ہدایت نامہ برائے روزہ داران


“رامادان” کی آمد آمد ہے۔ ہر طرف لوگ باگ اس کے استقبال کے لیے الٹی قلابازیاں لگانے کی مشقیں کرنے میں مشغول ہیں۔ تو ہم نے اپنے خدمت خلق کے قدیمی جذبے کے تحت اس “ماہ مبارک کے مہینے “میں احباب کے لیے چند سفارشات تیار کی ہیں۔ گر قبول افتد زہے عزو شرف۔

بیمار، مسافر پر روزہ فرض نہیں ہوتا تو کوشش کریں کہ کسی نہ کسی طرح بیمار ہوجائیں نہ ہوسکیں تو کسی بھی متقی و پرہیزگار ڈاکٹر سے بیماری کا سرٹیفیکٹ لے لیں۔ جس میں واضح لکھا ہو کہ حامل ہذا رقعہ روزے رکھنے کے لیے نااہل ہے تاہم سحر و افطار کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ اگر آپ کا دل یہ سب کرنے کو نہ چاہے تو جگر جیسے کسی بھی “علامے” سے فتوی خرید۔۔ میرا مطلب ۔۔ لے لیں کہ جو سفر آپ گھر سے دفتر یا دکان یا درسگاہ تک کرتے ہیں وہ شرعی طور پر آپ کو مسافر ڈیکلئیر کرتا ہے۔ ہیں جی!۔

نئی نویلی دعائیں، ورود و وظائف ڈھونڈنے کے لیے “لُور لُور” پھریں۔ خاص طور پر وہ دعائیں ڈھونڈیں جن سے ماضی کے علاوہ مستقبل کے گناہ بھی معاف ہوسکیں۔ یہ دعائیں جب آپ کے قابو میں آجائیں تو پھر روزے رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بس مطلوبہ مقدار میں دعا پڑھ کے خوب ڈٹ کے تین چار بار کھانا کھائیں،علاوہ ازیں افطاریاں بھی پھڑکائیں۔ ہم خرما و ہم ثواب۔۔ ہیں جی!۔

اگر آپ کا ضمیر انتہائی ڈھیٹ اور واہیات قسم کا ہے اور ایسے حیلے سوچنے پر آپ کو نہایت فحش الفاظ سے نوازتا ہے تو فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔ اس کا بھی علاج موجود ہے ۔ فجر کی آخری اذان کی آواز آنے تک کھاتے اور پیتے رہیں۔ پھر جلدی سے وضو کرکے گھر میں ہی نماز پڑھ کے سوجائیں۔ روزے کی حالت میں سونا بھی ثواب عظیم ہوتا ہے۔ اور مسلمان کا تو مقصد ہی ثواب کمانا ہے۔ دھڑا دھڑ اور بے حساب ثواب۔ اگر آپ کا دفتر نو بجے شروع ہوتا ہے تو گیارہ بجے تک دفتر پہنچ جائیں۔ چہرے پر مظلومیت نما نحوست طاری رکھیں تاکہ دفتر والوں اور سائلین کو علم ہوتا رہے کہ آپ روزے سے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ کوئی آپ کو تنگ کرنے کی جرات نہیں کرے گا ۔ الاّ یہ کہ وہ خود روزے سے ہو۔

 بارہ بجنے میں دس منٹ ہوں تو ظہر کی نماز کے لیے اس مسجد میں چلے جائیں جہاں فل ٹھنڈ ماحول ہو اور اس کا جنریٹر تربیلا کے جنریٹرز کا مقابلہ کرتا ہو۔ مسجد کے مسلک پر زیادہ دھیان نہ دیں کہ حالت اضطرار میں سب جائز ہوتا ہے۔ ایسی مساجد زیادہ تر آمین بالجہر والوں کی ہوتی ہیں اس لیے اگر آپ آمین آہستہ بھی کہتے ہیں تو اپنے علاموں کے فتووں سے صرف نظر کرتے ہوئے بس برکتیں لوٹنے پر توجہ مرکوز رکھیں۔ ظہر کی نماز کے بعد ایک دو گھنٹے مسجد کے متبرک ماحول میں سوجائیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مسجد میں سونا بھی باعث ثواب ہے۔ تین بجے تک دفتر واپس آئیں اور آتے ہی جانے کی تیاری شروع کردیں۔ گھر واپس آتے ہوئے کسی فائیوسٹار مسجد میں نماز عصر ادا کریں۔ اگر گھر جا کے لوڈشیڈنگ سے پالا پڑنے کا امکان ہو تو افطاری تک وہیں رہیں اور عین افطاری کے وقت گھر پہنچیں۔

یہاں آپ کی توجہ ایک انتہائی اہم نکتے کی طرف مبذول کرانا ضروری ہے۔ سحری کے وقت کھانا اس وقت بند کریں جب میلاد شریف والی مسجد سے اذا ن کی آواز آئے اور افطاری ، آمین بالجہر والوں کی اذان مغرب سے کریں۔ اس سے آپ کا روزہ تقریبا پندرہ منٹ چھوٹا ہوجائے گا۔ ۔۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی ۔۔ وغیرہ۔۔۔ ۔

آمدم برسر مطلب۔ افطاری بھی بہت ثواب کاکام ہے۔ جتنی زیادہ کھائیں گے اتنا زیادہ ثواب۔ یہ عبادت دل لگا کر کریں۔ دوران افطاری مغرب کی نماز جماعت سے پڑھنے کا موقع نہیں ملے گا ۔ خیر ہے۔ پہلے کونسا آپ جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ افطاری سے فراغت کے بعد ظاہر ہے غنودگی طاری ہوگی کیونکہ آپ نے سارا دن روزہ رکھا اور اپنا کام بھی ایمانداری سے کیا ۔ اسلیے عشاء کی اذان تک نیند کی ایک جُھٹّی لگا لیں۔ بیدار ہوکے رات کا کھانا کھائیں۔ سارا دن بھوکا پیاسا رہ کے اور شدید محنت کرکے جو توانائی زائل ہوئی تھی ، وہ مسلسل اور متواتر کھانے سے ہی بحال ہوسکے گی۔ اس سے غفلت نہ برتیں۔ عشاء کی نماز اور تراویح کے لیے ایسی مسجد ڈھونڈیں جہاں تراویح کی تعداد آٹھ اور دورانیہ بیس منٹ ہو۔ ویسے بھی تراویح نفل عبادت ہے، پڑھ لیں تو ثواب اور نہ پڑھیں تو گناہ نہیں اور گناہ نہ کرنا بھی ثواب ہی ہوتا ہے۔۔ لہذا ثواب ہی ثواب۔۔۔

ہیں جی!۔

جعفر حسین
Latest posts by جعفر حسین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

جعفر حسین

جعفر حسین ایک معروف طنز نگار ہیں۔ وہ کالم نگاروں کی پیروڈی کرنے میں خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہت سنجیدہ انداز میں تاریخ گھڑتے ہیں

jafar-hussain has 113 posts and counting.See all posts by jafar-hussain