پولیس ہمیں ڈنڈے مارے گی تو انقلاب کیسے آئے گا؟


گذشتہ دنوں سوشل میڈیا کے کھلاڑیوں اور ایف آئی اے کے ایمپائروں کے میچ کا بہت چرچا رہا۔ چوہدری نثار بارہا منظر عام پر آئے۔ طول طویل پریس کانفرنسز کرتے رہے۔ کبھی ملکی سلامتی کا رونا لے بیٹھے کبھی امن عامہ کا ماتم کرنے لگے۔ کبھی اپنی روایات کا قصیدہ چھیڑ دیا توکبھی سماج پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات پر بحث شروع کر دی۔ کبھی اسلام کی عظمت پر رطب اللسان ہوگئے کبھی پائندہ اقدار کا قصہ سامنے آگیا۔ کبھی دشنا م طرازوں کی خبر لی اور کبھی لغو گوئی کرنے والو ں کو لتاڑ دیا۔ اگرچہ اس گفتگو کے درمیان وہ اکثر کہتے رہے کہ ہم سوشل میڈیا بند نہیں کر رہے، ہم کسی کی آزادی کے خلاف نہیں لیکن ہمارے دفاعی اداروں اور عدلیہ کی حرمت ہمارے آئین کا حصہ ہے۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔ اس پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ ان کی حفاظت کے لئے خون کا ایک ایک قطرہ تک بہا دیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔

قصہ کوتاہ، ہوا یہ کہ چند لوگوں کو ایک گمنام نمبر سے کالیں آئیں۔ کچھ کو دھمکایا گیا۔ کچھ کو ایف آئی اے کے دفتر میں طلب کیا گیا۔ کچھ کے موبائل اور لیپ ٹاپ فرانزک ٹسٹ کے لئے بھیج دیے گئے۔ کچھ کو ڈانٹ ڈپٹ کی گئی۔ چند ایک کو سوشل میڈیا پر آزادی اظہار کے معنی سمجھائے گئے۔ ٹوئیٹر پر گفتگو کا سلیقہ سمجھایا گیا، فیس بک پر بات کرنے کے قرینے سے آگاہی دی گئی۔ انسٹا گرام پر تصویریں چسپاں کرنے کے زریں اصول بتائے گئے۔ اس سارے واقعے کے بعد وہ نوجوان جو کسی بھی پارٹی کی حمایت کر رہے تھے وہ محتاط ہو گئے۔ پارٹیوں کے سوشل میڈیا گروپس میں ملازمت کرنے والے بہت کم لوگ ہیں سوشل میڈیا پر زیادہ تعداد سپورٹرز کی ہے۔ ان میں سے بے شمار پولیٹیکل ورکرز یا سپورٹرز ان واقعات کے بعد خاموش ہو گئے یا خوف کے مارے دبک کر بیٹھ گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف آئی اے نے جن لوگوں کو دھمکایا وہ دونوں جماعتوں کے سپورٹر تھے۔ مسلم لیگ ن کے ہم خیال افراد کو بھی تادیب کے لئے بلایا گیا اور پی ٹی آئی کے نوجوانوں کی بھی سرزنش کی گئی۔ ان میں سے کچھ لوگوں میں جانتا ہوں جن کی ٹائم لائن دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کبھی گالی کو گفتار نہیں بنایا۔ کبھی کسی کو بغاوت پر آمادہ نہیں کیا۔ کبھی فوج یا عدلیہ کی توہین نہیں کی۔ ہاں البتہ کسی ایک پارٹی کی حمایت میں یہ لوگ جٹے رہتے تھے۔ جہاں تک مجھے علم ہے ان میں سے اکثر کسی سوشل میڈیا گروپ کی ملازمت نہیں کرتے تھے بس ذہنی مسابقت کی بناء پر کسی ایک جماعت کی حمایت کرنے کا جرم ان سے ضرور ہواتھا۔

حکومت اور اپوزیشن کی جماعت کی طرف سے اس ایکشن کا ردعمل بالکل مختلف ہوا۔ پی ٹی آئی نے اس مسئلے کو خوب اٹھایا، شاہ محمود قریشی تو ایف آئی اے کے دفتر بھی پہنچ گئے۔ عمران خان بھی اس مسئلے پر خوب گرجے برسے۔ آزادی اظہار پر قدغن لگانے کے خلاف دھرنے تک کا اعلان کر دیا۔ اس سے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے سپورٹرز کوخوب حوصلہ ملا۔ سہمے اور دبکے ہوئے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ پھر سامنے آگئے۔ ڈرے ڈرے ٹوئیٹ اپنی جماعت کے حق میں کرنے لگے۔ حکومتی رویہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ نہ کسی نے اپنے سپورٹر کی حمایت میں آوز اٹھائی، نہ کوئی ان کو تھانے چھڑوانے گیا۔ نہ کسی کا بیان سامنے آیا نہ کسی جلسے میں ان لوگوں کو ہراساں کرنے کے خلاف پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔ جس سے پی ایم ایل ن کے سپورٹرزمیں بد دلی پھیل گئی۔ حکومتی جماعت کے کچھ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ڈر کے مارے ٹوئیٹر چھوڑ گئے اور کچھ نے چپ سادھ لی۔ ڈاکٹر فیصل رانجھا اور عادی نامی دو حکومتی سپورٹرز کی حمایت میں سوشل میڈیا پر کچھ مہم تو چلی مگر زیادہ تر تک اس میں اثر قائم نہیں رہا۔ بہت سے لوگ جو مسلم لیگ ن کے حمایتی تھے وہ حکومت کو طعنے دینے لگے۔ اپنی قیادت سے شکوے سامنے آنے لگے۔ مختصر یہ کہ ان سارے اقدامات میں فوج اور عدلیہ کے وقار پر بات کم ہوئی پارٹی سیاست پر بحث زیادہ زور پکڑ گئی ہے۔ جس کا زیادہ نقصان واضح طور پر حکومتی سپورٹرز کو ہوا ہے۔

بدقسمتی سے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ پر ایکشن کے بارے میں چوہدری نثار کی تمام تر دلیلیں بوگس، بودی اور بے معنی سی لگتی ہیں۔ اگر تو اس ایکشن کا مقصد ہمارے دفاعی اداروں کا دفاع اور عدلیہ کی حرمت برقرار رکھنا تھا تو یہ بے معنی کاوش تھی۔ اس لئے کہ اس ملک میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد ابھی بہت کم ہے۔ زبان کے مسائل، ٹیکنالوجی کے دھندے، فون اور لیپ ٹاپ کی قیمت، انٹر نیٹ کی دستیابی جیسے مسائل سے کم لوگ ہی آزاد ہیں۔ سوشل میڈیا ابھی تک اتنی بڑی قوت نہیں بن سکا جتنی بڑی طاقت الیکٹرانک میڈیا بن چکا ہے۔ لیکن عجب اتفاق ہے اس پر کبھی چوہدری نثار کی نظر نہیں پڑی۔ اس پر کبھی ایف آئی اے کا چھاپہ نہیں پڑا۔ اس پر کبھی کسی کی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی گئی۔

وزیر داخلہ کی سہولت کے لئے چند حقائق کا یہاں بتانا ضروری ہے۔ اس ملک میں ایک چینل کے پروگرام کے نتیجے میں سلمان تاثیر پر توہین کا فتوی لگ گیا اور ان کو جان سے گزر جانا پڑا۔ اس ملک کے ایک چینل پر ٹوئیٹ کے واپس لینے پر ہماری افواج پر بزدلی کے الزام لگا۔ سانحہ مشرقی پاکستان تک کو اس ٹوئیٹ کی واپسی سے جوڑ دیا گیا۔ اس ملک کے ایک چینل سے عدلیہ کوباقاعدہ بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس ملک کے ایک چینل سے آئے روز اینکرز اور تجزیہ نگاروں پر توہین اور غداری کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اس ملک کے کچھ چینلوں پر لوگ بیٹھ کر ا پنے تئیں فوج میں سروے کروانے کا اعلان کرتے ہیں۔ اس ملک کے چینلوں پرریٹائرڈ افسران ہمارے اداروں کو مارشل لاء لگانے پر سرعام اکساتے ہیں۔ خود کو فوج کا ترجمان بتاتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ریٹائر منٹ کے بعد بھی سارا ادارہ ان کے کہنے پر چلتا ہے ہر کوئی ان کے ذریعے خبر بھیجتا ہے۔ رہا قصہ عدلیہ کی حرمت کا تو پانامہ کا کیس ہو یا دھاندلی کامعاملہ، پینتیس پنکچر کی بات ہو یا حلقوں کو کھلوانے کی۔ کیا ایسا نہیں ہوا کہ لوگوں نے اپنے اپنے پروگراموں میں عدالتیں لگا لیں، خود ہی منصف بنے خود ہی وکیل ہوئے۔ اتنے بڑے پلیٹ فارم پر یہ تماشے ہوتے رہے مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ کسی کو پتہ ہی نہیں چلا۔ کیا فوج کا وقار اور عدلیہ کی حرمت صرف سوشل میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ کیا اسلامی شعار کا احترام صرف ٹوئیٹر پر ضروری ہے۔ کیا بے بنیاد الزم کی سزا صرف ٹوئیٹر استعمال کرنے والوں کے لئے ہے؟ کیا نفرت کا کاروبار صرف سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے؟ کیا جھوٹ کا پندار صرف سوشل میڈیا پر چل رہا ہے؟

الیکٹرانک میڈیا کو چھوڑ بھی دیں تو کیا سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں سول نافرمانی کی کال نہیں دی گئی؟ حکومت سے بغاوت پر نہیں اکسا یا گیا؟ جلاو، گھیراؤ کی دعوت نہیں دی گئی؟ ایمپائر کی انگگلی کے بہانے فوج کو ملوث کرنے کی سازش نہیں کی گئی؟ اس ملک کے دارالخلافہ کے لاک ڈاون کی کال نہیں دی گئی؟ صوبوں کوباہم دست گریبان نہیں کیا؟ اس کو بھی چھوڑ دیں صرف اتنا بتا دیں کہ کیا اس اسلام آباد میں جہادی جماعتوں کے اجلاس نہیں ہوئے؟ دہشت گرد تنظیموں کے جلسے نہیں ہوئے؟ اس وقت ایف آئی اے کیوں خاموش تھی؟ اس وقت پکڑ دھکڑ کیوں نہیں ہوئی؟

اگر اس ایکشن کا مقصد حکومت مخالف گروپس کو تنبیہ کرنا تھا تو بھی یہ ایکشن بری طرح ناکام رہا ہے۔ اس ایکشن سے سوشل میڈیا پر حکومت کی سبکی ہی ہوئی ہے نیک نامی نہیں۔ ایک دوست جو ہمیشہ دور کی کوڑی لاتے ہیں اس ایکشن پر تبصرہ کرنے لگے کہ پارٹی کے اندر کے اختلافات پر کچھ لوگوں سے بدلہ لینے کی خاطر یہ ایکشن ہوا ہے۔ کچھ لوگوں کی سبکی درکار تھی۔ کچھ اپنا آپ دکھانا تھا۔ بس اس سے زیادہ کوئی بات نہیں۔

جو لوگ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی شخص کی بات آپ کو پسند نہیں آتی، کوئی شخص گالی دیتا ہے، کسی توہین کرتا ہے تو آپ کے پاس بلاک کا ایک بٹن ہوتا ہے۔ آپ ایسے شخص کو بلاک کر سکتے ہیں۔ اس ننھے سے بٹن سے آپ ایسے شر انگیز سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے الیکٹرانک میڈیا میں یہ بٹن ایجاد نہیں ہوا ہے۔ بد قسمتی سے یہ بٹن سیاست دانوں کی زبانوں پر نہیں لگ سکا۔ بدقسمتی سے یہ بٹن دہشت گردوں کے ذہنی حامیوں پر کارگرنہیں ہو سکا۔

سوشل میڈیا کے نوجوان نئے نئے سیاسی شعور کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ وزیر داخلہ صاحب ان کے سیاسی شعور پر پابندی نہ لگائیں۔ ان نوجوانوں نے کبھی پولیس دیکھی ہے نہ تھانے میں رات گزاری ہے۔ نہ ڈرائنگ روم کی سیر کی ہے نہ چھتر کھائیں ہیں۔ یہ نئی پود ہے۔ معصوم لوگ ہیں۔ ان بچوں کو مت دھمکائیں۔ مت ڈرائیں۔ اظہار کے راستے مت بند کریں۔ ورنہ یہ نئی سیاسی پود یہ کہہ کر بھاگ جائے گی کہ دیکھیں جی، اگر پولیس ہمیں ڈنڈے مارے گی تو انقلاب کیسے آئے گا؟

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar