نیٹو سربراہی اجلاس: یورپ اور امریکہ کے بدلتے تعلقات


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شریک ہیں جہاں وہ 28 رکنی فوج اتحاد کے دیگر رکن ممالک سے دفاع پر اخراجات بڑھانے کا مطالبہ کریں گے جبکہ یورپی لیڈروں کی خواہش ہوگی کہ امریکی صدر نیٹو کے چارٹر کی شق 5 پر اپنے پختہ یقین کا اظہار کریں۔ اس شق کے تحت کسی بھی رکن ملک پر حملہ ہونے کی صورت میں تمام ممالک مل کر دشمن کامقابلہ کرتے ہیں تاہم امریکہ کے نومنتخب صدر یہ واضح کرتے رہے ہیں کہ یورپ ہمیشہ امریکی امداد پر انحصار نہیں کر سکتا۔ آج صبح نیٹو کے ہیڈ کوارٹرز میں ہونے والی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے یہ یقین دہانی کروانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اگرچہ بعد میں امریکی نمائندے یہ وضاحت کرتے رہے تھے کہ نیٹو کے سب ممالک اس شق کے پابند ہیں۔ صدر ٹرمپ کی سربراہی اجلاس میں شرکت ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ چارٹر کی شق 5 کا پابند ہے۔ تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منہ سے یہ الفاظ نہ سن کر متعدد یورپی لیڈروں کو مایوسی ہوئی ہوگی۔ اس کے برعکس امریکہ کے صدر یورپی ملکوں سے نیٹو کے اخراجات میں زیادہ حصہ ادا کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ اسی تناظر میں انہوں نے اس سال جنوری میں نیٹو کو ’’متروک‘‘ اتحاد قرار دیا تھا۔ اگرچہ بعد میں حسب عادت ٹرمپ نے یہ موقف تبدیل کر لیا تھا۔ لیکن وہ مسلسل یہ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ نیٹو کے اخراجات کا زیادہ بوجھ امریکہ پر ڈالا جاتا ہے جو ناانصافی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والے یورپی امریکن فوجی اتحاد کی شق 5 پر عملدرآمد کی صورت ایک بار پیدا ہوئی تھی۔ 9/11 حملوں کے بعد نیٹو نے اپنے حلیف ملک امریکہ کی مدد کےلئے اس کا مکمل ساتھ دینے کا اعلان کیا اور بقدر جثہ اس میں کردار بھی ادا کیا۔ تاہم صدر ٹرمپ امریکہ کو مالی دباؤ سے بچانے کےلئے یورپ کو تنہا کرنے کے اشارے بھی دیتے رہے ہیں۔ امریکہ نیٹو کے اخراجات کا 22 فیصد ادا کرتا ہے جبکہ جرمنی 15 فیصد اور برطانیہ 10 فیصد اخراجات برداشت کرتا ہے۔ باقی 25 ممالک اپنی قومی پیداوار کا دو فیصد دفاعی بجٹ پر صرف کرنے کے پابندی ہیں۔ لیکن بیشتر یورپی ممالک اور کینیڈا اس وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کو جنگ کا کوئی فوری اندیشہ لاحق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی مکمل حمایت کے سبب ان سب ملکوں کو یہ یقین رہا ہے کہ روس کی جانب سے کسی خطرہ کی صورت میں امریکہ مدد کےلئے موجود ہوگا۔ امریکہ دنیا بھر میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کےلئے کسی نہ کسی طرح اپنی فوجوں کو استعمال کرتا رہا ہے۔ البتہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اس طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب ہو یا جنوبی کوریا اور جاپان یا پھر فوجی اتحاد نیٹو ۔۔۔۔۔۔۔ ان ممالک کو خود اپنے دفاع کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔ اگر امریکہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کر لے گا تو انہیں اس کے اخراجات ادا کرنا پڑیں گے۔

دیرینہ فوجی معاہدے اور سفارتی ، سیاسی اور معاشی تعلقات کے تناظر میں کم از کم یورپین ملکوں کےلئے یہ طرز گفتگو خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ہی یوکرائن کے سوال پر روس نے اپنی عسکری قوت کا مظاہرہ کیا تھا جس کے بعد نیٹو کی اہمیت میں اضافہ محسوس کیا جانے لگا تھا۔ لیکن امریکہ کے نئے صدر ایک طرف نیٹو کو ’’متروک‘‘ قرار دے کر اور زیادہ مالی وسائل فراہم کرنے کا مطالبہ کرکے نیٹو کے چارٹر سے دست برداری کا اظہار کرتے رہے ہیں تو وہ دوسری طرف روس کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں۔ اس وقت صدر ٹرمپ کی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج ان تحقیقات سے ہی لاحق ہے جو ان کی انتخابی مہم اور روس کے سفیر کے تعلقات کے حوالے سے کی جا رہی ہیں۔ صدر ٹرمپ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مائیکل فلن کو اسی الزام میں گزشتہ ماہ اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ انہوں نے روسی سفیر کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے حوالے سے دروغ گوئی سے کام لیا تھا جبکہ وزارت انصاف کی رپورٹ میں اس بنیاد پر انہیں ملکی سلامتی کےلئے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ اب ان تحقیقات کےلئے اسپیشل پراسیکیوٹر بھی مقرر ہو چکا ہے اور سینیٹ کی مختلف کمیٹیاں بھی اس معاملہ کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ اس سیاسی بحران کے باوجود صدر ٹرمپ نے روس کے بارے میں نرم رویہ اختیار کیا ہے اور شام میں جنگ بندی کےلئے روس کے ساتھ مفاہمت کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ روس کے بارے میں ٹرمپ کے مفاہمانہ اور ہمدردانہ طرز عمل کے برعکس یورپی ممالک روس کو اپنی سلامتی کےلئے براہ راست خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس صورت میں نیٹو کو مستحکم کرنے اور اس اتحاد میں امریکہ کی سرپرستی کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد امریکہ اور یورپ کے اختلافات زیادہ واضح ہو کر سامنے آنے لگے ہیں۔ اگرچہ یورپی لیڈر اس حوالے سے بات کرتے ہوئے نہایت احتیاط سے کام لیتے ہیں اور وہ سفارتی اور سیاسی لحاظ سے امریکی حکومت کو نیٹو کے ساتھ چلتے رہنے پر آمادہ کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ نیٹو کے جنرل سیکریٹری ینس ستولتن برگ نے دو ماہ قبل وہائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ یورپی ملکوں اور کینیڈا کو نیٹو کے مصارف میں زیادہ حصہ ادا کرنے پر مجبور کرنے کےلئے منصوبہ بنا لیا گیا ہے جس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔ آج برسلز میں سربراہی کانفرنس سے پہلے ستولتن برگ نے ایک بار پھر اس بات کا دہرایا ہے کہ تمام رکن ملک اپنی قومی پیداوار کا 2 فیصد دفاع پر صرف کریں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے دہشت گردی سے نمٹنے کےلئے مل کر کوششیں کرنے اور نیٹو کی حصہ داری کو بڑھانے کی بات بھی کی۔ خاص طور سے افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ میں بڑھ چڑھ کر امریکہ کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا گیا۔ تاہم نیٹو کے جنرل سیکریٹری کی یہ باتیں یورپ کے عوام کے عمومی جذبات کی عکاسی نہیں کرتیں۔ یورپ کے عوام جنگوں اور دفاعی اخراجات کی بجائے فلاحی سہولتوں کو بہتر بنانے اور بے روزگاری ختم کرنے کےلئے وسائل صرف کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا موقف یورپی رائے عامہ سے متصادم ہے۔ وہ مسلسل جنگ اور اسلحہ کی بات کرتے ہیں۔ ٹرمپ حکومت نے امریکہ کے دفاعی اخراجات میں اضافہ کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے حالیہ دورہ کے دوران انہوں نے 110 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ عرب رہنماؤں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے امریکی اسلحہ کو ’’خوبصورت اور موثر‘‘ قرار دیتے ہوئے انہیں زیادہ مقدار میں امریکی اسلحہ خریدنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح اگرچہ چند ہزار یا لاکھ امریکیوں کو روزگار تو ملے گا لیکن دنیا میں تصادم اور جنگ جوئی کے رجحان میں بھی اضافہ ہوگا۔ مہلک اور انسانی زندگی لینے والے خطرناک ہتھیاروں کو ’’خوبصورت‘‘ قرار دینے کا لب و لہجہ یورپی ضمیر کےلئے بوجھ کی حیثیت اختیار کرے گا۔

دہشت گردی کے خلاف نیٹو کے کردار کے بارے میں بھی کوئی دوٹوک بات نہیں کہی جا سکتی۔ آج نیٹو کے سربراہی اجلاس میں مانچسٹر میں ہونے والے دہشت گرد حملہ کی بازگشت بھی سنائی دی۔ لیکن نیٹو ممالک کے رہنما جانتے ہیں کہ اس خطرہ سے نمٹنے کےلئے سماجی اور سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ نیٹو جیسا فوجی اتحاد ایسے دہشت گردوں کو ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ داعش جیسے گروہ کے خاتمہ میں نیٹو اتحاد اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن یہ بھی کاغذی باتوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ گزشتہ دو برس سے 50 سے زائد ملکوں کا اتحاد داعش کے خلاف فضائی حملے کر رہا ہے اور امریکہ و یورپی ملکوں کی مدد سے عراق کے علاوہ متعدد عسکری گروہ بھی داعش کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ لیکن ان تمام کارروائیوں کے نتیجہ میں شام کی غارت گری میں اضافہ ہوا اور مشرق وسطیٰ میں نئے تنازعات نے سر اٹھایا ہے۔ اب ٹرمپ نے دورہ سعودی عرب کے دوران ایران کے خلاف محاذ آرائی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اولین اصول کی حیثیت دی ہے۔ اس موقف سے سعودی عرب اور اس کے حلیف خلیجی ممالک تو خوش ہوں گے جو علاقے میں ایرانی اثر و رسوخ سے خائف ہیں لیکن یورپ کےلئے ایران کے خلاف جنگ قابل عمل متبادل کے طور پر قبول نہیں ہوگی۔

امریکہ کے علاوہ روس ، چین ، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی نے گزشتہ سال ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اس کے نتیجہ میں ایران نے اپنا جوہری پروگرام بند کر دیا تھا جس کے بدلے میں ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کر دی گئی تھیں۔ صدر ٹرمپ اسرائیل اور سعودی عرب کی حمایت حاصل کرنے کےلئے اس معاہدہ کو ختم کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ لیکن فی الوقت وہ یورپی دباؤ کی وجہ سے ایسا اقدام کرنے سے باز رہے ہیں لیکن دورہ سعودی عرب کے دوران انہوں نے جس طرح ایران کو نشانہ بنایا ہے اس سے یورپ کے متعدد دارالحکومتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ فرانس اور متعدد یورپی ملک اس سمجھوتہ کے بعد ایران میں سرمایہ کاری اور اسلحہ کی فروخت کےلئے معاہدے کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی سرکردگی میں امریکہ اگر ایران کو تنہا کرنے کی پالیسی نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یورپ کے ساتھ اختلافات پیدا ہونا فطری ہوگا۔

نیٹو سربراہی اجلاس اہم رکن ملک کے سربراہ کے بارے میں شبہات ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ شک و شبہ کی یہی فضا نیٹو کے رکن یورپی ممالک پر خوف بھی طاری کر رہی ہے اور وہ متبادل انتظامات کرنے کا حوصلہ بھی نہیں کر پاتے۔ کئی دہائیوں تک امریکہ نے اگر یورپ کی غیر مشروط حمایت کا مزا لیا ہے تو یورپ بھی امریکہ کو اپنا سرپرست سمجھتے ہوئے سکھ کا سانس لیتا رہا ہے۔ اب یہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں نیٹو کے علاوہ دیگر اہم شعبوں میں یورپ اور امریکہ کے اختلافات میں اضافہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali