الگ روزہ اور عید بھی کوئی مسئلہ ہے بھلا


اسلام آباد آئے تو پنڈت صاحب سے دوستی ہو گئی۔ پنڈت صاحب کے نام پر نہ جائیں بہت اچھے مسلمان ہیں۔ پنڈت ان کی ذات ہے اور تعلق ان کا کشمیر سے ہے۔ پنڈت صاحب اکثر پوچھ کر بھی اور دیکھ کر بھی حیران ہوتے رہتے تھے، کہ یار آپ مسلمانوں والے کام بھی کر لیتے ہو۔ اسلام آباد شفٹ ہونے کے بعد پہلے روزے آئے تو پنڈت صاحب نے پوچھا کہ آپ روزہ رکھو گے۔ پنڈت صاحب کو اپنے مشر کا قول سنایا جو وہ دہراتا رہتا ہے کہ دیکھو روزہ پختون کی ایک غیرت ہے یہ ہر حال میں کرنی ہے۔

مشر کی مذہبی معلومات آج بھی عام سی ہیں چھوٹے ہوتے وقت تو بالکل ہی خیر خیریت ہی تھی۔ البتہ مشر نے ہمیں سب کو کسی نہ کسی طرح سمجھا دیا تھا کہ روزے کا تعلق جرات بہادری وغیرہ سے ہے۔ جب پہلی بار گرمیوں میں روزے آئے تو ہم چھوٹے تھے۔ اسی کی دہائی کا آغاز تھا اتنا لمبا روزہ رکھنا پورا دن صبر کرنا مشکل کام تھا۔ کھڑپینچ نے ایک خفیہ اجلاس بلا کر سب کو بتایا کہ اگر نہاتے وقت منہ کھلا رکھو تو کافی سارا پانی پیٹ میں چلا جاتا ہے۔ گرمیوں کے پہلے روزے ہم نے دن میں چار چار بار نہا کر ہی گزارے۔

اسی گرمی میں ہم کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ روزہ رکھ کر تپتی دوپہر میں میچ لگا لیتے۔ چھٹی ساتویں کلاس میں تھے جب دو کام ایسے ہوئے کہ مذہب سے متعلق خیالات بدلنے لگے۔ سر میسی سکول کے پرنسپل بن چکے تھے۔ انہیں وہم ہو گیا کہ اگر ہماری دینی تعلیمات میں کوئی کمی رہ گئی تو وہ خدا اور یسوع مسیح کو کیا جواب دیں گے۔ جتنی مار ہم نے سکول میں الٹے کام کرتے کھائی ہے۔ اس سے زیادہ مار ہمیں سر سے اسلامیات کے پیریڈ میں پڑتی تھی۔ سر صرف جائزہ لینے آتے کوئی نہ کوئی سورت سننے بیٹھ جاتے۔ پھر ہم سارا ہفتہ کٹ کھاتے وہی سورت یاد کرتے رہتے۔

گھر والوں کو خیال آیا کہ ہماری دینی تعلیم کا مناسب بندوبست ہونا چاہیے۔ طرح طرح کے مولوی دور دور سے بلا کر ہماری تربیت کا انتظام کیا گیا۔ اللہ کے فضل و کرم سے کسی ایک کو بھی وسی بابے نے دو دن ٹکنے نہ دیا۔ جو سب سے ہیبت ناک مولوی صاحب آئے ان کے ساتھ پہلے دن ہی گتھم گتھا ہونا پڑا۔ اسی بات پر ان کی بھی چھٹی ہو گئی۔ ہمارے حالات دیکھ قاری صاحب کو ڈھونڈ کر ہمیں ان کے حوالے کر دیا گیا۔

قاری صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی تو وہ سر جھکا کر شرمندہ سے بیٹھے تھے۔ بہت دھیمی آواز میں صاحب کہہ کر مخاطب کیا انہوں نے۔ ان کے لیے چائے کے ساتھ بسکٹ آئے تو انہوں نے صلح ماری کہ بسکٹ کھا لو۔ انہیں کہا سر چائے میں ڈبو کر کھاؤنگا تو انہوں نے اپنی چائے آگے کر دی۔ آج بھی ان کی چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھاتا ہوں۔ اب بس یہ فرق پڑا ہے کہ قاری صاحب پوچھ لیتے ہیں کہ کسی کو پتہ بھی ہے کہ مجھے ہفتہ ہفتہ بعد ایک بسکٹ ملتا تھا۔

قاری صاحب شام کو جلدی اپنے گاؤں جاتے تھے۔ ہمیں ان سے گپ شپ کا مزہ آتا تھا۔ ان سے کہا کہ سر ذرا دیر تک رکا کریں۔ انہوں نے جواب دیا کہ دیر سے جاؤں تو امکان ہوتا کہ راستے میں میرے نالائق شاگرد لوگوں کے بٹوے نہ چھیننے کو بیٹھے ہوں۔ وہ مجھے دیکھ کر بھاگ جاتے ہیں کہ اوہ استاد جی آ رہے مجھے شرم آتی ہے۔ کوئی سنے گا تو مجھے ان کا استاد ہی سمجھے گا پھر۔

قاری صاحب ایسے ہی ہیں۔ قاری صاحب جب گھر آیا کرتے تھے تو میں ان کی گاڑی (سائیکل) نیچے سے اٹھا کر اوپر فلیٹ پر لایا کرتا تھا۔ پھر واپس اتارا کرتا تھا۔ وہ اتنے اچھے ہیں کہ ان کی گاڑی صاف کرنا جوتے سیدھے کرنا سعادت ہے اس کا بس موقع ملتا رہے۔

یہ وہ شروع کے سال تھے جب ہمیں احساس ہونا شروع ہوا کہ پشاور میں دو دو عیدیں ہوتی ہیں۔ ہمارے دوست عید کر کے پہلے دن ہم سے ملنے نہیں آتے تھے۔ قاری صاحب کے گاؤں میں بھی عید روزہ پہلے ہی ہو جاتا تھا۔ جب قاری صاحب کو آتے دوسرا سال ہوا تو ہم نے گھر میں فیصلہ کیا کہ اب عید روزہ مقامی اعلان کے مطابق ہی منائیں گے۔ یہ ہم سب گھر والوں کا فیصلہ تھا۔ اسی سال قاری صاحب نے فیصلہ کیا کہ جو مرضی ہو جائے اس سال عید سرکاری اعلان پر ہی ہو گی۔

قاری صاحب نے گاؤں والوں سے کہہ دیا کہ تیس روزے پورے کرنے ہوں گے۔ جب کچھ لوگوں نے احتجاج کیا تو قاری صاحب نے کہا اچھا پھر میرا روزہ ہے تم جس سے مرضی عید پڑھا لو۔ قاری صاحب روزہ رکھ کر ہم سے ملنے آئے تو ہم لوگ اس دن عید منا رہے تھے۔

ہم سب بہن بھائیوں اور چچا کی شادی پشاور میں ہوئی ہے۔ گھر میں اب ہر طرح کی نفری ہے پشتو بولنے والے ہندکو بولنے والے پنجابی بولنے والے۔ عید روزے پر گھر میں واضح تقسیم ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ روزہ رکھ لیتے ہیں کچھ کھاتے پیتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ اکثر عید پر بھی ایسا ہو جاتا ہے۔ اب اس صورتحال کے سب ہی عادی ہو گئے ہیں۔

عید کے دن گھر میں اکثر پختون پارٹی کا روزہ بھی ہوتا ہے۔ مہمان آئیں تو ان کی خدمت بھی ساتھ چلتی رہتی ہے۔ ہمیں ان تضادات کے ساتھ ہی خوش رہنا آ گیا ہے۔ یہ سب بتانے کا مقصد بس اتنا ہی ہے کہ مفتی پوپلزئی صاحب پر بہت اعتراضات نہ کریں۔ وہ بہت محترم ہیں ایک صدی پرانی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ لوگ جب ان کے پاس گواہی لے کر آ جائیں تو وہ سوائے گواہیوں کی شرعی حساب سے چھان بین کے اور کیا کر سکتے ہیں۔

اتنا جان لینا کافی ہے کہ ہمارے وطن میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو عید روزے کے فیصلے کے معاملے میں غیر سرکاری انتظام کے تحت چلنے والی کمیٹی کے ساتھ چلتے ہیں۔ یہ سب بھی تو اپنے ہی لوگ ہیں ان کی خوشی میں خوش رہنے میں کیا جاتا ہے۔ بس اتنا ہی تو جاننا ہے نہ کہ ہمارے اپنے بہت پیارے یار دوست ہیں جو ہم سے الگ طرح سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi