ڈو مور کا اگلا گرم آلو


دنیا بھر میں جاری دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد ڈومور کا اگلا گرم آلو فیس بک کے ہاتھوں میں آنے کی امید ہے۔ مغربی ممالک نوٹ کر رہے ہیں کہ ان دھماکوں اور وارداتوں میں جو لوگ استعمال ہوئے وہ اچھے خاصے پڑھے لکھے تھے اور ان میں سے بعض تو باقاعدہ ایک عمر سے وہیں آباد تھے۔ جب خبر دینے والوں کے پاس کوئی معقول وجہ نہ رہی تو بنیاد پرستی کو پروموٹ کرنے کا بکرا سوشل میڈیا کو بنایا گیا اور تمام واقعات کے تانے بانے یہاں لا کر جوڑے گئے۔ ٹرمپ نے سعودی عرب کے حالیہ دورے میں یہ ذمہ داری مسلم ممالک کو سونپ دی جب کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے اسے ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سر مڑھنا چاہ رہی ہیں۔ ان کے خیال میں شدت پسندی کی جنگ میدانوں سے اٹھ کر انٹرنیٹ کے بادلوں میں سما چکی ہے اور سوشل میڈیا کو لگام ڈالنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ سات بڑی عالمی طاقتوں – جی سیون کے اگلے اجلاس میں یہ ایجنڈا زیر غور لایا جائے گا کہ فیس بک، گوگل یا ٹوئٹر کو سمجھایا کیسے جائے کہ بابا یہ سارے فساد کی جڑ جو مواد ہے اسے پھیلانے والوں کو روکو، ان پر پابندیاں لگاؤ یا انہیں بلاک شلاک کرو۔

انٹرنیٹ ایک آزاد میڈیا فورم ہے۔ یہاں سلاد بنانے سے لے کر خود کش جیکٹ تک بنانے کے طریقے موجود ہیں۔ یہاں ہر مذہب کے مبلغ اپنے اپنے مریدوں کو تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ جو کچھ کہنا ہے ورڈ پریس پر اپنا اکاؤنٹ بنائیے اور اسے پوسٹ کر دیجیے۔ ٹوئیٹر ہے، فیس بک ہے، انسٹاگرام ہے، بھانت بھانت کا جناور ادھر موجود ہے، اپنی اپنی بولی بول کر سونے چلا جائے گا۔ فی الوقت اسے روکنے والی فائنل اتھارٹی خود ان کمپنیز کے مالکان ہیں۔ اگر کوئی بھی حکومت سرکاری طور پر اس لانجھے میں آتی ہے تو یہ آزادی اظہار رائے کے ساتھ مینڈھوں والی ٹکر ہو گی جو سر سے ماری جاتی ہے اور مغرب اس بات کو سمجھ چکا ہے۔

وہ لوگ سوشل میڈیا کو ایک شتر بے مہار تسلیم کر چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ کنٹرولڈ صحافت کے مقابلے میں عام آدمیوں کے اکاؤنٹس پر لکھی جانے والی ایک سطر زیادہ معتبر سمجھی جانے لگی ہے، چاہے وہ غلط ہو یا اس میں کوئی سچائی موجود ہو۔ ان کے خیال میں دنیا کے بڑے ممالک کا اتحاد سوشل میڈیا والوں کو ناک نیچی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ فی الوقت ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نقصان دہ مواد کیسے روکا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایسا نازک سوفٹ وئیر بنے جو سونگھ کر بتا دے کہ یہ جو اپ لوڈنگ ہوئی ہے، اس میں کچھ گڑبڑ ہے اور اسی وقت اس فائل کو ڈیلیٹ کر کے انٹیلی جنس والوں کو خبر دی جائے کہ لیجیے سرکار حامل فائل ہذا کا یہ نام پتا یا آئی پی ایڈریس ہے، اب معاملہ آپ سنبھالیے۔ عملی طور پر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔

سوشل میڈیا کو عام لوگوں نے اس لیے گلے سے لگایا کہ یہاں وہ اپنے آپ کو ویسا پیش کر سکتے تھے جیسا وہ چاہتے تھے۔ بالمشافہ ملنے اور سوشل میڈیا پر دکھائی دینے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایک شخص جو عام حالات میں شدید انٹروورٹ ہے، جھینپو سا ہے، نظریں نیچے کیے بیٹھا رہتا ہے، دس بارہ بندوں کے بیچ میں بول نہیں سکتا، سوشل میڈیا کے طفیل وہ اپنے سات آٹھ ہزار دوستوں اور فالوورز کو بھاشن دے رہا ہوتا ہے۔ اور ایسے یقین اور اعتماد کے ساتھ دیتا ہے جیسے کائنات کی سب سے بڑی آفاقی سچائی اسی کی بغل میں ہے، جو چاہے گا نکالے گا، جو چاہے گا چھپا لے گا۔ تو شروع شروع میں ہنسی مذاق کے طور پر لیا جانے والا یہ کھیل مکمل طور پر سنجیدہ اس وقت ہوا جب حکومتوں نے دیکھا کہ یہاں سرحدیں اثر پذیری میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتیں۔ اب کسی کو روس، افغانستان، اسرائیل یا امریکہ جا کر ٹریننگ لینے کی ضرورت نہیں ہے، جو کچھ سیکھنا سکھلانا ہوتا ہے گھر بیٹھے بیٹھے ممکن ہو جاتا ہے۔ بلکہ اب تو یہاں تک ہے کہ دہشت گرد گھر بیٹھے سیکھتے ہیں اور انہیں روکنے والی این جی اوز کے دورے ختم نہیں ہوتے۔ وہ لوگ بے چارے بڑے بڑے ملکوں کے پنچ ستارہ ہوٹلوں میں بیٹھے ہلکان ہوتے رہتے ہیں اور ادھر کرنے والے اپنا کام کیے جاتے ہیں۔

تو تھنک ٹینک یہ تاثر لے رہے ہیں کہ دور دراز ملکوں کی جن جنگوں میں وہ اپنی سرحدیں محفوظ سمجھتے ہوئے شامل ہوئے تھے وہ اب سوشل میڈیا کے طفیل ان کے اپنے گھروں میں پہنچ چکی ہیں۔ وار آن ٹیرر کلیشے بن چکا ہے اور پاگلوں کی طرح اسلحہ استعمال کرنا مسئلے کو حل نہیں کر رہا۔ کچھ ایسا کرنا ہے جو انٹرنیٹ کی لڑائی میں کام آئے۔ یہ خیال لندن اور مانچسٹر میں پیش آنے والے حالیہ دو واقعات کے بعد مزید پکا ہو گیا۔ وہ جس آدمی نے لندن میں معصوم لوگوں پر ٹرک چڑھا دیا تھا، اس کے رابطے بھی سوشل میڈیا پر تخریبی عناصر سے پائے گئے اور ابھی مانچسٹر میں پھٹنے والے کی سب کڑیاں بھی یہیں آتی نظر آ رہی ہیں۔ صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گوگل، فیس بک یا ٹوئٹر اگر اب رضاکارانہ طور پر دہشت گردوں کے اکاونٹس چیک کرنے پر کام نہیں کرتا تو یہ حکومتیں انہیں قانونی دائرے میں لانے کے لیے مل بیٹھنے والی ہیں اور باقاعدہ سزا و جزا کا سین شروع ہو جائے گا۔ اور یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہر بڑی طاقت آن لائن جنگ کو اپنے ہاتھوں سے نکلتا ہوا محسوس کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر کسی بھی بڑی خبر کے نیچے کیے جانے والے کمنٹس ملاحظہ کر لیجیے، ہر قدامت پسند اپنی مرضی کی تاویل دینے کے لیے آزاد ہے اور وہی تاویلات دماغوں کو بدلنے کے ہتھیاروں میں اہم ترین ہیں۔

پاکستان میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر قابو پانے کی حالیہ کوششیں اسی سلسلے کی اہم کڑی ہیں۔ ٹیررازم معاملات میں بین الاقوامی طور پر جو کچھ پکایا جا رہا ہوتا ہے اس کی آنچ چھوٹے ملکوں اور خاص طور پر ایسے علاقوں میں پہنچنا ضروری ہوتی ہے جو شروع سے یہ سب کچھ ایک مرکز کے طور پر بھگتتے آئے ہیں۔ یہ لہر کوئی نئی نہیں ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ سوشل میڈیا کو پچھلے ڈیڑھ دو برس سے غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں۔ اس سے متعلق مختلف تجزیوں کے لیے الگ سیکشن موجود ہیں، تمام حرکیات کو باریکی سے دیکھا جاتا ہے اس میں شدت البتہ امسال مارچ سے آئی ہے۔ تو پاکستان میں وزیر داخلہ جو بیان دیتے ہیں اس میں سے اگر سلیس اردو کے دو چار لفظ نکال کر دیکھا جائے تو یہ سب وہی ہے جو اس وقت پوری دنیا میں چل رہا ہے۔ ہاں سوشل میڈیا پر فکری تبدیلی چاہنے میں باہر والوں کے نزدیک صرف بنیاد پرستی اہم ہے جب کہ ہم عدلیہ، ہئیت مقتدرہ اور عقیدوں کی بحث بھی اس میں شامل کر کے اس کا دائرہ اتنا وسیع کر دیتے ہیں کہ جسے سمیٹنا عملاً ممکن نہیں ہے۔ بے شک یہ ہمارے اہم زمینی مسائل ہیں مگر لوکل مفاد کی حکمت کو عالمی معاملات کی انگلی پکڑا کر چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ضیا دور سے مشرف تک اس دوعملی کا نتیجہ بارہا ہمارے سامنے آیا ہے۔ اگر اس وقت بھی بنیادی فکر کو تبدیل کرنے کی بجائے اس میں سیاسی ترجیحات لپیٹی جائیں گی تو جو لوگ میڈیا مانیٹرنگ کر رہے ہیں چاہے وہ لندن میں ہوں یا ریاض میں، انہیں یہ جاننے میں دیر نہیں لگے گی کہ کون کیا کشید کرنا چاہ رہا ہے۔

بلا شک و شبہ تمام ملکی اداروں کا احترام سر آنکھوں پر ہونا چاہئیے۔ ان کی مخالفت ہی بغاوت کو جنم دیتی ہے لیکن سوشل میڈیا ہمارے ہاں ایسی چوپال بن چکی ہے جہاں بوڑھے اور جوان اپنے اپنے جلے دلوں کے پھپولے پھوڑتے ہیں۔ زبان غیر محتاط نہ ہو تو کتھارسس کے لیے کسی حد تک اس سے بہتر کوئی فارمولا نہیں۔ اندر ہی اندر پکنے کی بجائے زخم بہہ نکلے تو ٹھیک بھی ہو جاتا ہے۔ دیکھنے والوں نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب دیواروں پر سرخ سلام قسم کے پوسٹر لگانے کے چکر میں کامریڈ لوگ تین تین برس کی بامشقت مہمان نوازی کرواتے تھے۔ ویلا او وی نئیں ریا، ویلا اے وی نئیں رینا!

فاعتبروا یا اولی الابصار۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain