قومی مفاد میں جذبات کی گنجائش نہیں ہوتی


اپوزیشن جماعتیں مل کر پی ایم ایل (ن) حکومت کو کانٹوں پر گھسیٹ رہی ہیں کہ اس نے ریاض میں انتالیس ممالک کی کانفرنس میں وزیر ِ اعظم نواز شریف سے ہونے والے ’’شرمناک سلوک ‘‘ پر صدائے احتجاج بلند کیوں نہیں کی ۔ پاک امریکہ تعلقات پر بات کرنے کا تو ذکر ہی کیا، امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے مسٹر شریف کے ساتھ بمشکل ہی ہاتھ ملایا۔ سعودی بھائیوں نے بھی تقریر کا موقع نہ دے کر پاکستانی وزیر ِاعظم کی سبکی کی ، حالانکہ پاکستان کی دہشت گردی کی جنگ میں دی گئی قربانیوں کو اجاگر کرنے کے لئے تقریر تیار کی گئی تھی ۔

ستم بالائے ستم یہ کہ مسٹر ٹرمپ نے دہشت گردی کے ہاتھوں زک اٹھانے والے ممالک کی طویل فہرست میں پاکستان کا ذکر تک نہ کیا ۔ مزید قہر یہ ہوا کہ بھارت کا ذکر دہشت گردی کے شکار ملک کے طور پر کیا گیا حالانکہ پاکستان دہائی دے رہا تھا کہ طالبان کی دہشت گردی اور ملک میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے ۔ ان حالات میں ناقدین سوال کررہے ہیں کہ عرب دوستوں نے مسٹر شریف کو مدعو کیوں کیا تھا، نیز وہ اس کانفرنس میں جانے کے لئے راضی ہی کیوں ہوئے تھے جہاں ’’پاکستان کی ہتک ‘‘ کے سوا کسی چیز کی توقع نہ تھی ۔

ہمیں ایک بات میں واضح ہونا پڑے گا۔روایتی طور پر سنی مسلک سے تعلق رکھنے والی تمام عرب اقوام سعودی عرب کی قیادت میں شیعہ ایران اورمشرق ِوسطیٰ میں موجود اُس کے اتحادیوں کی طرف سے ممکنہ خطرے کا تدارک کرنے کے لئے متحد ہوچکی ہیں ۔ عراق ، شام اور یمن میں ہونے والی خانہ جنگیوں پر مسلکی رنگ نمایاں ہے ۔ ایران اور سعودی عرب ، دونوں اپنے اپنے مسلک کے پراکسی دستوں کے ذریعے میدان میں موجود ہیں۔ وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی کشمکش میں روس اور امریکہ کا متحارب گروہوں کا ساتھ دینے کی وجہ سے مزید خرابی پیدا ہوئی ہے ۔ اس صورت ِحال میں، پاکستان عجیب سی الجھن میں پھنس گیا ہے ۔ اس میں سنی آبادی کی اکثریت ہے لیکن شیعہ بھی آبادی کا ایک خاطر خواہ حصہ ہیں۔ اس لئے ملک میں شیعہ سنی کشمکش کا تصور بھی ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔

اس وقت پاکستان مختلف محاذوں پر لڑرہا ہے ۔ یہ مشرقی محاذ پر بھارت کا فوجی دبائو محسوس کررہا ہے ۔ مغربی سرحد پرطالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ جنگ جاری ہے ۔ اس کے علاوہ افغان سرحد بھی سلگ رہی ہے ۔ اس صورت ِحال کا سامنا کرنے والا ملک مشرق ِوسطیٰ کی دلدل میں پائوں نہیں رکھ سکتا ۔ اگر ایسا کرے گا تو اس کا داخلی طور پر شدید رد ِعمل ہوگا ۔ اور اس کی جو بھی اہمیت ہو، پاکستان بہرحال تحریری آئین رکھنے والی ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے جس میں مضبوط اپوزیشن ہے۔ اس میں باقاعدہ عام انتخابات کی روایت موجود ہے جس میں سیاسی جماعتیں احتساب کے عمل سے گزرتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب سعودی اور دیگر عر ب رہنما پاکستان پر اُن کی جنگ میں شامل ہونے کے لئے اصرار کرتے ہیں تو پاکستان شائستگی سے انکار کردیتا ہے کہ ملک کی اپوزیشن اس عمل کی اجازت نہیں دے گی ۔

پاکستانی مجموعی طور پر امریکہ مخالف ہیں ۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کا ساتھ دیتے ہوئے لڑنے کے جذبات بھی زیادہ قوی نہیں ہیں۔ امریکہ اور سعودی عرب، دونوں بھارت مخالف نہیں ہیں، نیز یہ دونوں ممالک اسرائیل کی طرف جھکائو رکھتے ہیں۔ چنانچہ نواز شریف صاحب کے لئے فیصلہ لینا آسان کام نہ تھا۔ سعودیوں سے اُن کے ذاتی روابط بھی ہیں۔ اُنھوں نے مشکل وقت میں اُن کی مدد اور میزبانی کی تھی ۔اُنہیں تاریخی طور پر پاکستان کا دوست بھی سمجھا جاتا ہے ۔ وہاں کئی لاکھ پاکستانی کام کرتے اور اربوں ڈالر کا زر ِ مبادلہ ملک میں بھیجتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک کی کرنسی مستحکم رہتی ہے اور قرضوں کی ادائیگی کے باوجود اس کاخزانہ خالی نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ سعودیوں نے بعض مواقع پر رعایتی نرخوں پر بھی تیل فراہم کرکے اس کی معیشت کو استحکام بخشا ہے ۔

جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو وہ پاکستان کاعشروں سے بہی خواہ رہا ہے۔ اس نے پاکستان کو اربوں ڈالر مالیت کے جدید ترین ہتھیار فراہم کیے اوراس کی معاشی اور فوجی طور پر امداد کی ۔لیکن جب پاکستان اُن سے بھرپور فائدہ اٹھاتا رہا ہے ، اور اگر اس کے جواب میں پاکستان ضرورت کے وقت اُن کے ساتھ نہیں چلے گا تو وہ پاکستان سے خوش نہیں ہوں گے ۔ چنانچہ اگر وہ مسٹر شریف کو بہت اہمیت نہیں دے رہے تھے تو اُنہیں مورد ِ الزام کیوں ٹھہرایا جائے ؟ درحقیقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے کہ چاہے سعودی عرب ہو یا امریکہ، اس نے اپنے قومی مفاد کو مقدم رکھا ۔ اس نے ماضی کے برعکس خود کو سستے داموں فروخت نہیں کیا۔ اگر نواز شریف اس خانہ جنگی کا حصہ نہیں بن سکتے تو وہ امریکہ اور سعودی عرب کی دعوت کو دوٹوک انداز میں رد بھی نہیں کرسکتے ۔

حکومت پر کلبھوشن یادیو معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں ’’مس ہینڈل ‘‘ کرنے کا بھی الزام ہے ۔ ناقدین کا دعویٰ ہے کہ حکومت پہلے ہی رائونڈ میں شکست کھا چکی تھی جب عالمی عدالت نے یادیو کی پھانسی پر حکم امتناعی جاری کیا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو بھارت اس کیس کو جیت سکا ہے اور نہ ہی پاکستان کی ہار ہوئی ہے ۔ چونکہ پاکستان اس بات کی ضمانت دینے کے لئے تیار نہیں تھا کہ وہ کیس کا فیصلہ ہونے تک پھانسی نہیں دے گا، اس لئے عالمی عدالت کے لئے اُس کی پھانسی کو فیصلہ ہونے تک روکنے کے لئے حکم ِ امتناعی جاری کرنا ضروری ہوگیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان نے کیس کے فوری فیصلے کے لئے اپیل کی ہے ۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ بھارتی ناقدین بھی اپنی حکومت کو عالمی عدالت سے رجوع کرنے پر آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں کیونکہ ایسا کرتے ہوئے بھارتی حکومت اپنے تنازعات کے درمیان کسی تیسرے فریق کی ثالثی کو دعوت دے چکی ہے ۔ چنانچہ پاکستان بھی یواین قرار دادوں کے مطابق کشمیر پر تیسرے فریق کی ثالثی کا موقف اختیار کرسکتا ہے ۔ پاکستانی اُس وقت انتہائی ’’قوم پرست ‘‘ بن جاتے ہیںجب ان جذبات کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ دراصل عالمی معاملات میں جذباتی تعلق اور روابط کی گنجائش نہیں ہوتی، یہاں معروضی جائزوں اور قومی مفادات کو ترجیح دینی ہوتی ہے۔

 بشکریہ روز نامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).