رمضان کا چاند نظر آ گیا، مبارک ہو


سعد بیٹا، ذرا کچن میں آ کے میرا ہاتھ تو بٹا دو۔ گرمی سے برا حال ہو رہا ہے۔ اوپر سے بجلی بھی نہیں کہ پنکھا چلایا جا سکے۔ یو پی ایس بھی بیٹھ گیا ہے اور تم سب کی سحری کی الگ الگ فرمائشیں۔

افوہ امی، آتا ہوں سٹیٹس اپ لوڈ کر کے۔ ’ No Light on first sehri‘۔ یہ نہ ہو کہ سب مجھ سے پہلے سٹیٹس لگا دیں۔ بیٹا یہ کیا بے وقوفی والی حرکتیں ہیں۔ رات میں وقت سے سوتے بھی نہیں کہ اٹھ کر تہجد پڑھ سکو۔ امی کیا ہے؟ آپ کو ہر بات ہی فضول لگتی ہے۔ میں نہیں آ رہا کام کروانے، یہ سب میرا کام نہیں ہے۔ مریم میکے سے آ کے کروا دے گی۔ اور خدا کے لیے اب یہ رونا رونے نہ بیٹھ جائیے گا کہ اسے میکے کیوں بھیج دیا۔ بے چاری کا گرمی میں برا حال تھا۔ اس کے بعد امی کی آواز نہ آئی اور اپنے ٹیرس پہ کھڑی میں یہ سوچتی رہ گئی کہ کس کا کیا کام ہے۔

پہلے روزے میں سحری کے وقت بڑی فراوانی سے بجلی غائب ہوئی۔ لوگوں نے خوب احتجاج کیا اور احساس ذمہ داری نبھایا، جانتے ہیں کیسے؟ اپنے سٹیٹس اپ لوڈ کر کے ہمدردیاں سمیٹیں اور مشہوریاں کمائیں۔ سعد نے جیسے کہ خود کو آسانی سے یہ کہہ کے الگ کر لیا کہ کون سا کام اس کے کرنے کا ہے اور کو ن سا نہیں تو کیا ہم واقعی اس بات سے واقف ہیں کہ ہمارے کرنے کے کون سے کام ہیں،9 سے 5  نوکری کے علاوہ۔

میں اشتعال انگیزی کے خلاف ہوں اور میرا ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں کہ بات بگڑے مگر ہر سال ہم کرتے ہی کیا ہیں سوائے سٹیٹس لگانے کے۔ ہر سال رمضان میں مہنگائی کا رونا روتے ہیں، قیمتیں دگنی ہونے پہ شور کرتے ہیں، لوگوں سے ہمدردیاں او ر مشہوری سمیٹتے ہیں، مقابلے کرتے ہیں کہ کس کو زیاد ہ لائک ملے۔ بجلی تو ہر سحری و افطاری رمضان میں غائب ہی رہتی ہے، یہ کوئی نئی بات تو نہیں۔ مگر اس کے لیے کچھ کیا ہم سب نے؟ اپنے اپنے علاقوں میں کوئی کمیٹی بنائی؟ کوئی احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اپنا آرام کتنی بار خراب کیا۔ ارے جس شخص سے اٹھ کے پانی نہیں پیا جا رہا وہ احتجاج کیا خاک کرے گا۔ کسی محلے کی میٹنگ میں کیا خاک جائے گا۔ یہ تو بس ماں اور بہنوں پہ رعب جمانے کے لیے رہ گئے ہیں۔ آپ میں سے کتنے لوگ ہوں گے جو بجلی کے نہ ہونے پہ خود باورچی خانے میں جا کھڑے ہوئے ہوں کہ گھر کی عورتوں کی مشکل آسان کی جائے، ان کی تکلیف کو بانٹا جا سکے۔ ان کو بھی آرام کا حق دیا جا سکے۔ ارے جناب، آپ کو پکوڑے، سموسے، چنا چاٹ، دہی بھلے، پراٹھے، کباب، قیمے، انڈے، کھجلا پھینی، پلاﺅ، یہ سب چاہئیں تو کوئی احساس بھی ہے کہ ان نوکرانیوں کے روزے بھی ہیں کہ نہیں۔ ان کی نیند بھی پوری ہوئی ہے کہ نہیں۔ جب شدید گرمی ہے اور بجلی بھی نہیں ہے تو لوگوں کو چاہیے کہ سحری اور ا فطار پہ کم اہتمام کریں تاکہ خواتین کو گھنٹوں باورچی خانوں میں جھلسنا نہ پڑے۔

آخر آپ کی ذمہ داری ہے کیا جب نہ گھر ہے اور نہ باہر۔ میں آپ سے سڑکوں پہ ٹائر جلانے کا نہیں کہہ رہی مگر معاملے کا حل نکالنے کے بارے میں کتنے لوگوں نے سوچا۔ اب تو برداشت کی انتہا بھی ختم ہو چلی ہے۔ یہ بدمعاشی مچاتے من مانی کرتے دکاندار کیا آپ کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتے۔ کیا آپ کے اندر کے سوئے ہوئے شخص کو جگا نہیں دیتے۔ روزانہ شام میں نہا دھو کر نئے فیشن کی شلوار قمیض پہن کر سلفیاں لینا، کیا یہی روزے کا اور آپ کا فرض رہ گیا ہے۔ شعور کی بیداری کی آخر کوئی تو تاریخ مختص ہو گی۔ کو ئی تو آپ کے کرنے کا کام بھی ہو گا۔ کتنے لوگوں نے درخواستیں دیں، ہائی کورٹ سے لے کر یونین کونسل تک کہ ہر رمضان میںمہنگائی اور بجلی کی کیا اذیتیں ہیں۔ پھر کوئی آخر کچھ کرے بھی تو کیوں آپ کے لیے۔ ہم چائنیز لوگوں کی طرح ا تنے عظیم بھی تو نہیں کہ جو چینی مہنگی ہونے پہ چینی استعمال کرنا چھوڑ دیں گے۔ ہمارے دستر خوان تو ہمیشہ کی طرح بھرے کے بھرے رہتے ہیں چاہے آم 260 روپے اور آڑو230 روپے کلو ہی کیوں نہ ہو۔ تو بھئی ایسے میں کون مانے گا کہ عوام غریب اور پریشان ہے۔ عوام کو تکلیف ہو رہی ہے۔ گونگے، بہرے اور اندھے عوام جن کے ساتھ جتنا بھی ظلم و ستم کر لیا جائے، وہ گھر کی پلی بکری کی طرح ہی رہتے ہیں۔

ابھی یہ تو چند ظلم ہی تھے کہ اہتمام آرڈیننس بھی آ چلا۔ کل شدید گرمی میں ایک ٹیکسی میں ایک زچہ کوہسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ ایمرجنسی تھی۔ درد کی شدت ، لیکن جب سر اوپر اٹھا کے پانی پلایا جانے لگا تو اس نے نہ پیا کہ مجھے جیل ہو جائے گی۔ ہائے ری ستم گری۔ اور تھوڑی ہی دیر میں وہ بے ہوش ہو گئی۔ کیا فیصلے کرنے والوں کو یہ سب نہیں پتا تھا؟ عورتوں کے ساتھ ہر ماہ کیا افتاد کھڑی ہوتی ہے۔ وہ روزہ کیوں نہیں رکھ سکتیں۔ کیا شوہروں اور باپوں کو یہ نہیں پتا۔

آج رات پھر سوا دو بجے بجلی چلی گئی اور ساڑھے سات بجے تک بھی نہ آئی ۔ پہلے یو پی ایس جواب دے گیا پھر جنریٹر کا پٹرول ختم ، پسینے سے برا حال او ر افطار میں پورے بارہ گھنٹے باقی۔ خیر میں جاب پہ چلی گئی۔ اس حسین با برکت مہینے کو ہم نے کیا بنا ڈالا۔ کس اذیت میں گرفتا ر کر دیا لوگوں کو۔ میرے نوجوان کیوں چپ ہیں؟ کیوں فیس بک کی دنیا سے باہر نکل کے نہیں دیکھتے۔ کیوں اپنے کرنے کے کام نہیں پہچانتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).