رمضان کے لیے وہ ناممکن مشورے جس پر آپ عمل نہیں کریں گے


اس رمضان کی جو جھلک ہم نے پچھلے کالم میں دکھانے کی کوشش کی وہ ہمارے بہت سے دوستوں کی طبع نازک پر گراں رہی۔ اکثر کی ناگواری اور غصہ اس حوالے سے تھا جو فسانے میں مذکور ہی نہیں تھا۔ طنز نہ مذہب پر تھا نہ ماہ مقدس پر۔ یہ تو لوگوں کے طرز عمل کی ایک تصویر تھی۔ پر جس جس کی داڑھی کے تنکے گنے گئے ان کا مزاج خوب برہم ہوا۔ تنقید میں تعمیر کی جو رمز پنہاں تھی وہ یاروں پر عیاں نہ ہوئی۔ کچھ نے اپنا زور مغلظات پر رکھا، کچھ نے ایمان کو تولنا شروع کر دیا، کچھ کے خیال میں مجھے یہ حق ہی نہیں تھا کہ میں اس حوالے سے کچھ لکھتا۔ اس سب کے بیچ مجھ پر تنقید برائے تنقید اور طنز برائے طنز کے لیبل چپکا دیے گئے اور ہاتھ نچا نچا کر پوچھا گیا کہ بات کی ہے تو حل بھی بتاؤ نہیں تو چپکے بیٹھو۔ ہمارا خیال تھا کہ بیس کی بیس پیش گوئیوں میں حل موجود تھا پر شاید چشم بینا کے بارے میں ہمارے اندازے سراسر غلط تھے۔ ہم جو جنس کمیاب سمجھے تھے وہ نایاب نکلی۔

امید تو یہی ہے کہ اس مضمون کے جواب میں بھی ہمیں مشورہ دیا جائے گا کہ یا تو ہم اپنے گریبان میں جھانکیں اور جب تک رمضان ختم نہ ہو گردن تیس درجے کے زاویے پر ہی رکھیں یا پھر کہ ہم مفتی بننے کی کوشش نہ کریں اور ’جس کا کام اس کو ساجھے ‘ روزانہ سو دفعہ بدخط تحریر کریں۔ بہرحال ہم نے پہلے کونسا زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہے کہ اس دفعہ خاموش رہ کر سو سکھ مول لیں۔ ہمیں نہ دعویٰ پارسائی ہے نہ ہی عقل کی ٹھیکیداری ہمارے پاس ہے۔ پر منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ اور لب ابھی آزاد ہیں۔ ہم پر پتھر پھینکنا آسان لگے تو سو بسم اللہ پر ساتھ ساتھ جو بات کہی ہے اسے بھی غلط، جھوٹ، سازش وغیرہ وغیرہ ثابت کر دیجیے تو سونے پر سہاگا ہو جائے گا۔

بات بڑھانے کو بہت بڑھ جائے گی اس لیے اسے پکڑ لیتے ہیں۔ مضمون دوبارہ دیکھ لیجیے۔ چونکہ آپ کے نزدیک بیس نکات محض تنقیدی تھے اس لیے ہم آپ کے ذہن رسا کو مہمیز کرنے پر اصرار نہیں کرتے۔ خود ہی بین السطور موجود حل اسی ترتیب سے آپ کی نذر کر دیتے ہیں۔ گر قبول افتد زہے عزوشرف۔

1۔ رویت کا جھگڑا بالکل لایعنی ہے۔ اچھا لگے اگر ملک میں سب ایک ساتھ عید منائیں، سب ایک ساتھ روزہ کھولیں۔ اگر ریاست نے ایک کمیٹی بنا دی ہے تو اس کی مان لیجیے۔ ویسے بھی کونسا آپ نے خود چھت پر چڑھ کر چاند ڈھونڈ لینا ہے۔ یہ بھی سوچ لیجیے کہ یہ قضیہ رمضان اور شوال میں ہی کیوں بپا ہوتا ہے۔ کبھی آپ نے صفر یا رجب کے چاند پر بھی جھگڑا ہوتے دیکھا ہے یا خود کبھی زحمت کی ہے کہ چاند کو افق کے پار تلاشیں۔ جب باقی دس ماہ حکومت کی مان لیتے ہیں تو یہ دو ماہ بھی بخش دیجیے۔ فلکیات کے ماہرین کو یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ نہیں، یہ الگ بحث ہے۔ اس پر بھی بات باقی سارا سال ہو سکتی ہے۔ کر لیجیے۔ ہمارے خطے میں عقل کی بات مروج ہونے میں صدیاں لگتی ہیں اس لیے کوئی خاص امید رکھیے گا نہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں رویت ہلال کے جو جھگڑے دیکھے ہیں اس کے حساب سے مفتی پوپلزئی کا قمری کیلنڈر مفتی منیب کے کیلنڈر کے مقابلے میں کم ازکم ایک ماہ پیچھے ہونا چاہیے تھا اور اصولی طور پر مفتی پوپلزئی کو تین روز قبل یہ اعلان کرنا چاہیے تھا کہ شعبان کا چاند نظر آگیا ہے۔ پر ایسا ہے نہیں۔ یہ رویت کے جھگڑے مذہبی کم ہیں سیاسی زیادہ۔ روزے اور عید ایک ثقافتی روایت بھی ہیں اس لیے ان میں جتنی ہم آہنگی ہو اتنا اچھا ہے۔ ہر صوبہ اب اٹھارہویں ترمیم کے تحت الگ عید بھی منانا شروع کر دے تو پھر قوم ملک سلطنت والا مصرع قومی ترانے سے نکال دیجیے۔ تو بھائی ہمارا حل تو یہی ہے کہ یہ اعلان بھی حکومت کو کرنے دیجیے۔ گناہ ثواب کا کوئی خدشہ ہو تو انہی کے سر ہے نا، آپ کو کاہے کی ٹینشن ہے۔

2۔ ہمارے بچپن اور جوانی میں رمضان کا ایک ہی تلفظ ہوا کرتا تھا۔ ادھیڑ عمری میں رمادان ایجاد ہو گیا ہے۔ خیر ہے۔ جس کو جو اچھا لگتا ہے۔ کہنے دیجیے۔ آج کل یوں بھی ہر نام کے نئے ہجے نکل رہے ہیں۔ ہم وسی بابا کو بے شک وصی بابا کہہ لیں اس نے باتیں ویسی ہی کرنی ہیں۔ یعنی اچھی اچھی، پیار محبت والی، کھٹی میٹھی۔ اسی طرح ہمیں یقین ہے کہ رمضان کو رمادان کہنے سے اس کے فضائل میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی اور نہ ہی سبزیوں کے نرخ میں کمی آتی ہے۔ اور اس پر لوگوں کا مذاق اڑانے کا کوئی اضافی ثواب بھی نہیں ملتا۔ تو جو رمضان کہتا ہے اسے کہنے دیجیے اور جو رمادان کہتا ہے اسے بھی اتنا ہی عزیز جانئے۔ کل جسٹن ٹروڈو نے رمادان مبارک کہا تو بڑا بھلا لگا۔ دو روز قبل سشمیتا سین نے رمضان مبارک کہا تھا۔ تب بھی اتنا ہی اچھا لگا تھا۔ اور اگر کوئی دل میں کچھ فرق رہا تھا تو اس کا تعلق ہجوں اور تلفظ سے نہیں تھا پر ہر بات کہنے کی نہیں ہوتی۔

3۔ حلال اور حرام کی مذہبی بحث بہت سادہ ہے۔ قرآن میں صاف صاف لکھ دیا گیا ہے۔ اس سے آگے اب اسے جو جتنا چاہے کھینچ لے۔ پھر اس میں مکروہات کا تڑکا لگا دے۔ ملک میں اب حلال نہانے کے صابن تک بکنے لگے ہیں تو کوئی کیا کہے پر صاحب یہ ہر ایک کی اپنی مرضی ہے۔ مجھے موسیقی یا مصوری حرام لگتی ہے تو یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے بس یہ احتیاط کرنی ہے کہ میں اپنا حرام اور حلال کا فلسفہ آپ پر نہ تھوپوں۔ اور کیا پتا جو آج آپ کے زعما حرام سمجھیں، کل وہ حلال ہو جائے۔ اسی مذہب کے پیروکاروں نے صدیوں اور عشروں تک پرنٹنگ پریس، پینٹ کوٹ، لاؤڈ سپیکر اور تصویر کو حرام سمجھا۔ آج سب حلال ہے۔ تو ان جھگڑوں میں مت الجھئے۔ جو آپ کو ٹھیک نہیں لگتا مت کیجیے لیکن دوسروں کو اس پر مجبور کرنے کا نہ آپ کے پاس کوئی اخلاقی جواز ہے نہ قانونی۔ بس اس راہ پر چلے چلو۔ اپنی زندگی بھی آسان رکھو، دوسروں کو بھی جینے دو۔ رائے دینا چاہو تو شوق سے دو پر ہاتھ میں ڈنڈا اور منہ میں فتویٰ رکھے بغیر۔

4۔ جس طرح آپ کا روزہ آپ کے اور آپ کے اللہ کے بیچ کا معاملہ ہے اسی طرح زید اور بکر کا روزہ بھی ان کا بہت خاص الخاص ذاتی معاملہ ہے۔ اپنے روزے کا غیر سرکاری اعلان کرتے پھرنا خود نمائی ہے۔ اور خود نمائی کا ثواب تو ملنے سے رہا۔ اور دوسروں کے ذاتی معاملے میں تانک جھانک کی یوں بھی مناہی ہے۔ ہو سکتا ہے کسی نے مجبوری کے تحت روزہ نہ رکھا ہو اور آپ کے استفسار پر یا تو وہ شرمندہ ہو یا پھر جھوٹ بولنے کے سوا چارہ نہ پائے۔ کیوں کسی کو امتحان میں ڈالتے ہیں۔ اپنی حدود سے آگے مت نکلئے۔ یہ سوال کرنا کہ کسی نے روزہ رکھا ہے یا نہیں، آپ کو زیب نہیں دیتا سو اپنے تجسس پر قابو رکھیے۔

5۔ روزہ رکھا ہو یا نہیں، غیبت سے تو ہر حال میں پرہیز اچھا ہے۔ لوگوں کے پیٹھ پیچھے ان کی خوبیوں کا ذکر کریں۔ شاید اتنا لطف نہ آئے پر یہ سوچ لیجیے کہ آپ کی پیٹھ پیچھے کیا کیا بات ممکن ہے۔

6۔ رمضان اگر اللہ کی رضا کے لیے ہے تو پھر اسے اسی طرح منائیے۔ اس میں افطار پارٹی کے ذریعے باس، سرکاری افسران، کاروباری شراکت داروں اور قرض خواہوں کو منانے کی کوشش نہ کیجیے۔ افطار آپ کے روزے کا ہے، آپ کے ٹھیکوں یا آپ کی ترقی کا نہیں ہے۔ افطار پارٹی کرنی ہے تو ان کے لیے کیجیے جو پانی اور سوکھی روٹی سے روزہ کھولتے ہیں۔ اس سے آمدنی میں اضافہ تو شاید نہ ہو پر رات کو نیند اچھی آئے گی۔

7۔ دوپٹہ لینا ٹھیک لگتا ہے تو سارا سال لیجیے۔ نہیں ٹھیک لگتا تو سارا سال مت لیجیے۔ سر پر اوڑھنا ضروری ہے تو ہر وقت ضروری ہے۔ ضروری نہیں ہے تو کسی وقت ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک مہینے کی منافقت کس لیے۔ اگر اللہ دل کے بھید جانتا ہے تو پھر تو یہ دکھاوا اور بے کار کی مشق ہے۔ یہ میری رائے ہے۔ فتویٰ نہیں ہے۔ باقی یہ آپ کا اختیار ہے کہ لباس کے معاملے میں آپ کا کیا انتخاب ہے۔

8۔ مجھے ہمیشہ یہی بتایا گیا کہ فرائض میں تخصیص نہیں ہوتی۔ اگر آپ ایک مسلمان کی حیثیت سے نماز کو فرض جانتے ہیں تو پھر یہ رجب میں بھی اتنی ہی فرض ہوتی ہے جتنی رمضان میں۔ بس اتنا بتانا تھا۔ کوئی تبلیغ نہیں کرنی۔

9۔ تراویح کو نفل سمجھئے یا واجب، یہ آپ کی مرضی ہے۔ جو بیس رکعت پڑھتا ہے اسے بیس پڑھنے دیجیے، جو آٹھ پڑھتا ہے اسے آٹھ پڑھنے دیجیے۔ اللہ نے گنتی کی ذمہ داری آپ کو تفویض نہیں کی ہے۔ بندے اور اللہ کے معاملے میں اکاؤنٹنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہاں پڑھنے والے یہ ضرور سوچ لیں کہ تراویح کا مقصد کیا ہے۔ قرآن ایک کتاب ہے اور کتاب سمجھی جاتی ہے تاکہ اس سے سبق لیا جا سکے، ہدایت لی جا سکے۔ رمضان میں پورے قرآن کی ہدایت سے مستفید ہونا ممکن ہو تو کیا ہی بات ہے پر یہ کوئی ریس تو ہے نہیں۔ جو پیغام مذہب اسلام کے نزدیک کائنات کا سب سے اہم پیغام ہے اس کے بلٹ ٹرین کی رفتار سے ختم کروانے میں جو حکمت پوشیدہ ہے وہ کم ازکم اس کم عقل کے پلے تو کبھی نہیں پڑی۔ کچھ بھلے لوگ تراویح سکون سے پڑھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ترجمے کا اہتمام کرتے ہیں۔ قرآن کا ختم کرنا ان کے نزدیک لازم نہیں ہوتا۔ مجھ جیسے کوڑھ مغز کو اگر قرآن سے واقعی کوئی ہدایت ملنے کا امکان ہو تو ایسی کسی محفل میں تو مل سکتی ہے لیکن یہ ہر گلی محلے کی مسجد میں یہ جو مشین گن کی طرح امام صاحب کے منہ سے الفاظ نکلتے ہیں ان سے مجھ جیسے کسی کا بھلا ہونے کا نہیں۔ آپ کو ٹھیک لگتا ہو تو آپ کا حسن ذوق ہے۔ ہم کیا عرض کر سکتے ہیں۔ پر کہتے ہیں کہ عبادت مکالمہ ہے اور مکالمہ دھیرج کے ساتھ ہوتا ہے۔

10۔ روزے کے نام پر چھوٹے بچوں پر ظلم مت کیجیے۔ یہ ظلم صرف جسمانی نہیں، ذہنی بھی ہے۔ روزے کا ایک فلسفہ ہے، یہ محض بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں ہے اور سات آٹھ سال کے بچے کو فلسفہ سمجھ نہیں آتا۔ وہ روزے کو ایک مقابلہ سمجھتا ہے۔ اس کے بدلے والدین، رشتہ داروں اور دوستوں سے تعریف کا متقاضی ہوتا ہے یعنی اس کے ذہن میں یہ بات ابتدا میں ڈال دی جاتی ہے کہ روزہ اللہ کے لیے نہیں، لوگوں کی ستائش کے لیے رکھا جاتا ہے اور پھر عمر بھر وہ اسی ڈگر پر چلتا ہے۔ اول تو بچے کو روزہ رکھنے سے منع کیجیے اور اسے سمجھائیے کہ جب وہ ذہنی اور جسمانی بلوغت کی سیڑھی پر اپنے قدم جما لے تب سوچ سمجھ کر اس عبادت کا ڈول ڈالے۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ بچہ ضد کرے۔ اس صورت میں اس کو روزہ رکھنے کے بعد گھر ہی میں انتہائی سادہ افطار کروائیے۔ روزہ کشائی پر تحفوں کا لالچ مت دیں۔ یہ سبق بہت ضروری ہے کہ روزہ مقابلہ نہیں ہے، روزہ دنیاوی لالچ کے لیے نہیں رکھا جاتا اور سب سے بڑھ کر روزہ ایک توجہ حاصل کرنے کا ہتھیار نہیں ہے۔ روزہ ایک ایسی ذات کے ساتھ تعلق استوار کرنے کا نام ہے جو آپ کو تحفے میں چاکلیٹ نہیں دیتی، آپ کو گوٹے کناری والی شیروانی میں سٹیج پر نہیں بٹھاتی، تالیوں کے شور میں آپ کے منہ میں کھجور نہیں ڈالتی اور بعد میں آپ کا سٹوڈیو فوٹو شوٹ ارینج نہیں کرواتی۔ روزہ ایک ذاتی، نجی اور دل کی عبادت ہے کسی ستائش اور صلے کی پرواہ کے بغیر۔ امید ہے اس سے آپ ایک بہتر شہری پروان چڑھا سکیں گے جو لالچ اور خود نمائی سے پرہیز برتے گا۔

11۔ گندے ڈیزل نما تیل میں تلے ہوئے پکوڑوں، سموسوں اور کچوریوں سے آپ کی صحت پر کوئی اچھے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ بازار میں ان کی دکانوں پر لگی قطاروں کو بہت سی ایسی آنکھیں بھی تکتی ہیں جن کے گھر میں افطار کے وقت صاف پانی بھی نہیں ہوتا۔ کینیڈا کے ایک غیر مسلم رکن پارلیمنٹ مارک ہالینڈ نے تمام روزے رکھنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح ہونے والی بچت وہ کسی خیراتی ادارے کو دے گا۔ اس سے یہ تو پتا لگ گیا کہ روزے رکھنے سے بچت کرنا ممکن ہے اگر قرب وجوار میں سموسہ اور پکوڑا فروش نہ ہوں۔ چلئے میری نہ سنیے۔ اس پر ہی عمل کر لیجیے۔ گھر کا کھانا کھائیں اور بازار میں پیسے نہ خرچنے سے جو بچت ہو وہ آپ بھی کسی خیراتی ادارے کو دے دیجیے۔ صحت کی صحت، بچت کی بچت، ثواب کا ثواب۔

12۔ روزہ رکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ باقی سارے کام کرنے سے مکت ہیں۔ بلکہ اپنے فرائض آپ کو اور تندہی سے انجام دینے ہیں۔ میں یہ کیسے مان لوں کہ آپ خدا کی رضا کے متمنی ہیں اور جنہیں آپ اس کی مخلوق گردانتے ہیں ان کی رضا اور خوشی آپ کے لیے معنی نہ رکھے۔ دفتر میں کام پورا نہ کر کے، سائلین کو جھڑک کر، فائلوں کو بند کر کے، لوگوں کے کام روک کر، ہر اہم کام پر ’رمضان کے بعد‘ کی مہر لگا کر جانے آپ کس کی رضا چاہتے ہیں۔ وہ جو بھی ہو آپ کا خدا ہر گز نہیں ہے۔

13۔ افطار پارٹیاں کتنی اہم ہیں، یہ تو ہم نے طے کر ہی لیا ہے۔ اس رمضان فوٹو شوٹ کروائے بغیر اور فیس بک اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیے بغیر ایک افطار پارٹی محلے میں زیر تعمیر گھروں کے مزدوروں، گھریلو ملازمین، ڈرائیوروں اور چوکیداروں کے لیے کروانے کی کوشش کریں۔ ایک دعوت جس میں آپ کا کوئی مطلب نہ ہو۔ سوچئے۔ ممکن ہے؟

14۔ احترام رمضان آرڈیننس پر اپنی حد تک احتجاج کیجیے۔ اگر یورپ، امریکہ، مشرق بعید اور افریقہ کے غیر مسلم ممالک میں رہنے والے کروڑوں لوگ احترام رمضان آرڈیننس کے بغیر روزہ رکھ سکتے ہیں تو ہم کیوں اتنے نازک اندام ہیں کہ کسی کو پانی کا گھونٹ بھرتے دیکھ لیں تو ہمارا روزہ فوت ہو جاتا ہے اور رمضان کا احترام بحیرہ عرب میں غرق ہو جاتا ہے۔ بوڑھوں، چلچلاتی گرمی میں کام کرتے مزدوروں، چھوٹے بچوں اور کمزور خواتین کا خیال کیجیے۔ ہو سکے تو پولیس کی نظر بچا کر ان کے خورونوش کا انتظام کیجیے جہاں تک ممکن ہو۔

15۔ کسی کو کھاتے یا پیتے دیکھئے تو اپنی رائے اپنے دل میں رکھیے۔ اگر کوئی بھوکا ہے تو آپ کے لیے نہیں ہے اور اگر کوئی کھا رہا ہے تو آپ کو تکلیف دینے کے لیے نہیں کھا رہا۔ کسی نے آپ کو خدائی ایس ایچ او نہیں بنایا۔ یہی تمیز دوسروں کو بھی سکھائیے۔ ہجوم کے ساتھ مت ملئے، ہجوم کا ہاتھ پکڑنا سیکھئے۔

16۔ ہر عید پر نئے کپڑے بنانا لازمی نہیں ہے۔ درزی کو کام دینا ہی ہے تو اس دفعہ اپنے غریب رشتہ داروں کے یا اپنے ملازموں کے بچوں کا ناپ دیجیے۔

17۔ اڑھائی فی صد زکوٰة ایک فقہی حساب ہے۔ آپ کا مذہب تو یہ کہتا ہے کہ جو آپ کی ضرورت سے زائد ہے وہ ان کا ہے جن کے پاس ضرورت سے کم ہے۔ خیر یہ کہنا آسان ہے، کرنا مشکل ہے۔ پر اس دفعہ جب آپ اپنے گھر والوں کے لیے عید کی شاپنگ کریں تو اس کا بھی اڑھائی فی صد ہی سہی، کسی ایسے کے لیے خرچ کیجیے گا جو شاپنگ مال میں قدم نہیں دھر سکتا۔ گداگروں کے ہاتھ میں پیسے رکھ کر فطرانہ دینے سے بہتر ہے کسی گھر میں ایک ماہ کا راشن ڈلوا دیں۔ کسی بچے کے سکول کی کتابیں خرید دیں یا اپنے محلے کے چوکیدار کو ایک نیا سوٹ ہی سلوا دیں۔ بانٹنا سیکھئے۔

18۔ میڈیا وہی دکھاتا ہے جو آپ دیکھتے ہیں۔ آپ وہ پروگرام دیکھنا چھوڑ دیں جہاں لوگوں کی عزت نفس کا سودا کرنا سکھایا اور دکھایا جاتا ہے۔ ریٹنگ گرے گی تو آہستہ آہستہ قبلہ درست ہو ہی جائے گا۔

19۔ قرآن کو کتاب ہدایت سمجھتے ہیں تو اس کی تعلیم پر غور کریں۔ کیوں نہ ہر اس روایت کی حوصلہ شکنی کریں جہاں ایک کتاب کو تیز رفتاری کے ریکارڈ بنانے کے لیے استعمال کرنے کا چلن ہو۔ خواہ اسے شبینہ کہہ لیں خواہ تراویح کہہ لیں۔ ایک پوری رات سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دس پارے ختم کرنے سے کیا بہتر نہ ہو گا کہ کسی ایک سورت کی دس آیات کو مکمل سیاق و سباق کے ساتھ سمجھ لیا جائے اور اس میں اگر کوئی اخلاقی سبق موجود ہو تو اسے اگلے دن سے حرز جان بنا لیا جائے۔ یہ ایک رائے ہے، ایک مشاہدہ ہے، باقی اپنی عبادت کا طریق طے کرنے میں آپ آزاد ہیں۔

20۔ عید ایک ساتھ منائیے۔ پاکستان سے آپ کا ایک رشتہ ہے اور یہ رشتہ زمین کے ٹکڑے سے نہیں اس میں بسنے والے لوگوں سے ہے۔ تیوہار میں سب ایک ساتھ شامل ہوں تو خوشی بڑھتی ہے۔ ہم الم نصیبوں کے پاس خوشی کے بہت دن نہیں ہوتے۔ جو ہیں انہیں تقسیم مت کریں۔ بھول جائیں رویت کے جھگڑے کو۔ یہ فرض حکومت کے سپرد کر دیں۔ ایک ساتھ گوادر سے وزیرستان تک سب مسکرائیں۔ ایک دن ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر خوش ہونے کی کوشش کریں۔ فاصلے بہت ہیں۔ نفرتیں بھی بہت ہیں۔ چہرے کدورتوں کی گرد میں پہچانے نہیں جاتے۔ خوشی کے لمحے کم ہیں پر وقت کی تسبیح میں یہی وہ دھاگے ہیں جن میں محبت کے دانے پرونے ہیں۔ ان کو سنبھال کر رکھیے۔ یہ دھاگے جوڑنے کے لیے ہیں اگر یہ بھی تقسیم کے استعارے بن گئے تو پھر ایک دن سب بکھر جائیں گے اور ایسے کہ پھر لاکھ سمیٹو، سمٹنے کے نہیں۔ پھر مناتے رہنا تین تین عیدیں۔

آپ سب کو ایک دفعہ پھر رمضان / رمادان مبارک۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad