ذہین لوگ تو سنتے ہی نہیں


ہندی سے اردو ترجمہ

ماحولیاتی آلودگی آج سب سے بڑامسئلہ بن گئی ہے ہر شعبہ میں، ہر کلاس وطبقہ کے لوگ اپنے اپنے حساب سے اس کی فکر کرنے میں مگن ہیں مگن اس لئے کہ نہ انجام پتہ نہ اسکیم ترکیب کی خبر۔ بس فکر کر رہے ہیں پورے دل سے اپنی تمام تر طاقت سے اس کی فکر کی جارہی ہے۔ اس مسئلہ سے نبرد آزمائی کی ترکیبیں ہو رہی ہیں۔ لیکن عمل کی بات آتے ہی سب دائیں بائیں ہو لیتے ہیں۔ میرے ایک گہرے دوست بڑے مفکر شاعر ہیں۔ اکثر پان کی دوکان پر فکر کرتے پائے جاتے ہیں۔ ان سے ماحولیاتی آلودگی کی بات چھیڑی تو ایک دم میں وہ مبصر ہوگئے مٹیالے آسمان کی طرف منھ اٹھا کر سگریٹ کا دھواں چھوڑتے ہوئے بولے ’کس آلودگی کی بات کر رہی ہیں محترمہ سیاسی آلودگی، روایتی آلودگی، معاشرت آلودگی، ہسٹریکل آلودگی، جغرافیائی آلودگی، ادبی آلودگی، لٹریریکل آلودگی، تصوراتی آلودگی یاپھر انسانی آلودگی یہاں تو ہر شعبہ پر آلودگی ہی آلودگی پھیلی ہے۔

غنیمت یہ تھی کہ ان کو ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ اتنے ہی نام یاد تھے ورنہ وہ اس معاملے کو ہندی، انگریزی، اردو، سائنس اور ریاضی جیسے مضامین کی آلودگی سے بھی منسلک کر دیتے۔ تو ہم کو ’کھسکو پروگرام‘ کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی نہیں سوجھتا۔ میں نے کھانستے ہوئے اسے سمجھانا چاہا ’بھائی آج یعنی موجودہ عہد میں سب سے بڑی پریشانی ماحولیاتی ہوائی آلودگی کو لے کر ہو رہی ہے۔ کل یگ میں اگر کچھ انتشاری اذہان ہیں تو ان میں سے اسے بھی آتنک وادیوں کا بھائی ہی سمجھنا ہوگا‘ اب وہ دوست شاعر ’گرد گونڈوی‘ ہوائی آلودگی کا احساس کرتے ہوئے گویا ہوئے ’کچھ سنائی نہیں دیا ان آتی جاتی گاڑیوں کی وجہ سے۔ بہت شور ہو رہا ہے‘۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگے ’مگر اس آلودگی نے شور پیدا کر کے اچھا ہی کیا ہے بے مطلب کی چیزیں سنائی نہیں پڑتی ہیں یا پھر سنائی دیتی ہیں تو اپنے کام کی باتیں یا پھر اپنے اندر کی آواز، اپنی روح کی آواز، اپنے ضمیر کی آواز۔ بہتوں کے پاس ضمیر بھی نہیں ہوتا۔ تب انھیں صرف کھوکھلی آوازیں ہی سنائی پڑتی ہیں جن کے دم پر اہسے لوگ گال بجانا شروع کر دیتے ہیں اور سبھی کی ناک میں دم کرنا اپنا شغل سمجھتے ہیں‘ ہم نے شوخی بھرے لہجہ میں دریافت کیا ’بھائی میرے کہیں تمھارا اشارہ دلی والے ’آپ‘ صاحب کی طرف تو نہیں ہے‘۔ گرد گونڈوی ہنستے ہوئے فرمانے لگے‘ ارے محترمہ ان کی کیا بات کروں وہ تو کھیج علوم کے خود ساختہ آلودگی پروفیسر استاد ہیں۔ ‘

ہمیں محسوس ہوا ہم نے بات کو ’آڈ۔ ایون‘ (طاق جفت) سمت میں موڑ دیا ہے۔ سیاست پر بات کرنے میں ہم ہندوستانیوں سے کوئی جیت نہیں سکتا ہے۔ اپنے یہاں دور گاؤں میں رہنے والا کم پڑھا لکھا آدمی بھی سیاست پر گھنٹوں چرچا کرنے میں ماہر ہے اس سے کوئی علم سیاست کا سند یافتہ عالم بحث کرکے دیکھ لے۔ ہمارا دعوی ہے کہ شرطیہ ہار جائے گا۔ جہاں تک ہم گرد گونڈوی کو جانتے تھے وہ سیاسی بحثوں میں محلہ کی نہج پر غیر انعام یافتہ چیمپین ہیں۔ ان سے اس معاملے میں ٹکرانا بھی ویسا ہی تھا جیسے تمام اطراف روک تھام کی تدابیر کے باوجود ملک میں بدعنوانی کی آلودگی پھیلانے والے اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے ہیں۔ یہ بدعنوانی بھی تو ایک قسم کی آلودگی ہی ہے۔

صاف ہندوستان مشن کو ٹھینگے پر رکھنے والے آپ کو گلی گلی میں مل جائیں گے۔ ہمسائی کا فرض ہوتا ہے کہ اپنا کچرا آپ کے دروازے پر پھینکنا۔ اور تو اور آج ملک کی تمام ندیاں آلودہ ہیں۔ سبھی کو ’نمامی گنگے‘ جیسی تدبیر کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم اپنی سوچ نہیں تبدیل کرتے حالات اہسے ہی رہیں گے۔ کسی وقت میں ہمارے ملک کے آچاریہ، رشی، منی علم کی حصولیابی کے لئے دھیان لگانے گھنے جنگلوں میں جاتے تھے۔ آج گھنے جنگلوں کی ہی حفاظتی تدابیر پر کسی کا دھیان نہیں ہے تو ماحول کیسے پاک ہو۔ ہم نے بات آگے بڑھائی اور کہا ’میرے خیال سے تو یہ بڑھتی آبادی ہی ساری آلودگیوں کی بنیادی وجہ ہے۔‘

گرد گونڈوی اس مرتبہ ہماری بات سے متفق نظر آئے۔ گویا ہوئے

’بے تحاشا بڑھتی آبادی کے چلتے سکون تو آج کے وقت میں قبرستان تک میں نہیں ہے۔ پھر زندگی میں کہاں سے آئے۔ ‘

ہم نے ان سے تھوڑا اور اونچا بولنے کا اشارہ کیا تو وہ کہنے لگے۔ ’ اگر سب کی سنی جانے لگے تو کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا اس واسطے سمجھدار لوگ سنتے ہی نہیں ہیں۔ اپنے دل کی کرتے ہیں۔ عوام کا کام تو صدیوں سے شور مچانا رہا ہے۔ سمجھداری اسی میں ہے کہ آپ اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیں۔ باہر کی کوئی آواز اندر نہیں آئے گی۔ ‘

ہم بھی کچھ زیادہ ہی پالیشیونائے (پالیوشن زدہ) ہوئے تھے سو بات مزید آگے بڑھانے کے لئے کہا۔ ’میری سمجھ میں تو ترقی کی راہ پر چلتے تمام کاروباروں کی بہتات ہی مسئلہ کی اصل جڑ ہے۔ ‘

گرد گونڈوی نے پان کی پیک سڑک پر انڈیلتے ہوئے آس پاس کے اصل ماحول پر سرسری نگاہ ڈالی پھر مطمئین ہوتے ہوئے ہندی میں انگریزی کا تڑکا لگاتے ہوئے بولے ’ فکر ناٹ۔ پالیوشن کا فیوچر ہنڈریڈ پرسینٹ سیف ہے۔ این جی اوز جٹے پڑے ہیں۔ انھیں گورنمنٹ کی ہیلپ الگ سے ہے۔ چاروں طرف پالیوشن کنٹرول کے نام پر ورک کرنے والے انسٹیٹیوشنس کی باڑھ آئی ہوئی ہے۔ ‘

ہندی اردو پٹی کی یہ خاص خوبی ہے کہ جب بھی یہاں کے آدمی کو سامنے والے پر امپریشن جمانا ہوتا ہے وہ فوراً انگلش کی آغوش میں پناہ لے لیتا ہے۔ میں نے ٹوکا تب کہیں جاکر اصل حالت میں آئے۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے ’آپ سوچتی ہوں گی کہ کسی بھی طرح کی باڑھ آنے سے تباہی آتی ہے۔ جی نہیں۔ آپ پھر سے غور کیجئے گا یہ وہ باڑھ ہے جس میں الٹے کتنے سارے خاندان آباد ہوجاتے ہیں‘ دولت کی بارش ہوتی ہے۔ کاغذ پر پودھے بوئے جاتے ہیں سوکھے میں بھی کشتیاں چلائی جاتی ہیں۔ ‘ گرد گونڈوی کے منہ کی چمنی دھواں دھار لیکچر اگل رہی تھی۔ میرے صبر کا بند بھی ٹوٹ رہا تھا۔ میں نے سلام کیا اوروہاں سے وداع لی کیونکہ ان کے سینے کی جلن اور آنکھوں کے طوفان کی آلودگی کا پارہ میرے دماغ کی اوزون سطح پر اب ایک بڑا چھید بنانے ہی والا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).