دکان رمضان کا وقت ہوا چاہتا ہے


جب سے خالق کائنات نے اس دنیا کی بنیاد رکھی ہے تب سے ہر قوم اور مذہب سے تعلق رکھنے والے اپنے اپنے عقائد اور نظریات کی بنیاد پر کسی دن یا مہینے کو خاص مان کر اہتمام کیا کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کیلئے ماہ رمضان ایک خاص اہمیت رکھتا ہے مگر پاکستان میں موجود میڈیا مالکان کیلئے یہ چاندی کا مہینہ ہے جس کے لئے سارا سال انتظار کیا جاتا ہے۔ مختلف چینل رمضان کے مہینے میں مختلف ناموں سے اپنی خصوصی نشریات کا اعلان کرتے ہیں مگر بہرحال اصل نام ‘دکان رمضان’ لینے میں سب گھبراتے ہیں۔ اس مہینے کو ویسے تو پوری قوم ہی درزی سے لے کر پھل فروش تک سب نے ہی کمائی کا ذریعہ بنایا ہوتا ہے۔ 10 روپے کی چیز کو جب 100 روپے میں بیچا جائے تو ایسے مہینے کو بابرکت ہی کہا جائے گا۔ ہم نے اکثر پڑھا اور دیکھا ہے کہ مذہبی تہوار کے احترام میں دنیا بھر میں روز مرہ استعمال کی اشیاء (بالخصوص خوراک) کو سستا کیا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں جو کھجور 100 کی ہو اسے ہزار کا کر دیا جاتا ہے، جو بیسن 10 کا ہو اسے 110 کا کر دیا جاتا ہے اور پھر رہی سہی کسر درزی نکالتے ہیں۔ اول تو وہ رمضان میں سلائی ایسے لیتے ہیں جیسے سرکاری اسپتال والے وینٹیلیٹر کے محتاج غریب مریض کو۔ انتہائی نخرے دکھا کر اگر وہ کپڑے لے بھی لے تو چاند رات سے پہلے واپس کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔

اب آجاتے ہیں اپنے اصل موضوع دکان رمضان پہ۔ رمضان کوئی ثقافتی یا قومی تہوار نہیں بلکہ خالصتا مذہبی عبادت کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں مختلف چینل ڈھونڈ ڈھونڈ کر متنازع شخصیات کو اپنی رمضان نشریات کا ذمہ سونپ دیتی ہیں۔ کہیں تو فلمی اداکارائیں گلسرین کا وافر استعمال کر رہی ہوتی ہیں اور کہیں بیچارے وہ بیروزگار فنکار بوتیک کے مہنگے کرتے زیب تن کئے سادگی کے مشورے دیتے ہیں جنہیں خود کوئی کام نہیں مل رہا ہوتا۔ ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اوچھی حرکتیں کی جائیں تاکہ ریٹنگ اوپر جا سکے۔ کسی وقت میں انعام دینے کیلئے ذہانت کو آزمایا جاتا تھا مگر اب آپ کتنے احمق ہیں یہ جانچا جاتا ہے۔ کسی شو میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر مگرمچھ اور سانپ ہاتھ میں پکڑائے گئے تو کہیں مہمان کو بلا کر ان سے تضحیک آمیز سلوک کیا گیا اور کہیں بچے بانٹنے کا کام بھی ٹی وی اسکرین پہ ادا کیا گیا تاکہ ساری زندگی ان معصوم بچوں کی عزت نفس کا کباڑا ہوسکے۔

ٹیلیویژن نشریات کا مقصد کسی زمانے میں معاشرے کی ذہنی تربیت اور آگہی ہوا کرتے تھے مگر ریٹنگ کی دوڑ میں سب پیچھے رہ گیا۔ اب چاہے ریٹنگ کیلئے اوچھے پن کی تمام حدود کو عبور کر کے خواتین کے ساتھ ذو معنی جملہ بازی کی جائے یا گلیسرین کی وافر مقدار کا استعمال کر کرکے کسی اجڑے گھرانے سے انکے زخم بار بار کھرچنے کو کہا جائے، اخلاقیات اب کسی کھاتے کا حصہ نہیں۔ بس ریٹنگ معنی رکھتی ہے۔ مذہبی معاملات پر کسی کی اجارہ داری ایک غلط بات ہے لیکن کسی انتہائی متنازع شخصیت کو سجا بنا کر صرف اسکرپٹ پڑھنے کو دے دیا جائے تو بد سے بدتر غیر مناسب تنازعے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان رمضان نشریات کا مقصد بھی شاید یہی ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ وائرل ہونے کیلئے زیادہ سے زیادہ اوٹ پٹانگ حرکتیں کی جائیں۔

مذہبی چھوڑئیے، کسی بھی پروگرام میں سماجی تربیت بھی نہیں کی جائے گی۔ جہاز بانٹنے والے اینکر کبھی ہمت نہیں کر سکیں گے کہ اس خطرناک رجحان پر بات چیت کریں جس میں گستاخ کی آواز لگنے پر کسی معصوم کی جان لے لی جاتی ہے۔ بڑے ٹھیکیداروں کی بڑی بڑی مساجد سے نشریات کرنے والے کبھی بھی قبضے، وعدہ خلافی یا تحفے کے نام پر رشوت کا ذکر نہیں کریں گے۔ وینا ملک کو اپنی بیٹی بتانا آسان ہے مگر مشال کی بہنوں کو کوئی اپنی بیٹی بنا کر انکے محفوظ مستقبل کیلئے سہارا نہیں بنے گا۔ کوئی اس بات کی تعلیم نہیں دے گا کہ صفائی نصف ایمان ہے اس لئے اپنے گھر کے باہر کچرا پھینکنے کا رواج ختم کریں۔ اشتعال دلانے اور دوسروں کو کافر اور غدار کی اسناد بانٹنے والے نہیں بتائیں گے کہ جن کے نام پہ ہم ظلم کرتے ہیں، زیادتی کرتے ہیں، خون ناحق کرتے ہیں؛ اللہ نے انہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا رحمت “اللعالمین” صلی اللہ علیہ وسلم۔ اشتعال کے بجائے صبر، اختلاف رائے کو برداشت کرنا، غیر مسلم کے حقوق، طبقاتی فرق کی نفی اور فرقہ واریت کا خاتمہ وہ موضوع ہیں جنہیں کوئی نہیں چھیڑے گا۔

اس ماہ رمضان بھلے آپ ٹی وی پہ نہ آئیں، کسی تقریب کے مہمان خصوصی نہ بنیں یا فیس بک پہ بڑی بڑی تصویریں ‘فیلنگ بلیسڈ’ کی عبارت کے ساتھ نہ لگائیں مگر اپنی مذہبی اور سماجی ذمہ داری قبول کریں۔ مذہب کی اصل روح انسانیت کی تبلیغ کریں۔ ہمدردی اور برابری کا سبق عام کریں۔ سب سے بڑا ہدیہ عقیدت یہ ہو گا کہ ہم اپنے اعمال، کلام اور ارادوں سے رحمت اللعالمین (ص) کے امتی ہونے کی گواہی دیں اور کسی کی ضرورت کو اشتہار لگائے بغیر ایسے پورا کریں جیسے کہ رسول اللہ (ص) نے بتایا ہے کہ ایک ہاتھ دے اور دوسرے کو خبر نہ ہو۔ کسی کی عزت نفس کا تحفظ بھی ہماری دینی اور سماجی ذمہ داری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).