ایبٹ آباد حملے کی رات کیا ہوا؟ اسامہ بن لادن کی چوتھی بیوی کے انکشافات


اسامہ بن لادن کی چوتھی بیوی امل بن لادن نے پہلی دفعہ بتایا ہے کہ جس رات امریکی نیوی سیل کے فوجیوں نے ان کے ایبٹ آباد والے گھر میں گھس کر اسامہ بن لادن کو مارا تھا اس رات ان پر کیا گزری۔

امل بن لادن نے پہلی دفعہ یہ تفصیل بتائی ہے کہ کیسے انہوں نے اور ان کے بیٹے نے اسامہ بن لادن کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا

امل بن لادن اسامہ کی چوتھی اور سب سے جوان زوجہ تھیں۔ وہ اور ان کے چھ بچے ایبٹ آباد میں ’سیف ہاؤس‘ میں امریکہ کو سب سے زیادہ مطلوب شخص اور 9/11 حملوں کے ماسٹر مائنڈ دہشت گرد اسامہ بن لادن کے ساتھ رہتے تھے۔

امل بن لادن نے اپنی کہانی سکاٹ کلارک اور ایڈرائن لیوی کو ان کی نئی بک The Exile: The Flight of Osama Bin Ladan کے لئے دئے گئے انٹرویو میں بتائی ہے۔

امل بن لادن اور ان کے بچوں کے ساتھ اس کمپاؤنڈ میں اسامہ بن لادن کی دوسری اور تیسری بیویاں خیریہ بن لادن اور سہیم بن لادن اور اس کا 22 برس کا بیٹا خالد بھی رہتے تھے۔

اسامہ کی پہلی بیوی نجوہ جس کی اسامہ سے شادی ان دونوں کی نوجوانی میں ہوئی تھی اور ان دونوں کے گیارہ بچے ہیں اسامہ کو 9/11 حملوں کے دو دن پہلے چھوڑ گئی تھی۔

امل کے مطابق اس رات گھر کے باہر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گھپ اندھیرا تھا۔ پہلی اور دوسری مئی 2011 کی رات گیارہ بجے تک سارے گھر والے کھانا کھا کر، برتن وغیرہ نمٹا کر اور نماز پڑھ کر سو رہے تھے۔ اسامہ بن لادن بھی گہری نیند میں تھا اور وہ اس کے ساتھ ہی لیٹی ہوئی تھی۔

امل بن لادن کے مطابق اس نے باہر سے ہیلی کاپٹر کے پروں کی آواز سنی اور باہر کھڑکی سے جھانکنے سے اسے ناچتے سائے نظر آئے۔

اسامہ بن لادن اٹھ کر بیٹھ گیا۔ وہ خوفزدہ دکھائی دے رہا تھا۔

’امریکی آرہے ہیں‘ اس نے ہانپتے ہوئے کہا۔ پھر اس کے بعد امل نے ایک زور دار دھماکے کی آواز سنی جس سے سارا گھر دہل گیا۔

دونوں نے ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھام لیا اور بالکونی تک رینگتے ہوئے آئے۔

امل نے بتایا کہ ’’وہ چاند کے بغیر رات تھی اور کچھ بھی دیکھنا مشکل تھا‘‘۔

نیچے باغیچے میں اندھیرے میں ان کی نظروں سے اوجھل دو امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر جن میں 24 نیوی سیل سوار تھے چھپتے ہوئے کمپاؤنڈ کی جانب آ رہے تھے۔

اسامہ بن لادن نے اپنے بائیس سالہ بیٹے خالد کو بلایا جس نے رات کو سونے والے کپڑے پہن رکھے تھے۔ خالد نے AK-47 پکڑی۔ امل کو اس بات کا علم تھا کہ 13 سال کی عمر کے بعد سے اس نے کبھی ہتھیاروں کو ہاتھ نہیں لگایا۔

امل اور سہیم نے بچوں کو سنبھالا جو شور سن کر رو رہے تھے۔ وہ سب اوپری منزل کو چلے گئے اور زمین پر سمٹ کر لیٹ گئے۔

انہوں نے ایک زور دار دھماکہ سنا۔ نیوی سیل فوجیوں نے گھر کا دروازہ توڑ دیا تھا۔

’وہ میرے پیچھے آئے ہیں، تمہارے لئے نہیں‘ اسامہ بن لادن نے اپنے خاندان کو کہا اور سب کو نیچے جانے کو کہا۔ مگر اس کی سب سے بڑی بیٹیاں مریم اور سمیہ بالکونی میں ہی رہیں جب کہ سہیم اور بیٹا خالد نیچے کی منزل میں چلے گئے۔

اوپر امل، اسامہ اور ان کا بیٹا حسین کمرے میں دعائیں کرتے رہے۔ امل کا کہنا ہے کہ اسے خیال آیا کہ ان کے قریبی لوگوں میں سے کسی نے انہیں دھوکا دیا ہے۔

نیوی سیل فوجی گھر کے اندر آگئے اوپر کی منزل میں آنے سے پہلے بند دروازے دھماکوں سے اڑاتے رہے۔

امریکی فورس میں سے ایک عربی جانتا تھا اور خالد کو پہچانتا تھا۔ اس نے خالد کو پکارا۔ جب خالد نے بالکونی سے دیکھا تو اسے فوراً گولی مار دی گئی۔

سمیہ اور مریم نیوی سیل فوجیوں کی جانب دوڑیں مگر انہیں اس عربی بولنے والے سیل نے زبردستی پکڑ کر دیوار سے لگا دیا۔

نیوی سیل رابرٹ او نیل ان کے پاس سے گزرا اور اسامہ کے کمرے میں داخل ہوا۔ امل اپنے خاوند کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ وہ رابرٹ او نیل کی جانب بڑھی مگر اسے کمرے میں داخل ہونے والے دوسرے سیل فوجی نے گولی مار دی۔

امل نے اپنی ٹانگ میں شدید درد محسوس کیا اور وہ بستر پر گر کر بے ہوش ہوگئی۔

رابرٹ او نیل نے بعد میں بتایا کہ جب اس نے اسامہ بن لادن کو گولیاں ماریں تو اس نے اپنے ذہن میں سوچا کہ ’یہ مر رہا ہے‘۔

کمرے میں مزید سیل فوجی گھس آئے اور انہوں نے اسامہ بن لادن پر فائرنگ کی۔

اس دوران امل نے بتایا کہ اسے ہوش آگیا تھا مگر اس نے اپنے آپ کو مردہ ظاہر کیا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر دیں اور آہستہ سانس لینے لگی۔

امل کے مطابق حسین، جس نے اپنے باپ کو مرتے دیکھا تھا، اسے نیوی سیل نے پکڑ لیا اور اس کی آنکھوں میں پانی پھینکا۔

دائیں سے بائیں: اسامہ کے بچے ابراہیم، زینب، حسین اور پوتے حمزہ، عبداللہ اور فاطمہ۔ سب سے چھوٹا حسین اس وقت کمرے میں موجود تھا جب اسامہ کو گولی ماری گئی

وہ ایسے ہی بے حس و حرکت پڑی رہی، اس دوران مریم اور سمیہ کو امریکی نیوی سیل کے فوجی پکڑ کر لائے اور انہیں اپنے باپ کی لاش کے سامنے لا کر پوچھا کہ بتاؤ یہ کون ہے۔

شروع میں تو مریم نے غلط نام بتایا مگر پھر سمیہ نے کہا کہ ’انہیں سچ بتا دو، یہ پاکستانی نہیں ہیں‘۔

اس پر مریم نے کہا، ’یہ میرا باپ اسامہ بن لادن ہے۔‘

صفیہ جو اس وقت صرف 11 برس کی تھی بالکونی میں چھپی ہوئی تھی، اسے بھی نیوی سیل پکڑ کر لائے اور اس سے پوچھا کہ بتاؤ یہ کون ہے۔ صفیہ رو رہی تھی مگر اس نے بتایا کہ یہ اس کا باپ اسامہ بن لادن ہے۔

خیریہ جو ہال میں تھی اسے بھی ایک نیوی سیل پکڑ کر لایا اور اس سے چلاتے ہوئے پوچھا، ’میرے ساتھ بکواس نہ کرو، کون ہے یہ؟‘

اس نے مری ہوئی آواز میں کہا ’اسامہ‘۔

عربی بولنے والے سیل نے کہا ’ارے ہمیں دوہری تصدیق مل گئی ہے۔ بچوں نے بھی تصدیق کر دی ہے اور بوڑھی عورت نے بھی‘۔

اس کے بعد سپیشل فورسز اسامہ بن لادن کی لاش کو گھسیٹتے ہوئے نیچے لے گئے۔ امل کے مطابق اسامہ کا سر ادھر ادھر لگ رہا تھا۔

خالد مر چکا تھا اور اس کی ماں نے اسے چومنے کہ کوشش کی مگر اسے ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔

سیل نے دہشت گرد اسامہ بن لادن کی لاش کو ہیلی کاپٹر میں ڈال دیا۔

کمرے میں امل سہارے سے کانپتے ہوئے حسین کے پاس گئی اور اس نے باہر امریکی فوجیوں کو خراب ہوجانے والا بلیک ہاک ہیلی کاپٹر تباہ کرتے سنا۔

کچھ دیر بعد اس نے ہمساؤں کو چلاتے سنا کہ ’کوئی زندہ بچا ہے؟‘

ترجمہ: عمید ملک

اسامہ کا بیٹا حمزہ، جس کی عمر اب 28 سال ہو گی، نے امریکہ سے اپنے باپ کا بدلہ لینے کا عہد کیا ہے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).