عذر گناہ بد تر از گناہ


پاکستان کی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ دنوں سعودی عرب کے حکمران شاہ سلمان بن عبد العزیز نے اسلامی سربراہی کانفرنس میں وزیر اعظم نواز شریف کو تقریر کرنے کا موقع نہ دینے پر ذاتی طور پر ان سے معذرت کی ہے۔ پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس میں تیس ملکوں کے سربراہان کو تقریر کرنا تھی لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے چند تقریروں کے بعد ہی سربراہی اجلاس کو سمیٹ دیا گیا۔ اس واقعہ پر شاہ سلمان نے ان تمام سربراہان سے ذاتی طور پر معذرت کی ہے جنہیں بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔ وزارت خارجہ جس واقعہ کو منتظمین کی مجبوری کے طور پر پیش کررہی ہے ، وہ دراصل سعودی عرب کی ناراضگی کا اظہار تھا کیوں کہ سعودی حکمران ایران کے بارے میں پاکستان کی غیر واضح خارجہ پالیسی سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس کانفرنس کا مقصد صدر ٹرمپ اور شاہ سلمان کے اینٹی ایران پروپیگنڈا کو آگے بڑھانا تھا۔

اس تناظر میں تو پاکستانی وزیر اعظم کو تقریر کا موقع نہ ملنا کسی نعمت سے کم نہیں تھا کیوں کہ پاکستان ایران کے خلاف ایک پروپیگڈا مہم کا حصہ بننے سے بچ گیا۔ تقریر کرنے کی صورت میں وزیر اعظم خواہ ایران کے خلاف بات نہ کرتے لیکن وہ میزبان ملک اور دنیا کی سپر پاور کے صدر کی ایران پر نازیبا تنقید اور الزام تراشی کی مذمت کرنے میں بھی ناکام رہتے ۔ اس طرح تہران میں یہی سمجھا جاتا کہ پاکستان نے سعودی عرب کے مؤقف کی حمایت کی ہے کیوں کہ انہوں نے ایران کے خلاف کی جانے والی باتوں کو مسترد نہیں کیا۔ کانفرنس میں کی جانے والی تقریریں اور اس کا بنیادی مقصد ایران کو دہشت گرد ملک اور دنیا بھر میں دہشت گردوں کا سرپرست قرار دینا تھا۔ پاکستان اس مؤقف کی تائد کرنے سے قاصر رہتا۔ اسی لئے وزیر اعظم نواز شریف کو اس کانفرنس میں بولنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ پاکستان اگر در پردہ سعودی منتظمین کو یقین دلوا دیتا کہ اس کے وزیر اعظم بھی ایران کے خلاف بات کریں گے اور سعودی امریکی ایجنڈے کا ساتھ دینے میں کسی لیت و لعل سے کام نہیں لیں گے تو وقت کی ’قلت‘ کے باوجود انہیں تقریر کرنے کی دعوت دی جاتی۔ صورت حال سے معمولی آگاہی رکھنے والا شخص بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے۔ لیکن پاکستانی وزارت خارجہ نے شاہ سلمان کی ’ذاتی معافی‘ کا ذکر کرکے اپنے وزیر اعظم کا قد اونچا کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب کی طرف سے اس قسم کوئی معذرت سامنے نہیں آئی۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے صدر ٹرمپ کی تقریر میں بھارت کا ذکر کرنے اور پاکستان کو نظر انداز کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے بھی عذر گناہ بد تر از گناہ کے مصداق اسی قسم کی دلیل دینے کی کوشش کی ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے صرف ان ممالک کا ذکر کیا تھا جو کانفرنس میں موجود نہیں تھے اس لئے پاکستان کا ذکر نہ آنا کوئی خاص معنی نہیں رکھتا۔ اول تو پاکستانی وزارت خارجہ اگر صدر ٹرمپ کی تقریر کے حوالے سے کوئی بات کرتی ہے تو وہ ہوا میں تیر چلانے اور قیاس آرائی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ پاکستان کے پاس ایسے کوئی مصدقہ ذرائع نہیں ہیں جو اسے یہ بتا سکیں کی صدر ٹرمپ نے کیوں بھارت کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھا لیکن پاکستان کو نظر انداز کردیا ۔ حالانکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ سٹیٹ ہونے کا دعوے دار ہے اور اسے امریکہ کا قریب ترین حلیف ہونے کا ’اعزاز‘ بھی حاصل ہے۔ پاکستان کو یہ گمان بھی رہتا ہے کہ اس نے ستر ہزار لوگوں کی جانیں قربان کرکے اور ایک سو ارب ڈالر کے لگ بھگ معاشی نقصان برداشت کرکے دہشت گردی کے خلاف جد و جہد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر پاکستانی لیڈر یہ ضرور کہے گا کہ پاکستان دنیا کی واحد فوج ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہی ہے۔

سوال یہی ہے کہ اگر دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی اتنی قربانیاں ہیں اور وہ دہشت گردوں اور مہذب دنیا کے درمیان دیوار بنا ہؤا ہے تو امریکی صدر یا سعودی عرب کے بادشاہ نے ایک فقرے میں اسے تسلیم کرنے سے گریز کیوں کیا۔ اس کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ کانفرنس دہشت گردی کی بجائے مشرق وسطیٰ میں ایران کے خلاف محاذ آرائی منظم کرنے کے لئے منعقد ہوئی تھی۔ دوسری یہ کہ امریکہ اور اس کے قریب ترین حلیف ممالک بھی پاکستانی عوام کی قربانیوں اور فوج کی کامیابیوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس کے برعکس بھارت جس کا براہ راست دہشت گردی سے سامنا بھی نہیں ہے، ایک مظلوم ریاست کے طور پر امریکی صدر کے نوک زبان ہوتا ہے۔

یہ صورت حال پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مبہم ہونے کے علاوہ اس کی ناکامی کا پیغام بھی دیتی ہے۔ پاکستان دوست بنانے اور دوستوں کو اپنے خلوص کا اعتبار دلوانے میں ناکام ہؤا ہے۔ اس لئے نواز شریف کو رونق محفل بڑھانے کے لئے ریاض مدعو ضرور کیا گیا تھا لیکن انہیں کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ پاکستان کو اس ناکامی کا ادراک کرتے ہوئے ان عوامل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو عالمی سفارت کاری میں اس کے راستے کی رکاوٹ بن رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2741 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali