ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی


وزارتِ خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کو اس وضاحت کی بھی ضرورت نہیں تھی کہ سعودی شاہ نے ان تیس مقررین سے معذرت کی ہے جنھیں سربراہ کانفرنس میں وقت کی قلت کے سبب خطاب کا موقع نہیں مل پایا۔ مِزے کی بات ہے کہ سعودی شاہ کا موقف ریاض کے بجائے اسلام آباد سے سامنے آیا ہے۔ بالکل ایسے جیسے سال بھر پہلے اسلامی عرب فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کی خبر اسلام آباد کے بجائے ریاض سے جاری ہوئی تھی۔ مگر ریاض کی حالیہ امریکن عرب اسلامک سربراہ کانفرنس میں پاکستانی وفد کو جس سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا اس پر بھانت بھانت کے سوالات، تاویلات اٹھانے اور وضاحتیں دینے کے بجائے اسے نعمتِ غیرمترقبہ کی نگاہ سے بھی تو دیکھا جا سکتا ہے اگر آنکھ ہو تو۔

اگر پاکستان کو ایک ڈھل مل غیر تابعدار ناقابلِ اعتبار ریاست کا غیر علانیہ درجہ مل ہی چکا ہے تو اس تاثر کو دھونے یا صفائی پیش کرنے کے بجائے اسے ایک اہم تاریخی و سفارتی موقع کے طور پر دیکھنے اور خیر مقدم کی ضرورت ہے۔ مگر اس خیر مقدم کے لیے ذہنی اعتبار سے ایک غیر تابعدار قیادت بھی تو چاہیے جو ایسے نئے اتحادیوں کے ساتھ چل سکے جو قدامت پسندی کے محور پر توازن ِ طاقت کے پرانے آزمودہ ورلڈ آرڈر کی جگہ ایک نئے ورلڈ آرڈر میں اپنی موثر آواز کی بازگشت سننا چاہتے ہیں۔ ان طاقتوں میں سرِ فہرست چین اور روس ہیں۔

بات یہ ہے کہ جب عملاً غیر جانبدار رہنا ناممکن ہو اور نیا کیمپ بھی میسر ہو اور ہمیں تنہائی کا دکھ جھیلنے کی عادت بھی نہ ہو اور ہم میں اتنی قوت بھی نہ ہو جو دوسروں کو ہماری ضروریات و خدشات کے بارے میں قائل کر سکے تو پھر خارجہ پالیسی میں ’’ میں ہوں کسی کے ساتھ میرا دل کسی کے ساتھ ’’والا اصول جھٹک دینا ہی تیز رفتار بدلے حالات میں عقلمندی ہے۔

آپ اپنا کیک یا تو کھا سکتے ہیں یا پھر اسے نہ کھا کر محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ مگریہ ممکن نہیں کہ آپ اپنا کیک کھائیں بھی اور اسے کم بھی نہ ہونے دیں۔ آپ کا بنیادی قومی مفاد کیا ہے؟ یہی نا کہ بھارت آپ پر علاقائی، اقتصادی یا سیاسی طور پر غالب نہ آ جائے؟ آپ کی ستر سالہ بھاگ دوڑ اسی ایک نکتے کے گرد گھومتی رہی ہے نا؟ اور اس بھاگ دوڑ کے دوران جس نے بھی آپ کو مسکرا کے دیکھ لیا اسی کو آپ نے مددگارسمجھ لیا۔ ذرا کبھی ٹھہر کے ناقدانہ جائزہ تک نہ لیا کہ آپ کی بھارتی کمزوری کو ایکسپلائٹ کرنے والے یار لوگوں نے آپ سے تعاون کے نام پر کیسے کیسے کام نکلوا لیے اور آپ گھوم پھر کے عدم تحفظ کے میدان میں آج بھی وہی پرانی نفسیاتی نیکر پہنے کھڑے ہیں۔

کسی بھی دشمن کو نہتا کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ میں اتنی طاقت ہو کہ نہتا کر دیں۔ اگر یہ نہ کر پائیں تو اپنے بنیادی بقائی مفادات پر سمجھوتہ کیے بغیر اس سے دوستی گانٹھنے کی کوشش کریں۔ یہ بھی مشکل لگے تو پھر ایسا دوست یا اتحاد تلاش کریں جو آپ کے عدو پر بھی رسوخ رکھتا ہو۔ یہ بھی مشکل ہے تو پھر آپ ایسا یا ایسے دوست تلاش کریں جن کے اور آپ کے علاقائی مفادات مشترک ہوں اور ان کی صحبت میں آپ خود کو کسی حد تک محفوظ سمجھیں۔ پہلے تین کام آپ سے ہو نہیں سکتے مگر چوتھا کام بھی آپ اناڑی پن سے کرتے آ رہے ہیں۔ کبھی ایک اتحاد میں ضرورت سے زیادہ گھس گئے کبھی ضرورت سے زیادہ لاتعلق ہوگئے، کبھی ضرورت سے زیادہ دو عملی اختیار کر لی اور کبھی ایک بڑے کام کے ساتھ اپنا چھوٹا سا کام ٹانک کر بڑا کام دینے والے کو بدکا دیا اور کبھی خود دباؤ کی تاب نہ لاتے ہوئے جھنجھلاہٹ میں بدک گئے۔ یہ رویہ دو انسانوں یا دو انسانی گروہوں کے مابین تو چل سکتا ہے مگر ریاستوں کی تعلقاتی فارسی میں فٹ نہیں بیٹھتا۔
جس طرح لغوی معنوں میں کوئی مجرم ایماندار نہیں ہوتا اسی طرح کوئی بھی ریاست لغوی معنوں میں ایماندار نہیں ہوتی، نہ ہونا افورڈ کر سکتی ہے۔ دونوں مفادات کے پتلے ہوتے ہیں۔ البتہ مشکل یہ ہے کہ بے ایمانی بھی بنا سلیقہ یا بغیر ایمانداری زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ لہذا مجرم ہو کہ کوئی ریاست انھیں اپنی بقا کے لیے مفاداتی ایمانداری کا ضابطہِ اخلاق بنانا ہی پڑتا ہے۔ اور جو بھی اس ضابطہِ اخلاق کو پامال کرتا ہے اس سے سنڈیکیٹ میں شامل باقی ارکان مافیائی سلوک کرتے ہیں اور ریاستیں ایسی ضابطہ شکن ریاست کو قسط وار زخم دے کر نمٹتی ہیں۔ گویا وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے۔

اس نظریے کی روشنی میں پاکستان کو ایک بار پھر سنہری موقع ملا ہے کہ وہ ترازو کے دو پلڑوں کو جوڑنے والی ڈنڈی پر چلنے کے بجائے کسی ایک پلڑے میں اتر آئے۔ جہاں دو کشتیوں میں پاؤں رکھتے رکھتے عمر گزر گئی وہاں ایک کشتی میں دونوں پاؤں رکھنے کا تجربہ بھی سہی۔ اس دوران اگر کوئی پیچھے سے آواز لگائے کہ بھینس بھینس تجھے چور لے چلے تو انھیں بتا دیا جائے کہ تو جو چارہ ڈالتا رہا ہے وہ تو چور بھی دیں گے۔ دودھ تو وہ بھی سارا نکال کے بیچیں گے لیکن ہو سکتا ہے تیری طرح نہ بیچیں۔

ہاں تو پھر کیا سوچا۔ امراؤ جان کی طرح کوٹھے کوٹھے آئیڈیل کی تلاش جاری رکھنی ہے یا پھر گھر بسانے کا بھی سوچنا ہے اب جیسا بھی بسے۔ مگر شاید یہ کہنا آسان ہو۔ کسی ایک کا ہونے سے امراؤ کا تو بھلے بھلا ہو جائے مگر امرا کا شاید نہ ہو پائے۔

عوام کو تو صرف جان و مال کی سیکیورٹی اور قانونی رٹ اور مساوات چاہیے بھلے کسی بھی کمپنی کے نام پر ہو۔ اصل مشکل اور نخرہ امرا کا ہے۔ انھیں چینی سی پیک بھی چاہِیے اور امریکی ایف سولہ بھی۔ عوام کو تو نئے روزگاری تقاضوں کی خاطر مینڈرین زبان کی شدبد چاہیے مگر امرا کوکچھ الگ سا دکھنے کے لیے انگریزی اور ہارورڈ چاہیے۔

پروجیکٹ شنگھائی کی کمپنی کا اچھا مگر پیسہ جمع کرانے کے لیے بینک سوئس ہو تو اور اچھا۔ دورہ بیجنگ کا اچھا مگر رہنا دوبئی، لندن، ٹورنٹو یا نیویارک کا اچھا۔ امداد بھی ویل کم اور قرض کو بھی خوش آمدید، پائیدار سڑک بھی درکار مگر کمیشن سے بھی نہیں انکار۔ جانا ریاض اور دیکھنا ہانگزو کی طرف، مشرق کی طرف سے بھی سرمایہ کاری چاہیے اور مغرب کی طرف ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بھی نگاہ سے اوجھل نہ ہوں۔ وفاداری کی بھی خواہش ہے مگر چانس ملنے پر آنکھ مٹکے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اچھا بھی چاہیے مگر توازن برقرار رکھنے کے لیے برا بھی چاہیے۔ آزادی بھی چاہیے مگر پابہ زنجیر رہنے کی پرانی خواہش بھی ٹوکری میں نہیں پھینکنی۔ اکیسویں صدی کے تقاضے بھی پورے کرنے کو جی چاہتا ہے مگر انیسویں صدی کی جاگیردارانہ و متوسط اقدار و ذہنیت کی غلامانہ اوڑھنی بھی نہیں اتارنی۔ ایسے پیچیدہ ذہن تضاداتی مزاج والے امرا کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے۔

ان حالات میں وفاداری و یک رخی کے معنی جاننا اور بات ہے اور ان معنی کو برتنا اور بات۔ میں نے تو آج تک کوئی ہیروئنچی نہیںدیکھا جو ہیروئن پینے کو اچھا سمجھتا ہو۔ مگر کیا کرے وہ بھی تو مجبور ہے۔ کوئی کرے تو کیا کرے؟

ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں
شکریہ مشورت کا، چلتے ہیں
ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چلنا پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں۔
ہم کوئی بد معاملہ تو نہیں
زخم کھاتے ہیں، زہر اگلتے ہیں (جون ایلیا)

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).