فیس بک عدلیہ


چند روز پہلے میں نے کراچی کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کے خوش باش نوجوانوں سے پوچھا کہ آج کل آپ کے ہم عمر بچوں اور بچیوں کے مشاغل کیا ہیں۔ انہوں نے ایک شریر سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا سچ بتاؤں، میں نے خوش ہو کر اثبات میں سر ہلایا۔ انہوں نے کہا کہ کالج یا نوکری پر بھی اور اس کے بعد بھی فیس بک میں گھسے رہتے ہیں۔

ہر تھوڑی دیر بعد ایک دوسرے کا سٹیٹس اپ ڈیٹ چیک کرتے ہیں، اس پر لائک کا بٹن دباتے ہیں، دوستوں کے دوستوں کی بہنوں کی تصویروں کی البم کھول کر دیکھتے ہیں، اس پر کمنٹس لکھتے ہیں پھر اپنے سٹیٹس میں لکھتے ہیں کہ آج لنچ میں کیا کھایا۔

پھر اس پر اپنے دوستوں کے تبصروں کا انتظار کرتے ہیں، کوئی تبصرہ نہ کرے تو دکھی ہو جاتے ہیں۔

پھر فیس بک پر چیٹ کر کے شام کو کسی کافی شاپ میں ملنے کا پلان بناتے ہیں۔ کافی پر دوسروں کے فیس بک سٹیٹس کا مذاق اڑاتے ہیں، ایک دوسرے کی تصویریں کھینچتے ہیں۔ پھرگھر آ کر تصویریں فیس بک پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر تک جب کوئی لائک کا بٹن نہیں دباتا یا تبصرہ نہیں کرتا تو فون کر کے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ میری تصویر کو لائک کیوں نہیں کیا۔

مجھے نہ جانے کیوں کراچی کے خوشحال نوجوانوں کے شب و روز سن کر یوں لگا کہ پاکستان کا آزاد میڈیا اور آزاد عدلیہ بھی فیس بک کے بہترین دوست ہیں۔ ان کے شب و روز بھی ایک دوسرے کے اپ ڈیٹ اور لائک کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ دونوں کی تاریخِ پیدائش بھی آس پاس ہے، نیٹ ورکس دونوں کے ان قانون دانوں اور موسمی سیاستدانوں کے گرد گھومتے ہیں جو شادی کی دعوت میں چن چن کر بوٹیاں کھاتے ہیں۔ پھر کندھے سے کندھا ملا کر ہر اس قانون کا جنازہ پڑھنے کو تیار ہو جاتے ہیں جو ان کو وارہ نہیں کھاتا۔ کامن فرینڈز میں تجزیہ کاروں کی فوج ظفر موج ہے جو اپنے ہر سٹیٹس اپ ڈیٹ میں حکومت کے جانے کی تاریخ دے کر الٹی گنتی گننا شروع کر دیتے ہیں۔

کبھی عدلیہ کہتی ہے کہ پارلیمینٹ کو چھوٹ دی گئی تو وہ ملک کو سیکولر بنا سکتی ہے۔ اس کے فیس بک دوست فوراً لائک کا بٹن دبا دیتے ہیں۔ نہ جانے دونوں کے صفحے پر وقتاً فوقتاً حزب التحریر کی فیڈ کیوں چلتی رہتی ہے۔

پھر عدلیہ کے کسی بہت ہی سینئر جج کو یہ خیال آتا ہے کہ اگر پارلیمینٹ کل ہم جنس پرستوں کو شادی کی اجازت دے دے تو اس مملکتِ خداداد پر کیا کیا عذاب آئے گا۔ فیس بک پر موجود سارے مشترکہ دوستوں کو پتہ ہے کہ پاکستان میں ویسے تو ہم جنس ہیں ہی نہیں اور اگر ہیں بھی تو انہوں نے کبھی اعلیٰ عدلیہ تو کیا مقامی مجسٹریٹ سے بھی کوئی مطالبہ نہیں کیا۔

لیکن مشترکہ دوست یہ بھی جانتے ہیں کہ فیس بک پر وقتاً فوقتاً جنس کا ذکر ہوتا رہتا ہے چاہے لعنت و ملامت کے لیے ہی صحیع، تو دوستوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کے سٹیٹس اپ ڈیٹ میں کبھی کبھی چینی کی قیمتوں کا بھی ذکر آتا ہے اور کبھی کبھی لاپتہ افراد کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے۔ لیکن آٹے چینی کے بولائے ہوئے لوگ اور خفیہ اداروں کے زندان خانوں میں سڑتے ہوئے سیاسی قیدی تو فیس بک پر ہیں ہی نہیں اس لیے یہ معاملہ زیادہ دور تک نہیں چلتا۔

دونوں نے البتہ اپنے ریلیشن شپ سٹیٹس میں کمپلیکیٹڈ لکھ رکھا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ فیس بک پر اس طرح کی باتیں وہ شادی شدہ لوگ لکھتے ہیں جن کی نیت میں فتور ہوتا ہے۔

2010۔ 09۔ 28


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).