڑ گئی ہے”۔

آٹھ دن بعد صبح صبح سیسے کے بنے ہوئے تابوت میں وہ ماسکو لائی گئی۔ لینن ٹرین میں الیگزیڈر اور اس کے بچوں سے ملا۔ اس کا جسم ہاؤس آف یونین میں رات بھر پڑا رہا جہاں اسے عورتوں کی طرف سے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔

اگلے دن اسے ریڈ اسکوائر میں سرکاری جنازے اور انقلابی گیتوں کے ذریعہ بھرپور خراج تحسین کے بعد دفن کیا گیا۔ الیگزینڈر کولونتائی کے مطابق “لینن تو پہچانا نہیں جاتا تھا، ہمیں مسلسل یہ لگ رہا تھا کہ وہ ابھی ابھی بکھر جائے گا۔” انجیلیکا بالابانوو نے لکھا “وہ مجسم غم تھا۔۔۔ یوں لگتا تھا کہ وہ اچانک بہت سا وزن کھو بیٹھا ہے۔۔۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔۔۔”

سوویت انقلاب کا بانی ولادی میر ایلیچ لینن گہری محبت کا اہل تھا۔

(ترجمہ: لائبہ زینب)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).