اُدبا کے رویے اور صنف نازک


وہ ابھی ادب میں نئی نئی آئی تھی مگر اتنی نئی بھی نہیں تھی کہ شہر کے ادیبوں کے لیے وہ بالکل ہی نا شناسا چہرہ ہو۔ عام طور پر وہ محفل میں آتی، خاموشی سے کسی بھی ادبی تقریب میں بیٹھتی، اس کے ہاتھ میں ایک ڈائری ہوتی جس پر وہ تقریب میں بیٹھ کر کچھ نوٹس لے کر تقریب کے خاتمے پر واپس چلی جاتی۔ میری بھی اس سے راہ و رسم رہتی تھی۔ ایک دن کسی ادبی تقریب میں، جہاں میں بھی مدعو تھی، وہ بھی آئی ہوئی تھی۔ میں ہال میں ذرا دیر سے پہنچی۔کرسیاں تقریباً بھر چکی تھیں۔مجھے دیکھ کر ایک نوجوان لکھاری اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور مجھے اپنی خالی کی ہوئی نشست پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ میں نے روائتی انداز میں اسے کہا کہ آپ بیٹھیں پلیز۔ اتنی دیر میں ایک دو اور اطراف سے بھی آوازیں آئیں کہ میڈم آپ تشریف رکھیں۔ جہاں میں بیٹھی تھی وہاں میرے دائیں طرف وہ پہلے سے بیٹھی ہوئی تھی جسے میں پچھلے کچھ مہینوں سے ادب میں نئی اینٹری کے طور پر دیکھ رہی تھی۔

میں نے دائیں بائیں بیٹھے لوگوں کو سلام کیا۔اس نے گرم جوشی سے میرے سلام کا جواب دیا اور ساتھ ہی پوچھا کہ آپ کیسی ہیں ؟ میں نے بھی جواباَ اس کا حال پوچھا اور ساتھ ہی پوچھ لیا کہ کیا لکھتی پڑھتی ہو؟ اس نے کسر نفسی سے کہا کہ طفل مکتب ہوں۔۔۔ میں نے کہا کہ وہ تو ہم سب ہی ہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی نہیں آپ لوگ تو۔۔۔۔ ابھی اتنا ہی بول پائی تھی کہ میں نے جملے کے درمیان میں کہا کہ سب یہاں سیکھنے آتے ہیں سب ہی طفلِ مکتب ہیں۔ مکمل ذات تو بس اللہ پاک کی ہے۔ میں نے اس طرح کی لیاقت جھاڑ کر اسے ذرا ریلیکس کیا۔

تقریب میں چائے کا وقفہ ہوا تو ہمیں بات چیت کرنے کا مزید تھوڑا وقت مل گیا۔ گفتگو کا موضوع گھوم پھر کر ادب اور ادیب ہی رہا۔ وہ ادب میں نئی نئی تھی۔ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کے لیے نسائی شعور پر روشنی ڈالنا شروع کر دی۔ میں نے اسے بتایا کہ پدر سری نظام بہت پیچھے رہتا جا رہا ہے جو اس بات کا متقاضی تھا کہ ”یہ مردوں کی دنیا ہے۔ عورتوں کا مقام صرف کٹیا یا گھر کی چار دیواری تک محدود ہے۔“ آج کے ترقی یافتہ دور میں عورت گھر میں بھی انسان ہے، بینک میں بھی، ہسپتال میں بھی ڈرائیور کے روپ میں بھی، ماں، بہن بیوی، استاد اور شاگرد کے روپ میں بھی۔ میں نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ تانیثی شعور رکھنے والے جانتے ہیں کہ خواتین لکھاریوں کا ادب میں جز وقتی یا سطحی مقام نہیں۔ بہت سی ادیب عورتوں نے اپنے منفرد اندازِ تحریر، نسوانی اور نسائی انداز سے ادب کی تخلیقی دنیا میں مقام اور مرتبہ بنایا ہے۔ اگر ہم صرف پاکستانی ادب کو ہی دیکھیں تو شاعری، افسانہ، تنقید و تحقیق اور ادبی جرنلزم کے میدان میں لکھنے والیوں نے اردو، انگلش، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی اور براہوی وغیرہ کو اپنی تصنیفات سے مالا مال کیا ہے۔ یوں بھی آج کے دور میں فیمینسٹ تھیوری مردوں کے صرف اپنے مفاد کے حق میں بنائے گئے کلیوں اور ضابطوں سے انحراف کرتی ہے اور یہ بالکل جائز انحراف ہے۔ یہ انحراف در اصل مردوں کی دنیا اور اس میں عورتوں کے مقام کی فروعی تقسیم کو چیلنج کرتا ہے۔

وہ خاموشی سے میری باتیں سن رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ادب سے دل چسپی کیسے پیدا ہوئی ؟ اس نے بتایا کہ یونی ورسٹی میں آ کر ہی ادبی ذوق پیدا ہوا ہے خاص طور پر جب سے کچھ شعرا کی شعر و شاعری سنی ہے تب سے ادب سے لگاﺅ سا ہو گیا ہے۔میں نے ازرہ مذاق کہا کہ کیا کوئی عشق وشق ہو گیا ہے؟ اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ میں نے کہا اچھا یہ بتاﺅ کہ ادبی اصناف میں کیا پسند ہے۔ اس نے کہا کہ زیادہ شاعری اچھی لگتی ہے ویسے سارے لٹریچر سے لگاﺅ ہے۔ اب تو میں بھی کچھ لکھنا چاہتی ہوں، بہت سا ادب پڑھنا چاہتی ہوں، میں ادب میں بہت سے خواب لے کر آئی ہوں مگر۔۔۔۔ وہ مگر کہہ کر خاموش ہو گئی۔

میں نے کریدا کہ مگر کیا؟ اس نے کہا چھوڑیں۔ میں نے کہا کیا کسی نے کچھ کہہ دیا؟ وہ بولی نہیں بس ایسے ہی ادبی محافل نے کوئی زیادہ متاثر نہیں کیا۔ میں نے از راہ تفنن پوچھا کہ کہیں آپ کا انتخاب تو غلط نہیں ہو گیا؟ اس نے کہا کہ نہیں انتخاب تو ادب ہے، ادب ہی رہے گا۔ مجھے در اصل ابھی تک اس بات کا اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ نالاں کس سے ہے۔ یعنی ادب سے مایوس ہے، ادبی رویوں سے، ادبی کرداروں سے یا پھر ادبی محافل سے۔ جب وہ تھوڑی ڈیفینسو ہونے لگی تو میں نے کہا کہ اچھا یہ بتاﺅ تمہیں ادبی تقریبات کی طرف کون لایا ہے؟ اس نے کہا کہ لایا تو ایک ٹیچر ہے وہ بھی مگر۔۔۔۔ اب ایک بار پھر اس نے”مگر“ کہہ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ مجھے اس کی کچھ کچھ کہانی سمجھ آ گئی۔ میں نے اسے کہا کہ بی بی معاشرے میں اچھے برے کردار ہر جگہ ہوتے ہیں۔ جب آپ اپنے کام سے مطلب رکھتے ہیں تو راستے ہموار ہوئے چلے جاتے ہیں۔

اس نے کہا کہ ادبی محافل میں بھی مرد حضرات عورت کو سر سے لے کر پاﺅں تک دیکھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ کیا ادبی محافل میں مرد حضرات کسی اور دنیا سے تشریف لائیں وہ بھی تو اسی سوسائٹی سے ہیں البتہ عورتوں کو بھی چاہیے کہ مناسب لباس اور سلیقگی کا مظاہرہ کریں، تعلقات گروہ بندیوں اور دوسروں کے سہاروں کی بجائے اپنے پاﺅں پر کھڑی ہو کر طوفانوں کا مقابلہ کریں۔اس نے کہا کہ تم بتاﺅ کہ میں کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض سے لے کر تجدید قیصر تک کس کو فالو کروں؟ میں نے کہا کہ کسی کو بھی نہیں بس اپنا راستہ نکالو۔ اس نے کہا کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عورتیں اچھی تخلیق کار نہیں، زیادہ تر مردوں سے لکھواتی ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ بات تو عورتیں بھی کہتی ہیں کہ بہت سے مرد حضرات خرید کا مال سناتے ہیں۔ اس نے کہا کہ پھر کیا فرق ہے دونوں میں۔ میں نے کہا کہ کوئی فرق نہیں لکھ کر دینے والے اور لکھوانے والے دونوں بد دیانت ہیں۔

اس نے کہا کہ تنقیدی محافل میں لوگ اپنے اپنے دوستوں کی بری سے بری تخلیق کو بھی اعلیٰ ترین ثابت کر دیتے ہیں اور مخالفین کے اچھے شہ پارے کی بھی دھجیاں اڑا دیتے ہیں، یہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ یہ تعلقات کی گیم ہے۔ اس نے کہا کہ ادب تو سنجیدہ آرٹ ہے۔ یہ کوئی کھیل نہیں ہے۔۔۔ تقریب ختم ہوئی۔ وہ چلی گئی۔ اب کئی مہینے ہو گئے ہیں وہ کسی تقریب میں نظر نہیں آئی۔ کوئی ہے جو اس کا پتہ دے۔

یہ صرف روایت کے طور پر کہنے والی بات نہیں کہ عورت کے بارے میں ہمیں اپنے روئے بدلنے ہوں گے۔عام زندگی کی ڈگر جیسی بھی ہو ادب تو سلیقہ اور قرینہ عطا کرتا ہے۔ ادیب کی ذمے داری ہے کہ وہ برے سماجی رویوں کو بدلے اور ان کی نشان دہی بھی کرے۔ سو عورتوں کو اس میدان ادب سے بھگانے کی بجائے ان کو برداشت کریں انہیں آگے بڑھنے کا راستہ دیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ عورت بھی اس سماج کا رنگ ہے، روپ ہے۔

( بشکریہ گردو پیش ملتان)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).