مفتی کا فتویٰ اور انصاری کا فرمان….


\"jamilکل دو عدد صالحین کا بلبلانا سننے کا موقع ملا۔ اور کیا ہی بلبلاہٹ تھی۔ اندازہ ہے کہ اس نے اوزون کی چھدری ہوتی تہہ میں مزید چھید کرڈالے ہوں گے۔ ساتھ ساتھ مطلع کے مزید گرد آلود ہونے کے امکانات میں اور اضافہ ہوگیا ہو گا۔ اور آپ جانتے ہوں گے کہ ان بیانات کا مقصد بھی یہی تھا کہ ہمارے معاشرے کی عامی سوچ کو مزید دھندلا بنایا جائے۔ لوگوں کے خیالات میں مزید فتنہ ڈالا جائے، مزید فساد انڈیلا جائے، ان پر سوچنے کی راہ مسدود کردی جائے اور انہیں قانون کو نہ ماننے کی ترغیب دی جائے۔ صالحین کو صد آفرین۔ انہوں نے اپنے فرض کی ادائی میں کوئی کوتاہی آنے نہ دی۔ آخر کو وہ اپنی علمیت کا ثبوت اور کس طرح پیش کریں؟ مفتی صاحب ارشاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عورت پر ہونے والے ظلم کا نوٹس لینے کا قانون کالا قانون ہے اور یہ شریعت سے متصادم ہے۔ حضور شریعت میں مرد کے اجازت یافتہ ہونے کا کوئی دلیل جس سے ثابت ہو کہ شریعت مرد کو عورت پر ظلم کی اجازت دیتی ہے اور مانا جائے کہ واقعی یہ شرع سے متصادم ہے؟

آگے خود ارشاد کرتے ہیں اللہ پاک اور شارع علیہ السلام نے عورت کے ساتھ حسن سلوک لازم قرار دیا اور اسے قابل تعریف کہا۔ حضرت پھر عورتوں کے بارے آپ کے اس فرمان کو حسن سلوک میں شمار کیا جائے گا؟ اور کچھ بتانا پسند کریں گے قرآن و حدیث کی روشنی میں آپ کے اس بیان پر کیا فتویٰ لگایا جا سکتا ہے؟ عجب باتیں کہی ہیں۔ایک اور سن لیں کہ یہ مغربی قانون ہے جہاں سب اختیار عورت کے ہاتھ ہوتا ہے۔محترمی وہاں اختیار قانون کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔عورت کے نہیں۔ چلئے مان لیا بقول آپ اختیار عورت کے ہاتھ ہے تو یہاں آپ وہی اختیار مرد کے ہاتھ کیوں تھمانے پر تلے ہیں جس کی خود مذمت فرما رہے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ عورت پر تشدد کے خلاف قانون سے عورتوں کی بدکاری کا راستہ کس طرح کھل جاتا ہے؟ جناب والا اس بات سے جو مطلب بر آمد ہوا اس نے تو مجھے افسوس زدہ کردیا۔ یعنی عورتوں کی نیک نیتی اتنی مشکوک اور ان کی پاک دامنی اتنی کمزور ٹھہری؟ حضرت فرماتے ہیں کہ پاکستان میں عورت پر تشدد کے واقعات ایک فیصد \"Chirperson_HECold\"ہے۔ قبلہ اسے ہم آپ کی خوش فہمی سمجھ کر مان بھی لیں تو کیا پاکستان کے ایک فیصد انسانوں پر ظلم روا رکھنے کی اجازت دی جائے؟ کیا ایک فیصد پر ظلم کی بیخ کنی کرنا شرع کے لحاظ سے آپ غلط مانتے ہیں؟ اور حضرت مفتی کی زبان اور شرمیں عبید پر گھناونا الزام ۔یہ علمی بنیاد ٹھہری؟ ایسے کلمات پر مجھ جیسا انسان گنگ ہے۔ کچھ کہنے کی راہ نہیں پاتا بجز اس کے کہ آپ کو مدارس کے تعلیمی نظام کے سرخیلوں میں گنا جاتا ہے۔

دوسرے صالح ہیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئر مین جناب مختار احمد انصاری۔ کل پیپلز میڈیکل یونیورسٹی برائے خواتین کے کانووکیشن میں ڈگری پارک میں سیلفیاں نکالتے ڈاکٹرز پر بھڑک اٹھے کہ مریض مر رہا ہوگا اور یہ سیلفیاں لے رہی ہوں گی۔ والدین کو چاہئے کہ شادی سے پہلے لڑکیوں کو موبائل فون رکھنے نہ دیں۔ ان سے ہم کوئی سوال کرنے کے بجائے آپ کو یاد دہانی کروانا چاہتے ہیں کہ مختار احمد انصاری کے کندھوں پر پاکستان کے تعلیمی نظام کا بوجھ رکھا گیا ہے۔ گر ہمیں مکتب است و ایں ملا، کار طفلاں تمام خواہد شد ….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments