اصغر علی گھرال: کتاب، مقدمہ اور وکیل میں سے کسے موت آئی؟


 گجرات کی مٹی بہت زرخیز ہے۔ یہاں کے محبت کرنے والے بھی داستان ہیں، یہاں کے لڑنے والوں کی بہادری بھی ایک روایت ہے۔ ایک خرابی اس مٹی میں بہت پرانی چلی آتی ہے۔ یہاں کے گھڑے اکثر بیچ دریا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ عین یہاں کی زمیں کی طرح کہ وقفے وقفے سے منہ کھولتی ہے اور ہمارے لعل و گہر زیر خاک پردہ کر جاتے ہیں۔ چناب کے گھاٹ پر برہ کی کوک ایک اداس کر دینے والے آکار کی طرح مسلسل سنائی دیتی ہے۔ جیسے پرانے پیپل کے پتوں کی سرگم گزرتے ہوئے وقت کی یاد دہانی کراتی ہے۔ خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں۔۔۔ یہاں کے ایک چراغ اکبر علی ایم اے تھے۔ اب سے چالیس برس پہلے کی نسل کو خرد افروزی کا درس دیتے تھے۔ سادہ زبان میں سائنس سمجھاتے تھے، عقلیت پسندی کی دعوت دیتے تھے، انصاف، آزادی اور جمہوریت کے موضوعات پر ایک نسل کی تربیت کی۔ 1930 میں پیدا ہونے والے اکبر علی 15 اکتوبر 2002 کو رخصت ہو گئے۔ جو لکھا، اس کا بڑا حصہ اخباری کالموں میں بکھر گیا، دو تصانیف البتہ اپنی یادگار چھوڑیں۔ کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ۔۔۔ 14 ستمبر 1950کو پیدا ہونے والے سید شبیر حسین شاہ اکبر علی ایم اے کے خاص تلامذہ میں شمار ہوتے تھے۔ وہی امن کا پرچم، وہی رواداری کی تعلیم، تعصب سے دور، تحقیق کی چٹیک، شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے لیکن تدریس کو کمرہ جماعت تک محدود رکھنے کے قائل نہیں تھے۔ جب تک جئے، تاریخ، سیاست اور تمدن کے سہ رنگ چشموں کی ایک سبیل گجرات میں لگائے رکھی۔ طبیعت میں ایک گونہ مزاحمت کا رنگ تھا۔۔۔۔ کیوں نہ ہوتا، شبیر کے نام کی لاج رکھنا تھی۔ 19 نومبر 2013 کی صبح حسب معمول فرائض کی ادائی کے لئے گجرات یونیورسٹی جا رہے تھے کہ ایک شقی القلب کی گولی چاٹ گئی۔ حریت کا جرم معلوم تھا اور مارنے والے نامعلوم۔ فیض کی ندی کے شفاف دھارے میں لہو کی ایک لکیر نمودار ہوئی اور پھر موجوں میں گھل گئی۔ تشویش اور تفتیش کی کسے ہوش تھی۔ کچھ روز قبل یکم نومبر 2013 کو حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں مارے گئے تھے، ملک میں امن و امان کے ذمہ دار تو محسود صاحب کے غم میں پچھاڑیں کھا رہے تھے۔

اکبر علی اور شبیر حسین جس ہیئت ثلاثہ کے رکن تھے۔ اس کے رکن رکین چوہدری اصغر علی گھرال تھے۔ برادرم ڈاکٹر وسیم گردیزی نے اطلاع دی ہے کہ 19 مئی 2017 کی شام یہ چراغ بھی گل ہو گیا۔ اصغر علی گھرال نے 6 ستمبر 1927 کو آنکھ کھولی۔ نچلے متوسط طبقے سے تعلق تھا۔ اپنے زمانے کی روایت کے مطابق کلرکی کی مشقت کے ساتھ ساتھ قانون کی تعلیم پائی۔ مقامی عدالت میں پریکٹس شروع کی۔ ایک واقعہ نے زندگی کا رخ بدل دیا۔ سردیوں کی ایک صبح گجرات بار روم میں وکلا حسب معمول الاؤ کے گرد جمع تھے۔ اچانک ایک قریبی گاؤں میں ہونے والی واردات کی خبر آئی جس میں تین افراد قتل ہو گئے تھے اور کچھ زخمی تھے، نوجوان اصغر علی نے تعجب سے دیکھا کہ وکلا میں قتل و غارت کی خبر سنتے ہی جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی۔ زور و شور سے اس امکان پر بحث ہونے لگی کہ اس مقدمے میں کن وکلا کو استغاثے اور دفاع میں بھاری رقم کمانے کا موقع ملے گا۔ چوہدری صاحب بتایا کرتے تھے کہ اس روز میں نے اہل قانون کو انصاف، ظلم اور انسانی آلام سے اس قدر بے نیاز پایا کہ اس پیشے سے دل اٹھ گیا۔ حقیقت یہ ہے ایک آدھ واقعہ سے زندگی تو نہیں بدلتی، وقت برسوں پرورش کرتا ہے۔ 1951ء ہی سے سیاست میں سرگرم حصہ لے رہے تھے۔ 1962 میں بلدیاتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی۔ اصل معرکہ 1965 کے قومی اسمبلی کے انتخاب میں ہوا۔ چوہدری فضل الہٰی کے ایک مد مقابل نواب زادہ اصغر علی خان تھے۔ انہیں دھونس دے کر بٹھا دیا گیا لیکن غریب زادہ اصغر علی گھرال نے دست بردار ہونے سے انکار کر دیا۔ انتخاب چوہدری فضل الہٰی نے جیتا اور دلوں میں جھنڈے اصغر علی گھرال کے نصب ہوئے۔

چوہدری اصغر علی گھرال کی زندگی کا حاصل وہ دس برس تھے جو انہوں نے جنرل ضیاالحق کی مارشل لاء آمریت کے خلاف قلمی مزاحمت میں گزارے۔ سارتر نے کیا صحیح کہا تھا ، آزادی کا مفہوم جبر کی مزاحمت سے طے پاتا ہے۔ اس دور میں چوہدری گھرال کی بیشتر تحریریں شائع کرنے کا اعزاز روز نامہ جنگ کو ملا۔ روز نامہ جنگ کے ادارتی صفحات پر وارث میر اور اصغر علی گھرال نے گویا مورچہ لگا رکھا تھا۔ وارث میر کی کتاب “کیا عورت آدھی ہے؟” کے قریب تمام مضامیں جنگ میں شائع ہوئے۔ وارث میر پیشہ ور صحافی ہی نہیں تھے، صحافت کے استاد بھی تھے۔ تحریر کاٹ دار لیکن پیشہ ورانہ حدود کا خیال رکھتے تھے۔ چوہدری اصغر علی گھرال کا خروش کسی گھر بند نہیں تھا۔ انہوں نے ایک سرے سے شروع کیا اور جو معاملہ سامنے آیا اس پر دوبدو لڑے۔ اس میں قانونی استدلال، آئینی موقف، تاریخی سند، پھبتی، حکایت، معاصرین سے نوک جھونک، غرضیکہ گجرات کا ایک نابر راٹھور تھا جو ہار جیت سے بے نیاز جان توڑ کر لڑ رہا تھا۔ ذرا گنتی کیجئے، چوہدری اصغر علی گھرال نے دس برس میں کتنے محاذ کھولے۔ قوانین کی اسلامائزیشن کی آمرانہ مہم کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ عورتوں کی آدھی گواہی کے خلاف مضامیں کی ڈور لین باندھ دی، اسلامی نظریاتی کونسل سے ٹکر لی ۔ رجم کی سزا پر وفاقی شرعی عدالت سے بھڑ گئے۔ عائلی قوانین پر یتیم پوتے کے حق وراثت کی دلالت کی۔ اجتہاد کے سوال پر عدلیہ کے مفروضہ حق کو چیلنج کیا۔ مزارعہ کے حق شفع کی وکالت کی، ایک محترم عالم دین کو قرب سلطانی پر غرہ تھا، احیائے غلامی کے سوال پر ان کا پانی اتار کے رکھ دیا۔ نویں آئینی ترمیم کی صورت میں شریعت بل کا مسودہ آیا تو اس کے پرخچے اڑا دئیے۔ تبدیل شدہ مسودہ ترمیم سامنے آیا تو اس کی دھجیاں بکھیر دیں۔ حد یہ کہ شریعت بل کی مخالفت میں قرار داد مقاصد سے بھی مفید مطلب دلائل اخذ کئے۔ ذرائع ابلاغ پر پابندیوں کی مخالفت کی۔ وسیم سجاد کی پتنگ ان دنوں بہت اونچی اڑ رہی تھی، ان کے پیش کردہ سرکاری شریعت بل کی بھی خبر لی۔ اہانت مذہب کے قوانین پر بحث شروع ہوئی تو ایسے دلائل دئیے کہ قوم آج تیس برس بعد ان کے موقف کی اصابت جانچ سکتی ہے۔ وارث میر پر مشکل وقت تھا اور گھرال صاحب ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے۔ عورتوں کے حقوق کے لئے تو چوہدری صاحب شمشیر برہنہ تھے۔ بیک وقت ڈاکٹر اسرار، مولوی طفیل محمد، ظفرانصاری اور خالد اسحاق سے چومکھی لڑتے تھے۔ یاد رہے کہ یہ منہ زور الیکٹرانک میڈیا کا زمانہ نہیں تھا اور اخبارات کے ذمہ دار اپنی تحدیدات سمجھتے تھے۔ روئیداد خان سیکرٹری داخلہ اور جنرل مجیب الرحمن سیکرٹری اطلاعات تھے۔ اختلاف کا تحمل ضیاالحق میں بہت کم تھا۔ بندی خانے سیاسی قیدیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ اور یہ سب مباحث ایک مختصر سی کتاب میں سمو گئے، عنوان تھا، “اسلام یا ملا ازم”۔ بتاتے چلیں کہ چوہدری اصغر علی گھرال نہایت کٹر وطن پرست اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ میجر عزیز بھٹی کی سوانح لکھ چکے تھے۔ “اسلام یا ملاازم” ہماری تاریخ کے ایک کٹھن موڑ پر ایک پیادہ سپاہی کی مزاحمت کی دستاویز ہے۔ چوہدری صاحب کے مداحوں پر فرض ہے کہ اس کتاب کا نیا ایڈیشن شائع کیا جائے۔ چوہدری اصغر علی گھرال کی وفات ہو چکی لیکن یہ کتاب زندہ ہے، اس میں درج مقدمات ابھی تصفیہ طلب ہیں اور اصغر علی گھرال نامی وکیل کی دلیل ابھی غیر متعلق نہیں ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).