تیسری جنس: معتوبوں کی معتوب


akhtar baloch

اختر بلوچ کی کتاب ” تیسری جنس” اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد اور پڑھے جانے کا تقاضا کرتی ہے۔

 پسماندہ معاشروں نے ہی نہیں ترقی یافتہ معاشروں نے بھی ابھی ان لوگوں کو پوری طرح قبول کرنا شروع نہیں کیا جو جسمانی یا ذہنی طور ان عام لوگوں کی طرح نہیں ہوتے جنہیں ان معاشروں کے لیے کارآمد اور فائدہ مند تصور کیا جاتا ہے۔ اصل میں تو معاشرے کی ہر سطح پر فرد کے درجے، مقام اور اسے حاصل ہونے والی سہولتوں کا تعین اس بات پر کیا جاتا ہے کہ وہ کتنا کچھ چھین لینے کی جسمانی یا ذہنی طاقت رکھتا ہے۔

اختیارات کی تقسیم چلانے والے چھوٹی سے چھوٹی اکائی سے وسیع تر دائرے تک یہ انتظام رکھتے ہیں کہ انھیں ایسے افراد کے بارے معلومات شروع ہی سے اور درست حاصل ہوں تا کہ ایسے لوگوں کو رائج نظم و نسق میں خلل ڈالنے کا موقع نہ مل سکے اور اس سے پہلے کہ ایسے لوگ اپنی صلاحیت سے اپنی طاقت اس حد تک بڑھا لیں کہ ان سے مفاہمت خود ان کی شرائط پر کرنی پڑے، انھیں ختم کر دیا جائے یا انھیں پہلے سے موجود کسی گروہ کا حصہ بنا دیا جائے یا ان کی الگ حیثیت کو تسلیم کر لیا جائے۔

جب تک آخری مرحلہ نہیں آتا تمام ادارے پہلے موجود طریقۂ کار کی ہم نوائی کرتے ہیں۔ اس کی تمام مثالیں پاکستان کی تاریخ میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسی بنا پر معاشرتی طبقوں کو حقوق اور انصاف حاصل ہوتا ہے۔

گروہی اور انفرادی تعصب و غیر انسانی پن کے اس معاملے کے ایک اور پہلو کی نشاندہی پاکستانی تاریخ داں ڈاکٹر مبارک علی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی معاشرے میں جب کسی گروپ یا جماعت کے بارے میں لوگوں کی معلومات کم ہوں تو اس صورت میں لوگ قیاس کرتے ہوئے ان لوگوں کے بارے میں اپنی آرا بنا لیتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس میں اُس گروہ یا جماعت کا بھی حصہ ہوتا ہے جو کہ علیحدگی میں رہتے ہوئے اپنے بارے میں لوگوں کو کچھ بتاتے نہیں ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ بات خواجہ سراؤں (تیسری جنس) پر صادق آتی ہے‘۔

اختر بلوچ نے اپنی کتاب ’تیسری جنس‘ میں نہ صرف ماضی کی ایسی تاریخی مثالیں جمع کی ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں انسانوں کے جس گروہ کو خواجہ سرا اور اس نوع کے دوسرے کئی نام دیے جاتے ہیں اور جس کے لیے مغرب میں انٹر سیکس کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے بچے پیدا کرنے کے سوا کسی بھی طرح عام انسانوں سے کم تر نہیں ہوتے۔

ادبی جریدے آج کے مدیر اور دانشور اجمل کمال کے مطابق ’اندرونی اور بیرونی جنسی اعضا کی غیر مطابقت کے باعث صنفی اعتبار سے مرد اور عورت کے طے شدہ خانوں میں فٹ نہ بیٹھنے والے ان افراد کا تناسب زندہ پیدا ہونے والے ہر دو ہزار بچوں میں ایک کا ہوتا ہے‘۔

یہ بچے جنھیں نام نہاد نارمل لوگوں کے ہاتھوں ہر طرح کی تحقیر، تضحیک اور تذلیل برداشت کرنی پڑتی ہے کسی بھی نارمل جوڑے کے ہاں پیدا ہوسکتے ہیں۔

ذرا لمحے بھر کو تصور کیجیے کہ یہ بچہ آپ کی اولاد کے طور پر یا آپ کے بہن بھائی کے طور پر پیدا ہو اور اس کے ساتھ دوسرے لوگ وہی سلوک کر رہے ہوں جو عام طور پر ایسے لوگوں سے روا رکھا جاتا ہے تو آپ کے دل پر کیا نہیں گزرے گی۔ اور تب کیا آپ نہیں چاہیں گے کہ اس رویے اور سوچ کو تبدیل ہونا چاہیے۔

اختر بلوچ کی کتاب کا ایک حصہ ایسے انٹرویوز پر مشتمل ہے جو ایسے لوگوں کو پیش آنے والے المناکیوں کے وہ پہلو سامنے لاتے ہیں جو اس سے پہلے ہمارے سامنے نہیں آئے تھے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں انھوں نے ایسی اصطلاحات اور ان کے معنی کا بھی ایک باب دیا ہے جو اس زبان کا حصہ ہے جو اس گروہ کے لوگ سندھ میں بولتے ہیں۔

مجھے اس کتاب میں صرف یہ کمی محسوس ہوتی ہے کہ اختر بلوچ کو یہ کام پاکستان کے دوسرے حصوں کی سطح پر بھی کرنا چاہیے۔ وہ انسانی حقوق کے لیے کام کرتے ہیں اور اگر پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ان سے یہی ایک کام مکمل کرا لیں تو اس سے کم از کم اُس ایک خرابی کا ازالہ ضرور ہو جائے گا جس کی نشاندہی ڈاکٹر مبارک علی نے کی ہے۔

 اس کتاب کا نام: تیسری جنس: سندھ کے خواجہ سراؤں کی معاشرت کا ایک مطالعہ ہے۔ اور یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہر حساس اور ذمہ دار پاکستانی کو پڑھنا چاہیے۔

(انور سِن رائے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).