ذرہ بے مایہ


ذرے کی گوہر ہونے کی کہانی بہت دلکش و مسحور کن ہے۔ کہتے ہیں جو ذرہ سیپ میں داخل ہو جائے گوہر بن جاتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ اپنی جگہ نہ چھوڑے۔ ایک درویش کی طرح ایک ہی جگہ بیٹھ کے سیپ کے کھلنے کا انتظار کرے اپنی ہستی مٹا دے۔ کیا معلوم سیپ کب کھلے اور ذرے کو اپنے اندر سمو لے۔ یہ انتظار، خود کو دان دینے کی ہمت اور ایک ہی خیال میں گم رہ کے زندگی کے ہر رنگ کو تج کا حوصلہ اس محبت کا نتیجہ ہے جو ذرے کو سیپ سے ہوتی ہے۔ اسے محبت گوہر ہونے سے نہیں بلکہ اس سیپ سے ہے جس کا وہ حصہ ہونا چاہتا ہے۔ یہ طویل اور صبر آزما انتظار ہے جس میں بے چینی و بے زاری نہیں بلکہ سر خوشی و سرشاری ہے خود کو اپنی مرضی سے وقف کر دینے کاجذبہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس کیفیت میں سود و زیاں، زمان و مکاں سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسا جادوئی حصار گھیرے رکھتا ہے کہ جس سے باہر کچھ نظر آتا ہے نہ ہی دیکھنے کی جستجو کی جاتی ہے۔ انتظار انتظار نہیں رہتا بلکہ خود فراموشی کی وہ کیفیت ہوتا ہے کہ جس میں خوشی کے چھینٹے اڑتے ہیں۔ پھر وہ لمحہ آن پہنچتا ہے جب سیپ وا ہوتا ہے محبوب سے وصال کا لمحہ جہاں ہر سو روشنی کی بارش ہے اتنی روشنی جو آنکھیں تو چندھیا دیتی ہے لیکن من میں بارش کی طرح پڑتی ہے کہ پور پور بھیگ جائے۔ ذرہ اپنی ذات کی نفی میں اثبات پا لیتا ہے وہ جو بے معنی تھا اتنا قیمتی اور حسین ہو جاتا ہے کہ جو بھی دیکھے ستائش کیے بنا نہ رہ سکے۔ جسے ہر پل داد و تحسین ہمیشہ کے لیے حاصل ہو جاتی ہے۔ اور اپنے محبوب کے رنگ میں رنگ جانے کا احساس اتنا دلفیریب ہوتا ہے کہ من شانت ہو جاتا ہے۔ جیسے بدھا کو نروان مل جائے زندگی کا ہر راز آشکار ہو جائے۔ من شانت ہو جائے۔

لیکن اس ذرے کا کیا جو جس سیپ کے پاس صدیوں سے محبت کی لو جلائے بیٹھا ہو اسے یہ تک پتہ نہ چلے کہ وہ سیپ کھوکھلا ہے اس میں رنگ و نور کی برسات نہیں تاریکی کا راج ہے۔ وہ اتنا خالی ہے کہ کھلنے سے ڈرتا ہے۔ خاموش ہے کہ اسے بھی چاہنے والے چاہیے۔ دھوکا دیتا ہے کہ انا کی تسکین رہے۔ لیکن ذرہ جب یہ جان جائے کہ سب کا سب انتظار رائیگاں گیا اس کا انتخاب غلط تھا اس کی نظر میں کجی تھی لیکن تب جب بہت دیر ہو چکی ہو اتنی دیر کہ ذرے کی اپنی ذات سے اتنی دلچسپی بھی نہ ہو کہ وہ زندگی کی کھوج میں پھر سے نکلے۔ دنیا کی رنگینوں سے دل بہلائے۔ دل پہ ایسا قفل لگ جائے کہ کوئی محبت کوئی آس اسے کھول نہ پائے۔ وہ لاتعلقی کی چادر اوڑھ لے کہ سامنے کی باتیں اہم لگیں نہ کسی جذبے کا احساس ہو۔ بات سچ ہے ذرے کا قصور ہے کہ اس کی پہچان غلط تھی۔ اس کے من کی ٹوٹ پھوٹ اس کا اپنا فیصلہ تھی۔

لیکن کون سمجھے اور سمجھائے کہ بے دلی یوں ہی نہیں پیدا ہوتی۔ ”کسے پرواہ ہے” کا رویہ خوامخواہ وجود میں نہیں آتا۔ ”اپنے کام سے کام رکھو” کہنے کا حوصلہ یوں ہی نہیں پنپتا۔ ہو سکتا ہے وہ ذرہ جو آپ کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہو کسی آزمائش سے گزر کے اتنا طاقت ور ہوا ہو کہ اسے اپنی بے مائیگی کا احساس رہا ہو نہ ہی کسی قسم کا احساس زیاں۔ یہ جو کج بحث، منہ پھٹ، آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے بے مایہ لوگ ہوتے ہیں یوں ہی ایسے نہیں بنتے۔ آپ کہتے ہیں وہ کج بحث ہیں، بنا سوچے سمجھے بولتے ہیں، میں کہتی ہوں وہ اپنے تراشے گئے بت کے پاش پاش لاشے کو اٹھائے پھرتے ہیں۔ وہ تلخی جو ان کے لب و لہجے کا خاصا ہے، اپنی عقیدت کا بت ٹوٹے کی وجہ سے ہے۔

انسان کی فطرت ہے کہ وہ فوری طور پہ غلطی قبول کرتا ہے نہ ہی تجزیہ کر کے حل ڈھونڈتا ہے۔ اسے غلطی کو اپنانے میں وقت لگتا ہے۔ فوری طور پہ صرف دکھی ہوتا ہے۔ یہ نہیں جان پاتا کہ اس نے جسے رہبر مانا وہی کھوٹا نکلا پھر وہ انسان ہو یا نظریہ معنی نہیں رکھتا۔ معنی رکھتا ہے تو ردعمل جو اس عمل کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔ وہ ردعمل جو سکھاتا ہے، ہر بات کو بغیر دلیل کے رد کرنا، سیدھی بات کو الجھانا، وہ جو اہم ہے اسے نظر انداز کرنا اور لا یعنی بات کو اہمیت دینا، بے مقصد ہجوم کا حصہ ہونا، بے حسی سے سب دیکھنا لیکن خاموش رہنا، چیخنا چلانا اس راستے کو اپنانا جسے ہجوم نے اپنایا ہو لیکن کبھی نہ سوچنا کہ منزل کیا ہے۔ ذرا ٹھہریے یہ بے مول ذرے جو بہاؤ کے تھپیڑوں میں اپنا وجود بھلائے ہوئے بے مایہ و بے مقصد ہیں وہ میں بھی ہوں اور آپ بھی ہیں۔ آنکھوں پہ خوابوں کی پٹی باندھے وقت کو ضائع کرتے احساس سود و زیاں کے بغیر جیتے سوچ سمجھ سے عاری سپاٹ چہرے ہم سب کے ہیں۔ بصیرت سے عاری آنکھوں سے اپنی مرضی کے کھوکھلے نظریہ کے سامنے ہاتھ باندھے بیٹھے خواب ٹوٹنے کی وجہ سے بےکل اور بے قابو ہوئے ہجوم کا حصہ ہر بات کو رد کرنے کا ٹھانے ہوئے زندگی کو خود کو گزارنے دے رہے ہیں۔ ہم ایسے ہی ہیں بکھرے الجھے بے مایہ لوگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).