سلطنتِ میڈیا کے کمال کے اسباب


ہر کچھ دنوں بعد میڈیا پھر کوئی ایسی حرکت کردیتا ہے کہ کوئی نا کوئی پھر چیخ اٹھتا ہے۔ بدتمیز میڈیا، کیسے کیسے جاہل بھرے پڑے ہیں، نا چادر اور چاردیواری کا خیال، نا وقت اور مقام کی نزاکت کا احساس، جدھر منہ اٹھا کیمرے سمیت گھس گئے، بیڈ روم ہو کہ آپریشن تھیٹر۔ انگریزی اتنی کمزور کہ آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ کے فرق سے بھی نابلد۔

اب دیکھو کل ہی کوئی رپورٹر لائیو بتا رہا تھا کہ مسٹر رنجور فراشی نے آف دی ریکارڈ بتایا کہ ان کی بیوی نے طلاق کی رٹ دائر کردی ہے۔ یہ تک تمیز نہیں کہ کانفیڈینشل کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ کیسے منہ بھر کے کہہ دیتے ہیں کہ ایس ایس پی ڈھولک پور ویسٹ نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ایک چوتھائی پولیس وی آئی پی پروٹوکول ڈیوٹی میں جھونک دی گئی ہے۔ ذرا ڈانٹو ڈپٹو یا سختی سے منع کرو تو واویلا مچا دیتے ہیں کہ مار ڈالا مار ڈالا، آزادیِ صحافت خطرے میں پڑ گئی۔ نوبت با ایں جا رسید کہ پہلے لوگ پولیس سے ڈرتے تھے اب پولیس کیا ہر ادارہ، فرد اور روایت میڈیا کے سامنے گھگھیاتی ہے۔ ایک معمولی کیمرہ مین سے پوچھنا پڑتا ہے کہ حضور کی اجازت ہو تو کیا میں اس ملزم کو اب پکڑ لوں یا آپ کو کچھ اور شاٹس درکار ہیں۔

سوال یہ ہے کہ میڈیا منہ زور، بدتمیز، سفاک، جاہل، خود غرض، بیہودہ، مداری ( جو بھی آپ کہہ لیں ) کیوں بنا۔ حالانکہ اس آزاد میڈیا کی عمر محض گیارہ برس ہے۔ عام طور سے اس عمر کے بچے جو بھی اچھا برا کرتے ہیں، لوگ اس کا ذمے دار والدین اور ان کی تربیت کو ٹھہراتے ہیں۔ واہ واہ ماشاللہ کیا ذہین اور با ادب بچہ ہے، یقیناً اچھے خاندان کا ہے۔ ارے توبہ توبہ کس قدر بیہودہ بچہ ہے۔ ہاں میاں جب گھر والے توجہ نا دیں اور اپنے حال میں مست ہوں تو اولاد اسی طرح بے لگام ہوجاتی ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

ایسا اگر ہوا تو کیونکر ہوا اور اس بے لگامی کا ذمے دار بس میڈیا ہی ہے یا اور بھی کوئی ہے۔ کیوں نا ذمے دار تلاش کرنے کے لیے تھوڑی سی مٹر گشت کرلیں؟

وہ کون ہیں جو عوام کے دکھ درد بانٹنے کے نام پر اجلاس، جلسہ، جلوس یا پریس کانفرنس منعقد کرتے ہیں۔ مگر کئی گھنٹے سے مجتمع اپنے درجنوں یا سیکڑوں یا ہزاروں حامیوں کو شدید موسم میں اس وقت تک نعرے لگواتے رہتے ہیں جب تک پہلا کیمرہ نمودار نا ہوجائے۔ اور تلاوتِ کلام پاک سے تقریب کا آغاز بھی تب ہوتا ہے جب نشریاتی جھمگھٹے میں موجود سب سے بڑی ڈی ایس این جی کا نگران اوکے کا انگوٹھا نا دکھا دے۔

اور وہ کون ہیں جو محلے کے لونڈوں بالوں سے کہتے ہیں کہ ابے ٹائر سڑک پر رکھ دو لیکن خبردار تب تک آگ نا لگانا جب تک سات جیبوں والی خاکی جیکٹ والا دکھائی نادے جاوے۔ اور جناب ایس ایچ او صاحب اتنی بھی کیا جلدی ہے، آپ کو۔ جیسے ہی فلانے فلانے فلانے اور فلانے چینل کا صحافی پہنچتا ہے۔ آپ کی دعا سے وکٹری کا نشان بناتے بناتے فٹ سے گرفتاری دے دوں گا۔ کیا کریں جی کرنا پڑتا ہے، لوگوں کے لیے۔

اور وہ کون ہیں جو حکومت کو چوبیس گھنٹے میں مزا چکھانے کا الٹی میٹم تو آسانی سے دے دیتے ہیں، امریکا اور بھارت کے لتے بھی خوب لے لیتے ہیں۔ مگر کسی بھی تقریب میں سب سے پہلی قطار سے بھی آگے لائن بنا کر کھڑے ہونے والے اکیس کیمرہ مینوں سے یہ تک نہیں پوچھ سکتے کہ بھیا اگر آپ کے کیمرے میں زوم ان زوم آؤٹ کی سہولت ہے تو پھر آخری رو کے پیچھے کھڑے ہو کر بھی آپ تقریب فلما سکتے ہیں۔

میزبانوں کو خوف ہوتا ہے کہ کہیں یہ بات کسی نازک مزاج میڈیا پرسن کو ناگوار گزر گئی تو پھر صرف یہی پٹی چلے گی کہ آل پاکستان گھامڑ ایسوسی ایشن کے اجلاس، جلسے، جلوس یا پریس کانفرنس میں بد نظمی کے مناظر۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کیمرہ مین تو براہِ راست اسٹیج دیکھتے ہیں اور ان کی سیسہ پلائی ”پشتینی“ دیوار کے پیچھے بیٹھے تمام حاضرین کو کیمرہ مینوں کی تشریفات کے سوا کچھ دکھائی یا سجھائی نہیں دیتا۔ چنانچہ وہ چائے کے وقفے سے پہلے پہلے اپنے ہی خون کا ایک ایک مگ پی چکے ہوتے ہیں۔

اور وہ کون ہیں جو جس قدر بدتمیز ہو اسے اسی قدر مراعات، مواقع، خبریں، دورے، پلاٹ، ایکسکلوسئیو، اسکوپ، حج، عمرے، امدادی رقوم، سرکاری و نجی سواریاں، ہیلی کاپٹرز کے چکر، بریکنگ نیوز اور تمغے عطا کرتے ہیں اور ایک خبری بوٹی دینے یا اپنا نام مشتہر کرانے کے عوض معلومات کا پورا بکرا حلال کروا دیتے ہیں۔ پھر بھی اتنا کچھ کرنے کے باوجود فوائد وصول کرنے والے کی نگاہِ کرم کے دست بستہ محتاج رہتے ہیں اور اگر کوئی اس بے چارگی پر اعتراض کرے تو یہ کہہ کر خود کو ٹھنڈا کرلیتے ہیں کہ چھڈو جی دفع کرو۔ اپنا ای منڈا اے۔ دوجے تے ایدے نالوں وی ودھ نے۔ (چھوڑو جی دفع کرو۔ اپنا ہی لڑکا ہے۔ دوسرے تو اس سے بڑھ کر ہیں۔)

اور یہ پیمرا؟ کیا یہ سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا یا دیکھتی ہے ( آج تک اقوامِ متحدہ کی طرح مجھے پیمرا کی جنس بھی سمجھ میں نہیں آئی ) یا پھر اس کے ہاں گدھوں گھوڑوں کی الگ الگ فہرستیں، امتیازات و سہولیات ہیں۔

قانون؟ کون سا قانون نہیں ہے یہاں۔ ہتکِ عزت کے دعوے کی سہولت سے لے کر قانونِ احتساب، رائٹ ٹو پرائیویسی تک کیا نہیں۔ لیکن جنھیں اپنی ہیڈ لائنز لگوانے کی فکر ہو وہ ذرا قانون نافذ تو کرکے دکھائیں اور جنھیں اپنے بیانات چھپوانے، اپنے نام سے کالم لکھوانے اور ٹاک شوز میں شرکت کی آکسیجن درکار ہو، وہ جائیں تو سہی ایک دفعہ کسی کے خلاف بھی دعویٰ لے کر کسی ایوان کا دروازہ کھٹکھٹانے۔ ان کے اپنے ہی روک لیں گے کہ کیا غضب کررہے ہو، کن بھڑوں سے پنگا لے رہے ہو، دماغ تو ٹھیک ہے۔ انصاف تو خود کوریج کا پیاسا ہے۔

حالانکہ جو معاشرے آزادیِ اظہار کے ہراول ہیں۔ جہاں سب سے پہلے اخبارات شایع ہونے شروع ہوئے، جہاں پہلی ریڈیو یا ٹی وی نشریات جاری ہوئیں وہاں بھی پریس کمپلین کمیشن نامی جانور کسی نا کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔ لیکن آج تک یہاں کوئی پریس کمپلین کمیشن نہیں بن پایا۔ بننا تو دور کی بات کسی نے اس کے بارے میں سوچنے کا بھی نہیں سوچا۔ کیونکہ سب کو اندازہ ہے کہ مذہب اور میڈیا کی حرمت کے نام پر جو چاہیں کر گزریں۔ سب چلتا ہے۔

میں رمضان بھر یہی سنتا رہا کہ ہائے ہائے ہائے فلاں فلاں پروگرام کس قدر جاہلانہ ہے۔ فلاں کس طرح مذہب کو فروخت کررہا ہے۔ ارے اسے دیکھا کیسے وہ مہمانوں سے توہین آمیز سلوک کررہا تھا۔ ارے بھئی لاحول۔ اب تو سب نے ہی بھیڑ چال شروع کردی ہے۔ کچھ ناظرین نے پروگرام کو گالیاں دیں۔ کچھ اسکرین بینوں نے ان کے اینکرز کے ناقابلِ اشاعت شجرے بک دیے۔ ایک آدھ اینکر نے اس موضوع پر بھی شو کرلیا کہ دیکھو دیکھو سادہ لوح ناظرین کو کیسا کیسا مداری پن دیکھنا پڑ رہا ہے۔

مگر یہاں سے وہاں تک کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ جو کچھ بھی اچھا برا دکھایا جا رہا ہے اس کا ذمے دار محض کسی پروگرام یا اس کے اینکر کو ٹھہرانا لایعنی بات ہے۔ اگر میڈیا ہاؤس نا چاہے تو کچھ بھی خلافِ منشا و مرضی نشر نہیں ہوسکتا۔ اور اگر کسی سے پوچھ لو کہ بھائی صاحب اس پھکڑ پن کی ابتدا کس نے کی تو وہ فوراً دوسرے کی جانب انگلی اٹھا دے گا کہ وہ۔ اور آپ؟ جی میں تو اس وقت سبزی لینے گیا تھا۔ واپس آیا تو معلوم ہوا کہ مارکیٹ میں نیا فیشن اب یہ ہے۔ چنانچہ مجبوراً ہمیں بھی شروع کرنا پڑا۔ آخر ہمیں بھی تو اسی بازار میں کاروبار کرنا ہے نا جی۔

تو پھر بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون؟ جب سب ہی کے گلے میں شہرت اور شہرت کے بل پر مایا کی بھوک کی گھنٹیاں بندھی ہوں۔ میں نے تو آج تک نہیں سنا کہ کسی بلی نے اپنے گلے میں خود ہی گھنٹی باندھ لی ہو۔ پھر بھی ایسی توقعات رکھنے میں حرج ہی کیا ہے؟ توقعات تو ویسے بھی رکھنے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔

پیر 19 اگست 2013


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).