وجاہت عطرے کی یاد میں


یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ فلمیں ہمارے ہاں جیسی بھی بنتی رہی ہوں، ان فلموں کی موسیقی نہ صرف اعلیٰ معیار کی حامل رہی ہے بلکہ اسے قبول عام کا درجہ بھی حاصل رہا ہے۔ لیکن یہ بات 80 کی دہائی تک کی فلموں کے لیے ہی درست ہے۔ بعد میں فلموں کے معیار کی طرح ان کی موسیقی کا معیار بھی گرتا چلا گیا۔ 70 کی دہائی میں پنجابی فلموں کی مقبولیت کا دور شروع ہوا، 80 کی دہائی میں اس نے عروج حاصل کیا، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اردو فلمیں منظر سے غائب ہی ہوگئیں۔ یہ مقبول عام پنجابی سینما اپنے معیار کے اعتبار سے نہایت پست تھا، نہ اچھی ہدایت کاری، نہ اداکاری، نہ عمدہ کہانی نہ مکالمے۔ ماردھاڑ اور بے ہنگم رقص۔ پھر کیا چیز تھی کہ یہ سینما نہ صرف بزنس کرتا رہا بلکہ آج بھی اس کا ذکر کیا جاتا تھا۔ اس سینما کی واحد قابل ذکر خوبی اس کی موسیقی تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی پنجابی فلموں کے موسیقاروں نے موسیقی سننے والوں کو ایک نئے ذائقے سے روشناس کرایا اورفلمی نغموں کا ایک نیا اور دلکش اسلوب وضع کیا جس کی بدولت ایسے خوبصورت گیت تخیلق کیے گئے جو آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ اس نئی وضع کے پنجابی فلمی سنگیت کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں نورجہاں کا حصّہ سب سے بڑا تھا۔ نورجہاں ایسی گلوکارہ تھیں جنھوں نے ان دھنوں میں اپنی آواز اور حسن ادئی کے سبب روح پھونک دی۔ خود موسیقاروں کا کہنا تھا کہ نورجہاں جب ان کی دھن گاتی ہیں تو گیت میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ وہ موسیقار کی دھن کو ہمیشہ خوبصورت اضافوں کے ساتھ لوٹاتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کا ہر موسیقار چاہتا تھا کہ ان کی دھن کو نورجہاں کی آواز ملے۔ خصوصاً پنجابی فلمی گیتوں کے لیے تو موسیقار نورجہاں کے علاوہ کسی دوسری آواز کے بارے میں سوچتے بھی نہیں تھے۔ نورجہاں صرف بہترین گلوکارہ ہی نہیں تھیں بلکہ مقبول ترین گلوکارہ بھی تھیں۔ اسی سبب سے پنجابی فلموں کی مقبولیت کے زمانے میں تقریباً ہر فلم میں ان کے گیت شامل ہوتےتھے۔

پنجابی فلمی سنگیت کو اپنی خوبصورت دھنوں سے ثروت مند بنانے والے موسیقاروں میں ایک اہم اور بڑا نام وجاہت عطرے کا بھی ہے جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ وجاہت عطرے عظیم موسیقار رشید عطرے کے بیٹے تھے۔ رشید عطرے کا نام پاکستانی فلمی موسیقی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وجاہت عطرے نے اپنے والد کے فنّی ورثے کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ نہایت ثابت قدمی سے اسے آگے بڑھایا، صرف یہی نہیں انھوں نے اس میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے نئے رنگ بھرے اور فلمی سنگیت میں قابل قدر اضافے کیے۔ وجاہت عطرے کا کام اپنے والد کے کام سے ان معنوں میں بالکل مختلف نوعیت کا ہے کہ رشید عطرے بنیادی طور پر اردو فلموں کے موسیقار تھے اگرچہ انھوں نے بعض پنجابی فلموں میں بھی سنگیت دیا، لیکن ان کی پہچان وعدہ، سات لاکھ، نیند، انارکلی، شہید، موسیقار، قیدی، فرنگی اور پائل کی جھنکار جیسی اردو فلمیں ہیں جو اپنے نغمات کے سبب آج بھی یاد کی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس وجاہت عطرے نے اپنی پہچان پنجابی فلموں سے حاصل کی، اگرچہ انھوں نے بعض اردو فلموں کے لیے بھی دھنیں بنائیں۔ انھوں نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد ہی سے حاصل کی تھی اور لڑکپن ہی سے فلمی موسیقی سے وابستہ ہوگئے تھے۔ انھوں نے دس برس تک اپنے والد کے ساتھ بطور معاون موسیقار کام کیا۔ مشہور زمانہ فلم ’’زرقا‘‘ کی موسیقی رشید عطرے نے ترتیب دی تھی، اسی فلم کے ایک گیت ’’میں پھول بیچنے آئی‘‘ سے وجاہت عطرے کے فلمی سفر کا آغاز ہوا، اس گیت کو نسیم بیگم نے گایا تھا اور اس کی موسیقی وجاہت عطرے نے ترتیب دی تھی۔اس کے علاوہ بھی رشید عطرے کی کتنی ہی خوبصورت اور مقبول دھنوں میں وجاہت عطرے نے اپنا حصّہ ڈالا۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ نورجہاں کی گائی ہوئی، فیض کی مشہور زمانہ نظم ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ کی استھائی بھی انھوں نے اس وقت سجھائی تھی جب رشید عطرے اس نظم کی دھن بٹھانے کی کوشش کررہے تھے۔ رشید عطرے نے اس استھائی کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اسی کے ساتھ انترے ترتیب دے کر دھن کو مکمل کیا۔ رشید عطرے کا انتقال 1967 میں ہوا، اس وقت وجاہت عطرے کی عمر محض پندرہ سال تھی۔ رشید عطرے اپنے انتقال سے پہلے حسن طارق کی فلم ’’بہشت‘‘ کی موسیقی ترتیب دے رہے تھے۔ رشید عطرے کے انتقال کے بعد اس فلم کے گیتوں کی موسیقی کو وجاہت عطرے نے مکمل کیا۔

وجاہت عطرے کی بطور موسیقار پہلی فلم ’’ نکے ہندیاں دا پیار‘‘ (1969) تھی۔ پہلی ہی فلم میں انھوں نے اپنے فن کا لوہا منوا لیا۔ اس فلم کا شوخ و چنچل گیت ’’آندا تیرے لئی ریشمی رومال‘‘ کسے یاد نہ ہوگا، نورجہاں نے اپنے مخصوص اندز میں جس طرح اس دھن کو گایا تھا وہ آج بھی سننے والوں کی یادوں میں تازہ ہے۔ پھر تو نورجہاں اور وجاہت عطرے کی دھنوں کا ساتھ گویا لازم و ملزوم ہوگیا۔ انھوں نے ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت گیت نورجہاں کے لیے بنایا۔

یوں تو وجاہت عطرے کے فنی عروج اور مقبولیت کا زمانہ 80 کی دہائی ہے لیکن 70 کی دہائی میں بھی انھوں نے نہایت خوبصورت گیتوں کی دھنیں تخلیق کیں جنھوں نے مقبولیت بھی حاصل کی۔ فلم ’’عشق نہ پچھے ذات‘‘ (1969) کا گیت ’’وگدی ندی دا پانی‘‘ ایسے ہی گیتوں میں شمار ہوتا ہے۔ 1976 میں وجاہت عطرے نے فلم ’’نوکر ووہٹی دا‘‘ کے گیتوں کی دھنیں بنائیں۔ اس فلم کے متعدد گیتوں نے مقبولیت حاصل کی لیکن ایک گیت ’’زندگی تماشا بنی، دنیا دا ہاسا بنی‘‘ کو بے اندازہ شہرت ملی۔ یہ گیت گلوکارہ افشاں نے گایا تھا اور یہ افشاں کی پہچان بن گیا اور آج بھی روز اوّل کی طرح مقبول ہے۔1977 میں وجاہت عطرے نے فلم ’’اج دیاں کڑیاں‘‘ کی موسیقی تریتب دی۔ اس فلم کا ایک گیت ’’کلیاں نہ جانا ساڈے نال نال چلو جی‘‘ فلم کی کامیابی کی ضمانت بن گیا، اس کورس گیت کو ناہید اختر، مہناز اور دوسرے گلوکاروں نے گایا تھا۔ پاپ موسیقی کی طرز پر بنایا ہوا یہ گیت آج بھی سننے میں آتا ہے۔

1981 وجاہت عطرے کے لیے کامیابی اور مقبولیت کا سال ثابت ہوا، اس برس انھوں نے ایسا ریکارڈ قائم کیا جو شاید ہی کسی اور موسیقار کے حصّے میں آیا ہو۔ اس برس عید کے موقع پر تین مشہور پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں، ’’چن وریام‘‘، ’’شیرخان‘‘ اور ’’سالا صاحب‘‘۔ ان تینوں فلموں کی موسیقی وجاہت عطرے نے ترتیب دی تھی اور نغمات نورجہاں نے گائے تھے۔ تینوں ہی فلموں نے شاندار کامیابی حاصل کی اور اس کی وجہ فلم کی موسیقی تھی۔ تینوں فلموں میں تقریباً ۲۰ گیت تھے، اور یہ سب کے سب نہایت مقبول ہوئے۔ کون ہوگا جسے ’’چن وریام‘‘ کا گیت ’’وے سونے دیا کنگنا، سودا اکو جیہا‘‘ یاد نہ ہو، اور کیا کوئی ’’سالا صاحب‘‘ کے میٹھے مدھر اور رومانوی گیت ’’وے اک تیرا پیار مینوں ملیا‘‘ اور ’’ میں تے میرا دلبر جانی ‘‘ کو بھول سکتا ہے؟ اسی طرح فلم ’’شیر خان بھی یادگار گیتوں سے سجی ہوئی تھی جن میں ’’جھانجھریا پہنا دو‘‘ جیسا مقبول عام گیت اور ’’توں جے میرے ہمیشہ کول رہویں‘‘ جیسی دلکش دھن شامل تھی جسے عربی انداز کی موسیقی میں ترتیب دیا گیا تھا۔

1983  میں وجاہت عطرے نے ’’صاحب جی‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ یہ فلموں میں ڈسکو میوزک کی مقبولیت کا زمانہ تھا، وجاہت عطرے نے اس میں بھی اپنا مخصوص انداز برقرار رکھا اور ’’لڈی ہے جمالو پاؤ ‘‘ جیسا دھڑکتا ہوا گیت بنایا جس کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ اسی برس فلم ’’سونا چاندی‘‘ کے لیے انھوں نے نورجہاں سے ’’اف اللہ بےدرد نہ بن‘‘ جیسا گیت گوایا۔ گیت کی رومانوی فضا آج بھی سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔

1984میں وجاہت عطرے کی موسیقی سے سجی متعدد فلمیں سامنے آئیں جن میں ’’شعلے‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس فلم میں نورجہاں کے گائے ہوئے گیتوں نے بے اندازہ مقبولیت حاصل کی۔ ’’جے میں ہندی ڈھولنا، سونے دی توتیڑی‘‘ اور ’’جھانجھر دی پاواں جھنکار‘‘ وہ گیت ہیں جو آج تینتیس برس گزر جانے کے باوجود اسی طرح مقبول ہیں۔ اسی برس انھوں نے فلم ’’کلیار‘‘ میں ایک نہایت مشکل دھن بنائی ’’نہ توں سنگ میتھوں ڈھولنا‘‘، اور یہ ثابت کردیا کہ ان کی دھنیں صرف عوامی مقبولیت ہی کی حامل نہیں بلکہ فنی خوبیوں سے بھی مالا مال ہیں۔

یہاں ان کی ایک فلم ’’دھی رانی‘‘ (1985) کا ذکر بھی ضروری ہے جس میں انھوں نے نہایت خوبصورت اور مقبول دھنیں بنائیں مثلاً ’’ ست رنگیاں پوا دے چوڑیاں‘‘، ’’ جیہڑے شیشے نوں ٹھکراندے نیں‘‘ اور ’’تک وے بادامی نیناں والیا‘‘ وغیرہ

80 کی دہائی کے ختم ہوتے ہوتے وجاہت عطرے پاکستانی پنجابی فلموں کے سب سے بڑے موسیقار کی حیثیت سے خود کو منوا چکے تھے۔ 1988 میں انھوں نے موسیقی کے حوالے سے ایک اور یادگار فلم کے گیت تخیلق کیے۔ فلم ’’مکھڑا‘‘ کے ان گیتوں نے بے اندازہ مقبولیت حاصل کی ۔ ’’منڈیا دوپٹہ چھڈ میرا‘‘، ’’بندی دا لشکارا‘‘ اور ’’ویکھ وے دن چڑھیا کہ نئیں‘‘ وہ نغمے ہیں جو آج بھی تروتازہ ہیں۔

وجاہت عطرے نے اپنے فلمی گیتوں کے لیے ہمیشہ اعلی درجے کے نغمہ نگاروں کا انتخاب کیا۔ یہاں مجھے ان کا ایک اور دلکش گیت یاد آرہا ہے جسے احمد راہی نے لکھا تھا، ’’تیرے نال میں لائیاں اکھیاں‘‘ یہ گیت 1990 کی فلم ’’پتر جگے دا‘‘ کے لیے بنایا گیا تھا اور اس نے بھی بہت مقبولیت حاصل کی تھی۔

90 کی دہائی میں پنجابی فلموں کا معیار گرتے گرتے اس سطح پر آ گیا کہ اچھی دھنیں بھی اس مرتی ہوئی فلمی صنعت میں روح نہ پھونک سکیں۔ اردو فلموں کا پہلے ہی انتقال پر ملال ہوچکا تھا ۔ اچھی فلمیں تو پاکستان میں بنتی ہی نہیں تھی اب یہ ہوا کہ بری فلمیں بھی بننا بند ہوگئیں۔ یعنی فلم تقریباً ختم ہی ہوگئی۔ 2000 کی دہائی کے آغاز میں پاکستانی فلمی صنعت کے احیا اور تجدید کی کوششیں شروع ہوئیں اور 2007 میں اردو فلم ’’خدا کے لیے‘‘ اور پنجابی فلم ’’محبتاں سچیاں‘‘ کے ذریعے اس کا آغاز ہوا۔ یہ دونوں فلمیں نہایت اعلی معیار کی تھیں اور انھوں نے بہت کامیابی حاصل کی۔ ’’محبتاں سچیاں‘‘ کی خوبصورت موسیقی ایک بار پھر فلم بینوں کو سینما گھروں میں لے آئی۔ اور یہ سہرا بھی وجاہت عطرے کے سر رہا۔ وجاہت عطرے نے اس فلم کے لیے نہایت خوبصورت گیت تخلیق کیے جنھیں ہندوستانی گلوکاروں شریا گھوشال، سونو نگم اور سنیدی چوہان نے گایا۔ ’’میں جینا تیرے نال‘‘ اس فلم کا نہایت دلکش گیت تھا جس نے بہت مقبولیت حاصل کی۔

وجاہت عطرے نے اپنے فلمی سفر میں لگ بھگ 450 فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور ہزاروں گیتوں کی دھنیں بنائیں۔ انھوں نے 14 بار نگار ایوارڈ حاصل کیا اسکے علاوہ 5 گریجویٹ اور 3 نیشنل ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ وجاہت عطرے کے انتقال سے ہم نے تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ایک ایسے موسیقار کو کھو دیا جسےدلکش اور مقبول عام دھنوں کے خالق کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).