کسی کو گاما یاد ہے؟


اس برِ صغیر نے کیسے کیسے نادرِ روزگار پیدا کیے جنہوں نے اس خطے کا نام باقی دنیا کے عام آدمی تک پہنچانے میں زندگی کھپا دی مگر آج لگتا ہے گویا یہ نامور تاریخ چھوڑ اجتماعی یادداشت سے بھی مٹ چکے ہیں۔

قریباً دو برس پہلے میں نے اسی صفحے پر راجہ صاحب محمود آباد کے بارے میں لکھ کے نئی نسل کے لیے یہ اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی کہ مسلم لیگ کی جتنی مالی اعانت اتر پردیش کی ایک چھوٹی سی ریاست کے اس حکمران نے کی وہ لیگ میں شامل تمام جاگیرداروں اور امرا کی مجموعی اعانت سے کہیں زیادہ تھی۔راجہ صاحب ریاست محمود آباد کی سالانہ آمدنی کا ایک حصہ اپنے اخراجات کے لیے الگ کر کے باقی روپیہ آل انڈیا مسلم لیگ کو دے دیتے تھے۔یہ پیسہ سن انیس سو چالیس سے چھیالیس تک ہندوستان کے طول و عرض میں پیغامِ پاکستان کی تحریک عام کرنے میں صرف ہوا۔اس کے عوض راجہ صاحب نے پاکستان بننے سے پہلے یا بعد میں اپنے لیے کوئی سہولت یا عہدہ طلب نہیں کیا اور ستر کے عشرے میں لندن میں خاموشی سے وفات پا گئے۔بہت عرصے بعد جب وفاقی حکومت کی ایک ثقافتی کمیٹی کے اجلاس میں کسی نے راجہ صاحب کے نام پر کوئی یادگار بنانے کی تجویز پیش کی تو ایک بیوروکریٹ نے حیرت سے پوچھا ’’اے کون اے‘‘۔

آج میں ایک اور ہستی کا ذکر کرنے کی جرات کر رہا ہوں۔جس کے بارے میں نئی نسل بھی یہی پوچھتی ہے ’’اے کون اے‘‘ ۔اس شخصیت کا سیاست سے دور دور کا لینا دینا نہیں۔مگر وہ اپنے زمانے میں جسمانی طاقت کے اعتبار سے ہندوستان کا تعارف بن گیا۔چون برس پہلے تک بچہ بچہ اسے جانتا تھا۔ دنیا کا ہر پہلوان اس کے سامنے آنے سے کتراتا رہا۔یہ شخصیت ہے رستمِ ہند و رستمِ زماں غلام محمد گاما جنھیں گاما پہلوان کے نام سے دنیا پہچانتی تھی۔ان کے بھائی امام بخش بھی رستمِ ہند بنے (امام بخش کے صاحبزادے منظور حسین عرف بھولو پہلوان سے تو شائد اب بھی بہت سے لوگ واقف ہوں)۔

گاما صاحب نسلاً کشمیری تھے اور ان کی پیدائش بائیس مئی اٹھارہ سو اٹہتر کو امرتسر میں ہوئی۔دس برس کی عمر سے نمائشی کشتی شروع کردی اور موجودہ مدھیہ پردیش کی ایک چھوٹی سی سابق ریاست داتیا کے مہاراجہ بھاوانی سنگھ نے انھیں اپنی سرپرستی میں لے لیا۔اس کے بعد گاما نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

باون برس کے کیرئیر میں سیکڑوں کشتیاں لڑیں مگر مسلسل ناقابلِ تسخیر رہے۔وہ کوئی لحیم شحیم شخص نہیں تھے۔قد محض پانچ فٹ سات انچ تھا مگر لحیم شہیم مدمقابل ان کے زیادہ قریب لگنا پسند نہیں کرتے تھے۔گاما نے زندگی بھر دنیا بھر کے عظیم پہلوانوں سے پنجہ آزمائی کی مگر کسی کو اپنا ہم پلہ مانتے تھے تو رستم ِ ہند  رحیم بخش سلطان والا کو۔ان سے گاما کی پہلی کشتی بے نتیجہ  ثابت ہوئی۔مگر الہ آباد میں سن بیس میں ہونے والی دوسری کشتی میں چت کر کے رستمِ ہند کا خطاب اور گرز حاصل کر لیا۔لیکن اس کامیابی سے کہیں پہلے انیس سو دس میں وہ رستمِ زماں بن چکے تھے۔یہ تب ہوا جب وہ اس سال اپنے چھوٹے بھائی امام بخش کے ہمراہ مغربی پہلوانی کے مرکز لندن پہنچے اور اعلان کیا کہ وہ ایک دن میں بارہ پہلوانوں سے پنجہ آزمائی کرنا چاہتے ہیں۔اگر ایک سے بھی ہار گئے تو پہلوانی چھوڑ دیں گے۔مگر پہلوانی چھوڑنے کی نوبت کبھی نہ آئی۔

گاما نے اپنی عالمی شہرت کا سب سے اہم سنگِ میل دس ستمبر انیس سو دس کو عبور کیا جب انھوں نے لندن میں جان بل ورلڈ چیمین شپ میں اس وقت کی گریکو رومن کشتی کے بے تاج بادشاہ پولش نژاد اسٹینسلاس زبسکو کو چیلنج کیا۔زبسکو نے چیلنج قبول کر لیا۔میچ کے دوسرے منٹ میں گاما نے زبسکو کو ایک ایسا داؤ لگا کے فرش پر لاک کردیا جو بقول زبسکو اس نے پہلی بار کسی کو لگاتے دیکھا تھا۔گاما نے زبسکو کو اس داؤ تلے مسلسل دو گھنٹے پینتیس منٹ تک دبائے رکھا اور میچ ڈرا ہوگیا۔

اگلے فیصلہ کن میچ سے پہلے زبسکو نے اعلان کیا کہ وہ اکھاڑے میں نہیں اترے گا، یوں ایمپائر نے گاما کو واک اوور دے دیا اورانھیں ڈھائی سو پونڈ کا انعام رستمِ زماں (ورلڈ چیمپین) کی سند کے ساتھ عطا ہوا۔اس کے بعد بھی گاما ہر یورپی پہلوان کو کھلا چینلج دیتے رہے مگر کوئی سامنے نہ آیا۔لگ بھگ اٹھارہ برس بعد جنوری انیس سو اٹھائیس میں ریاست پٹیالہ میں ہونے والی عالمی ریسلنگ چیمپئن شپ میں زبسکو نے گاما سے ورلڈ چیمپین میڈل جیتنے کے لیے کشتی لڑنے کا اعلان کیا۔میچ شروع ہونے کے ایک منٹ کے اندر ہی گاما نے زبسکو کی کمر زمین سے لگا دی۔اس کے بعد زبسکو کا نام کسی نے نہیں سنا۔

گاما کی خوش خوراکی اور محنت کی شہرت بھی افسانوی داستان معلوم ہوتی ہے۔روزانہ تین ہزار ڈنڈ اور پانچ ہزار بیٹھکیں اور پھر بیس شاگردوں سے پنجہ آزمائی۔ چار گیلن دودھ، تین پاؤ بادام کا آمیزہ ان کے خوراکی مینیو کا لازمی حصہ تھا۔

سابق ریاست بڑودہ جو اب بھارتی گجرات کا حصہ ہے وہاں کے میوزیم میں بارہ سو کلو گرام کا ایک پتھر رکھا ہوا ہے جس پر درج ہے کہ یہ پتھر مانڈوی کے نذر باغ پیلس میں غلام محمد گاما نے اپنے سینے اور ہاتھوں کی طاقت سے بتاریخ تئیس دسمبر انیس سو دو کو اٹھایا تھا۔(اسوقت گاما کی عمر چوبیس برس تھی)۔ کئی برس بعد جب یہ پتھر بڑودہ میوزیم منتقل کیا گیا تو اسے موجودہ جگہ رکھوانے کے لیے کرین استعمال کرنا پڑی۔(گاما نے اپنے کیرئیر کا ایک بڑا وقت بڑودہ میں بھی گزارا)۔

تقسیم سے ذرا پہلے گاما خاندان لاہور منتقل ہوگیا اور موہنی روڈ پر رہائش پذیر ہوا۔فسادات کے دوران محلے کے ہندو باسیوں نے بھارت منتقلی کا فیصلہ کیا۔صرف ایک بار ایسا ہوا کہ کچھ مسلمان بلوائیوں نے ہندوؤں کی تلاش اور املاک پر قبضے کی نیت سے اس علاقے کا رخ کیا۔گاما نے اپنے پہلوان شاگردوں کو جمع کیا اور بلوائیوں کے سامنے کھڑے ہوگئے۔بلوائیوں کا سرغنہ غالباً گاما سے ناواقف تھا اس نے جب دھمکی آمیز لہجہ اپنایا تو گاما نے اسے ہاتھوں پر اٹھا لیا اور وہ اڑتا ہوا دوسری جانب جا گرا۔ اس کے بعد مجمع آناً فاناً چھٹ گیا۔اس واقعے کے ہفتے بھر بعد ہندو باسیوں کا قافلہ روانہ ہوا۔گاما اپنے شاگردوں کے ہمراہ سرحد تک چھوڑنے گئے اور بطور زادِ راہ قافلے کے لیے ہفتے بھر کا راشن بھی ساتھ کیا۔اس لمحے پہلی بار گاما کی آنکھوں میں نمی دیکھی گئی۔

عمر کے آخری برسوں میں گاما کی صحت جواب دینے لگی۔دمے اور دل کے عارضے نے انھیں گھیر لیا۔معروف ہندوستانی صنعت کار جی ڈی برلا نے ازراہِ قدر دانی دو ہزار روپے اور تین سو روپے ماہانہ بھجوانے کا بندوبست کیا جب کہ پاکستانی حکومت نے ان کے علاج معالجے کا خرچہ اٹھایا۔آخر کو وہ متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد دونوں ممالک کی مشترکہ میراث جو ٹھہرے تھے۔

کیا عجب بات ہے کہ ان کی تاریخِ پیدائش بائیس مئی ہے اور ٹھیک بیاسی برس ایک دن بعد تئیس مئی انیس سو ساٹھ کو ان کا انتقال ہوا۔مگر پہلوانی کی روایت امام بخش کی اولاد کے توسط سے اگلی تین نسلوں تک برقرار رہی۔یہ ایک ہی خاندان تھا جو اپنی میراث نسل در نسل منتقل کرتا رہا۔اب کوئی ایسا نہیں۔

رستم ِ زماں غلام محمد گاما یا ان کے بھائی رستمِ ہند امام بخش یاان کے صاحبزادے منظور حسین بھولو رستمِ پاکستان کے نام پر اگر آپ کو کوئی سڑک، اسپورٹس کمپلیکس، باغ، چوک، پل یا عمارت کہیں بھی دکھائی دے یا کسی بھی چینل پر ان میں سے کسی کی بھی سالگرہ یا برسی پر کسی پروگرام کا ریکارڈ میسر ہو تو اس فقیر کو بھی مطلع کیجیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).