ملا کا مذہب اور مردانہ کمزوری


 \"mujahidجمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پنجاب اسمبلی میں عورتوں کی حفاظت کا قانون منظور ہونے پر یہ ’فتویٰ‘ صادر فرمایا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے رکن زن مرید ہیں۔ اس سے بہتر تھا کہ ارکان اسمبلی شوہر کو بیوی اور بیوی کو شوہر قرار دینے کی تجویز منظور کرلیتے۔ مردوں کی مردانگی اگر عورتوں پر ہاتھ اٹھانے اور کلام الٰہی کا سہارا لے کر اپنی برتری ثابت کرنے میں ہے ، پھر حق تو یہ ہے کہ یہ مردوں کی کمزوری اور کمتری کا سب سے بڑا اعلان ہے اور ہمارے عہد کا مولوی ببانگ دہل اس ’نامردمی‘ کا اعلان کررہا ہے۔ اب یہ اعتراف مولانا فضل الرحمان نے بھی کیا ہے۔ یوں تو پنجاب اسمبلی کے 175 ارکان نے بھی اس بل پر رائے نہ دے کر اس خوف کا اظہار کردیا ہے کہ وہ خود کو عورت کے مقابلے میں کمتر سمجھتے ہیں، بس اس کا اقرار نہیں کرتے۔ ان میں تو اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ علی الاعلان مسودہ قانون کی مخالفت ہی کرلیتے۔

اسلام کو استحصال اور ظلم کی بنیاد قرار دینے والے علمائے دین آگہی کی روشنی سے بدحواس ہورہے ہیں۔ کون سی الوہی دستاویز ان کج فہم لوگوں کو برتری اور بہتری کا سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے۔ زبان دراز اور فحش کلام ہونا اگر اسلام دوستی ہے تو بہت سے اسلام پسند گزشتہ تین روز میں اس کا اقرار اور اظہار کرچکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا بیان معاشرے میں حاوی سماجی برائی کو دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے دین کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ لیکن یہ وہ دین نہیں ہے جو سب کے لئے رحمت اور سہولت کا پیغام لے کر آیا تھا، یہ دین مولوی کی ایسی تفہیم و تشریح پر مشتمل ہے جو اسے سماجی مرتبہ عطا کرتی ہے اور اس مقصد کے لئے دین اور قرآن کے حوالہ جات کو من پسند وضاحت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ مولانا نے ایک ایسے طعنے کے ذریعے خود کو اسلام کا چیمپئین ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، جس کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے بہتر ہوتا کہ ایک اہم جماعت کے رہنما پھکڑ بازی پر اترنے کی بجائے ، عورتوں کے خلاف تعصب اور ظلم کو ختم کروانے کے لئے آواز بلند کرتے۔ تاہم اس قسم کا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے وہ اس بات پر مہر تصدیق ثبت کررہے ہیں کہ دین کو جان بوجھ کر استحصال اور سماجی برائیوں کی دلیل کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ اسلام نافذ کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے والے ایسا نعرہ بلند کررہے ہیں جسے رسول پاک ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں اپنے قول و عمل سے مسترد کیا تھا۔

ہمارے عہد کے بزعم خویش علمائے اسلام یہ کہہ کر اپنا اور دوسروں کا مسئلہ آسان کرسکتے ہیں کہ جس اسلام کا پرچم وہ بلند کرنے کا عزم رکھتے ہیں ، وہ دراصل صرف مردوں کے لئے نازل ہو¿ا تھا۔ اسی لئے اسے دوسری صنف یعنی عورت کے حقوق کم کرنے اور اسے دوسرے درجے کی شہری بنائے رکھنے کے لئے ہر روز نئی دلیل اور حجت سامنے لائی جاتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے چونکہ ایک مخصوص حلیے اور لباس پوشی کو ہی اسلام کا ماہر ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اس لئے اگر یہ سارے کج فہم ملا یہ واضح اعلان و اقرار کرتے ہوئے عورتوں کو اسلام کے ذریعے سب سے زیادہ حقوق دلوانے کی ’جد و جہد ‘ ترک کردیں تووہ غیر ضروری مباحث اور تنقید سے بچ جائیں گے۔ دنیا میں ہزار ہا قسم کے نظریات و خیالات کا پرچار کرنے والے لاکھوں لوگ اور تنظیمیں موجود ہیں۔ انہیں بھی ایسا ہی فاتر العقل سمجھ کر آگے بڑھا جا سکے گا۔

مسئلہ صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ اپنی تشریح ، تفہیم اور نظریہ کو عین اسلام اور جہالت اور کم فہمی بلکہ ہٹ دھرمی کو مسلمانوں کے لئے بنیادی رہنما اصول قرار دے کر معاشرے پر مسلط کرنے اور مسلمانوں کا بلا شرکت غیرے رہنما ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔ دین حق چونکہ سب لوگوں کے لئے آیا تھا اور زمانہ چونکہ بہت تیزی سے ترقی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے ، اس لئے اب ملاو¿ں کے صدیوں پرانے ہتھکنڈے ناکارہ ہوتے جارہے ہیں۔ اسی لئے یہ بزرگان جو خود کو پہلے اسلام پسند مگر بدلتے ہوئے زمانہ میں ماڈرن دکھائی دینے کے لئے اسلامسٹ کہلوانے پر اصرار کرنے لگے ہیں، خود بھی پریشان ہیں اور وقتاً فوقتاً دوسروں کو بھی ہراساں کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ تازہ ترین موقع پنجاب اسمبلی میں عورتوں کے تحفظ کے بل نے فراہم کردیا ہے۔ حالانکہ اس قانون میں اگرچہ عورتوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لئے بلند بانگ دعوے کئے گئے ہیں لیکن اس ملک کا ہر ذی شعور اور سیاست و معاشیات سے بنیادی شناسائی رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اس قانون میں جو خواب دکھائے گئے ہیں وہ بہر صورت خواب ہی ہیں جن کی تکمیل کا سامان کرنے کے لئے وسائل فراہم ہونا آسان اور ممکن نہیں ہے۔ چہ جائیکہ پنجاب کی عورتیں اس قانون کا گرز ہاتھ میں پکڑ کر ہر مرد کا سر پھوڑتی پھریں، گھر برباد ہوجائیں اور مرد بے چارے اپنے تحفظ کے لئے قانون سازی کروانے لگیں۔

اس بل کے مندرجات پر عمل کی ایک ہی صورت ہے کہ کھل جا سم سم قسم کا کوئی منتر یک بیک اس مزاج اور سماجی شعور کو تبدیل کردے جو ظلم اور جبر کو سماجی بڑائی اور برتری کی علامت سمجھتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ کی موجودہ ہئیت کذائی میں اس ملک کے ملا کا بھی اہم رول ہے۔ اسے محض قانون سازی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے طویل سماجی اور معاشرتی تحریک کی ضرورت ہوگی۔ ہمارے بدحواس ملا اسی دن سے خوفزدہ ہیں جب رویوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے سبب لوگ ان کی اہمیت اور ضرورت محسوس کرنا بند کردیں گے۔ کہا جا سکتا ہے کہ بے روزگاری کا خوف تو ہر کسی کو ہوتا ہے لیکن اپنی دکانداری چلانے کے لئے پورے معاشرے کو یرغمال بنانے کا موجودہ طریقہ اب ناکام ہورہا ہے۔ ملا اس تبدیلی کو محسوس کرنے اور اس کے مطابق خود کو ڈھالنے کی بجائے، الزام تراشی اور طعن و تشنیع کے ہتھیاروں سے جنگ جیتنا چاہتا ہے۔ وقت بتائے گا کہ وہ اس میں بھی ناکام ہوں گے۔ کیونکہ اسلام پر ملا کی اجارہ داری علم کی عام تفہیم نے محدود کردی ہے اور وقت کے ساتھ یہ بھی طے ہوجائے گا کہ کتاب اور اس کے مندرجات پر ’جملہ حقوق محفوظ ہیں‘ جیسے نعرے کے زریعے گمراہی ، معاشرتی تقسیم اور استحصال کی جن روایات کو جنم دیا گیا تھا، وہ سب تسلط کی خواہش کی پیداوار تھیں۔

آخری حربے کے طور پر اسلام کے علمبردار ہر اصلاح اور ہر تبدیلی کو قرآن سے فال نکال کر مسترد کرنے اور اسے اسلام کے خلاف سازش قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کسی حد تک یہ سارے عناصر قابل رحم ہیں لیکن ان کا طرز عمل چونکہ معاشرہ کو بدستور تباہی اور زوال کی طرف لے جانے کی قدرت اور قوت رکھتا ہے، اس لئے ان کی باتوں کو مسترد کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جیسا کہ بالائی سطور میں عرض کیا کہ اگر یہ عناصر ’مردوں کے اسلام‘ کا علم اٹھا کر اپنا عزائم کے لئے کام کا آغاز کردیں تو انہیں خود اپنی اہمیت کا بھی اندازہ ہو جائے گا اور دوسروں کے لئے بھی یہ فیصلہ کرنا آسان ہوجائے گا کہ وہ ملا کے اس صنفی اسلام کو مانتے ہیں جس کی بنیاد لالچ، تعصب اور امتیازی سلوک ہے یا اس اصول مساوات اور رحمت کو رہنما سمجھتے ہیں جو پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ وسلم لے کر آئے تھے اور جس کے تحت برتری کا فیصلہ نسل، جنس، مرتبے، دولت یا قبائلی حیثیت سے نہیں ہوگا بلکہ لوگ ذاتی خوبی اور اوصاف کی بنا پر پرکھے جائیں گے۔ تب کوئی دین کا دعوے دار یہ حق نہیں پائے گا کہ وہ دوسروں کے ایمان اور نیت پر حکم صادر کرتا پھرے بلکہ اللہ سبحان تعالیٰ خود یہ فیصلہ فرمائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments