دہشت گردی، توہین مذہب اور سیکولرازم: خود فریبی سی خود فریبی ہے  


آپ نے ریاض میں ہونے والی ایک کانفرنس میں امریکہ کے صدر اور سعودی عرب کے بادشاہ کے خطابات سنے ہوں گے ۔یہ دونوں حضرات دنیا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے بارے میں بہت فکر مند تھے اور دنیا کو اپنی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے یہ بتارہے تھے کہ اس ساری دہشت گردی کا مرکز کون سا ملک ہے۔ ان کے خطابات کے ختم ہونے کی دیر تھی کہ مغرب کے مین سٹریم میڈیا، آلٹرنیٹ میڈیا اور سوشل میڈیا نے ان پر تبصرے اور تنقید شروع کردی۔ وہ ممالک کہ جو دنیا میں دہشتگردی کے بڑے برآمد کنندگان میں شمار ہوتے ہیں ان کے سربراہان کی زبان سے ایک تیسرے اور نسبتاً چھوٹے برآمد کنندہ پر تنقید دنیا پر گراں گزری۔ سوال یہ نہیں ہے کہ یہ تنقید بجا تھی کہ بے جا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان دو عالمی رہنماوں کو اندازہ تھا کہ جو کچھ وہ فرمانے جارہے ہیں دنیا ان کے ارشادات کو کیسے دیکھے گی؟ کیا ان کی بات میں اتنا وزن کہ دنیا کو قائل کیا جا سکے؟ کیا ان دونوں ممالک کے سربراہوں کو زیادہ پرانی نہ سہی اپنے ملک کی گذشتہ تیس برسوں کی کارگزاری کا علم ہے؟ کیا وہ اس کارگزاری پر ہونے والی تنقید سے آگاہ ہیں؟ کیا وہ جانتے تھے کہ جس ملک کو وہ تنقید کا نشانہ بنانے جارہے ہیں دہشت گردی کے پھیلاؤ کا وہ انکی نسبت کم ذمہ دار سمجھا جاتا ہے؟ اگر ان سب سوالوں کے جواب اثبات میں ہیں تو کیا انہوں نے چند سیاسی، عسکری اور تجارتی مقاصد کے حصول کی خاطر غلط بیانی سے کام لیا؟ کیا وہ اپنے مخاطبین کو یہ باور کرانے کی کوشش کرہے تھے کہ ان کے کوئی اور مقاصد نہیں ہیں وہ تو امن عالم کے لیے کوشاں ہیں؟ اگر وہ یہ کوشش کررہے تھے تو یہ بات تو مجھ ایسا عامی بھی جانتا ہے کہ یہ ایک انتہائی ناکام کوشش ثابت ہوئی ہے اور شاید ہی کسی غیر جانبدار انسان نے ان کی باتوں پر یقین کیا ہو۔ آخر کیا ضرورت تھی کہ اتنے اہتمام سے وہ بات دنیا کو سنانے کی کوشش کی جاے کہ جس کے بارے پہلے سے معلوم ہو کہ کوئی اس پر یقین نہیں کرے گا۔ ہم سب جھوٹ بولتے ہیں مگر کوشش کرتے ہیں ہمارا جھوٹ ناقابل یقین نہ ہو ۔ آخر دنیا کے ان حکمرانوں کو جن کی مشاورت کے لیے بڑے بڑے اذہان میسر ہوتے ہیں ایسا ناقابل بھروسہ موقف اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ نفسیات کے طالب علم کے پاس ایک ممکنہ جواب ہے اور وہ یہ کہ شاید یہ رہنما دل و جان سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا موقف نہ صرف درست بلکہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اگر یہ موقف نہ اپنایا گیا تو دنیا ایک بڑی تباہی سے دوچار ہوجائے گی۔ اس لیے ان پر ہونے والی تنقید غلط اور نقصان دہ ہے اور اس تنقید پر کان دھرنا بھی غلط ہے۔۔۔

ذرا یاد کیجیے عراق پر 2003 میں ہونے حملے کے بعد امریکہ کے صدر جب برطانیہ کے دورے پر آے۔ لاکھوں لوگوں نے لندن کی سڑکوں اور گلیوں میں ان کے خلاف مظاہرے کیے ۔ انکے اور برطانوی وزیر اعظم کے پتلے جلاے۔ پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ مسٹر پریزیڈنٹ کیا آپ کو علم ہے کہ لوگ آپ کے خلاف مظاہرے کیوں کر رہےہیں ۔ انہوں نے کندھے اچکا کر کہا ” آئی ڈونٹ نو”۔ مجھے یہ جواب بہت سچا لگا۔ واقعی ان کو مظاہرین کے نقطہ نظر کا علم نہیں ہوگا۔

ریاض کانفرنس کے خطابات کے حوالے سے غور طلب بات یہ ہے ان کے ارشاد فرمانے والوں میں سے ایک تو خیر سے بادشاہ سلامت ہیں جو کسی کو جواب دہ نہیں ہیں لیکن دوسرے صاحب تو ایک ایسے ملک کے منتخب رہنما ہیں جسکی جمہوریت پسندی سے اور تو اور دہشت گرد بھی جلتے ہیں ۔ ایسے ملک کے رہنما بھی اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو قابل اعتنا نہ سمجھیں تو معاملے کو اس لیے قابل غور سمجھنا چاہیے کہ اس سے یہ لگتاہے کہ دوسروں کی تنقید کو بلاجواز، راے کو غلط، اور نظریات کو نادرست اور اسے بیک جنبش زبان و قلم مسترد کرنے کی روش صرف بادشاہوں سے مخصوص نہیں ہے جمہوریت کے عالمی چیمپئن بھی اس کا شاندار مظاہرہ کرسکتے ہیں ۔

عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات سے نتائج اخذ کیجیے اور انکا اطلاق ملکی سیاست کی موجودہ صورتحال پر کریں ۔ سندھ اور خیبر پختون خواہ میں حزب اختلاف کی حکومتیں ہیں ۔ پنجاب اور بلوچستان میں حزب اقتدار کی۔ بجٹ تو خیر ایک پیچیدہ معاملہ ہے لیکن صوبوں میں ہونے والے ترقیاتی کام تو سب کے سامنے ہیں ۔ اب ان کاموں پر ٹاک شوز میں ہونے والی گفتگو سماعت فرمائیں ۔ہر شریک گفتگو اپنی کوتاہیوں اور دوسروں کی کامیابیوں کو دیکھنے سے قاصر نظر آتا ہے ۔ ناقابل دفاع امور کا دفاع ہوتے دیکھ کر شاید آپ بھی یہ سوال کرتے ہوں کہ کیا یہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ کس کا دفاع کررہے ہیں؟ اور کیا یہ جانتے ہیں کہ ان کے مخاطب یعنی عوام کی ایک تعداد صرف حقیقت حال سے صرف واقف ہی نہیں بلکہ اس کی شکار بھی ہے؟ ان حضرات کی گفتگو، لب و لہجہ، اور الفاظ اپنے موقف پر ان کے کامل یقین کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں ۔

ایک درسی بات پر نظر ڈالیں ۔ نفسیات کے طلباء کو Theory of Mind نامی ایک نظریہ پڑھایا جاتا ہے ۔ اسکا عامیانہ بیان یوں ہوگا کہ ہر انسان میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے اور دوسروں کے ذہن اور ذہنی حالتوں میں فرق کو جان سکے۔ یعنی وہ یہ محسوس کرسکے کہ دوسرے بھی اسی جیسا ایک ذہن رکھتے ہیں۔ اس میں بھی خیالات، محسوسات، خواہشات اور نظریات پیدا ہوتے ہیں ۔ دوسروں کو بھی کچھ چیزیں اچھی لگتی اور کچھ بری۔ جس کا اظہار زبان سے بھی ہوتا ہے اور بے زبانی سے بھی ۔ دوسروں کے احساسات کا ادراک انسانی تعلقات کو قائم اور معاشرے کو امن عطا کرتا ہے ۔جبکہ نفسیاتی عوارض میں مبتلا انسان اس صلاحیت سے محروم ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ سکیزوفرینیا اور آٹزم جیسے عوارض میں اس صلاحیت کی کمی کے شواہد موجود ہیں ۔

اب واپس لوٹیے زیر نظر موضوع پر۔ مشال خان کے بہیمانہ قتل پر ہونے والی گفتگو ملاحظہ کیجیئے ۔ فیس بک پر ایسی گفتگو عام طور پر حضرت فرنود عالم کے چھوڑے ہوے شذرے چھیڑتے ہیں ۔ تمام اداروں کی تمام تحقیقات نے اس امر کو ثابت کردیا ہے اس سارے قضیے میں اہانت مذہب کو صرف ایک حربے کے طور پر استعمال کیا گیا مگر فیس بک پر موجود تبصرہ نگار اس حقیقت کو قبول کرنے سے انکاری ہیں وہ مشال خان کو اہانت مذہب کا مجرم ٹھہرا کر اسے عذاب واقعی کا مستحق قرار دے رہے ہیں۔ ایسے میں آپ سوچتے ہیں کہ یہ تبصرہ نگار کیا حقیقت سے ناواقف ہیں یا جانتے بوجھتے انجان بن رہے ہیں اور اگر ایسا ہے تو ایسا کیوں ہے۔

میں نے آپکی خدمت میں بادشاہوں، حکمرانوں، سیاست دانوں اور عام آدمی کی مثال پیش کی۔ آیے علما اور سکالرز کے احوال پر نظر ڈالتے ہیں ۔ ملک عزیز میں سیکولر ازم کے حامی کئی دہائیوں یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ سیکولر ازم اپنی کسی بھی صورت میں مذہب سے متصادم نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی نظام ہے جس میں ریاست ہر باشندے کے عقائد و نظریات کا احترام اور تحفظ کرتی ہے اور اسے ان عقائد و نظریات کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔

سائنسی تحقیق میں Operational Definition نامی ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔ اس سے مراد ہ کسی بھی تصور کے وہ معنی ہیں جن پر محقق نے تحقیق کی ہے ۔ ان معانی کو تحقیقی مقالہ جات میں اس لیے صراحت سے بیان کیا جاتا ہے تاکہ پڑھنے والے کو یہ پتا ہو کہ زیر بحث اصطلاح کو مصنف نے کن معانی میں استعمال کیا ہے اور مصنف کی بیان کردہ اصطلاح کو قاری اپنے معانی نہ پہناسکے۔

پاکستان میں سیکولر ازم کے مخالفین نے اس کے ان معانی کو نظر انداز کردیا جو وجاہت مسعود صاحب اور دیگر اہل علم نے بیان کیے اسکی جگہ اسکی ایسی تاویل اور تعریف کی جس میں سیکولر ازم براہ راست مذہب سے متصادم اور متناقض نظر آتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کسی علمی بحث میں مخالفین اصطلاحات کے معانی متعین کیے بغیر گفتگو کرسکیں؟ قدیم علم مناظرہ میں بھی بحث کے حدود و قیود متعین کیے جاتے تھے۔ حیرت میں اضافہ ہوا جب نسبتاً معتدل و معقول ( بمعنی عقل یعنی دلیل پر انحصار کرنے والے) سمجھے جانے والے علامہ جاوید غامدی نے قران کو سیکولر ازم کے مقابل کھڑا کرکے سیکولر ازم کی ناکامی کی نوید سنائی ۔ ان کی یہ ویڈیو فیس بک پر موجود ہے۔ آپ ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ کریں کہ ان کے ذہن میں سیکولر ازم کی کونسی تعریف ہے۔ وہ جو پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانے کی خواہش رکھنے والے کرتے ہیں یا وہ جو سیکولر ازم کے داعی کرتے ہیں ۔سردست مجھے پاکستان کے سیکولر یا مذہبی ہونے پر گفتگو نہیں کرنا میں آپ کی توجہ اس ذہن کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ جو دوسروں کے نظریات کو یا تو درخور اعتنا نہیں سمجھتے ۔ اور دوسروں کے نظریات کو اپنے معانی پہناکر دیکھتے، سمجھتے اور بیان کرتے ہیں ۔

ایک بچہ اگر کسی ایسی چیز (مثال کے طور پر مکڑی) سے ڈر جاے جس سے ضرر کا کوئی اندیشہ نہ ہو تو ایسے میں مکڑی کو بے ضرر ثابت کرنے کی آپکی ہر کوشش رائیگاں جاے گی۔ ایک دوسری صورت میں خود کو خدا سمجھنے والے ایک سکیزوفرینک کو یہ سمجھانا کہ وہ خدا نہیں ہے مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے ۔ بچہ مکڑی کو ضرر رساں اور سکیزوفرینک خود کو خدا سمجھنے کے موقف پر قائم رہے گا۔۔۔۔آپ کرلیں جو کرنا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).