رمضان المبارک اور خود ساختہ تبلیغی


بھائی، آپ کی تو جدھر گئی نمازیں، ادھر گئے روزے۔
آپ تو کنٹریکٹ والے مسلمان ہیں، صرف ایک مہینے کے لیے۔
بھائی، صرف بھوک کا روزہ رکھا ہے کیا آپ نے؟
لگتا ہے شیطان قید ہونے سے پہلے ساری ذمہ داریاں آپ کو دے گیا ہے۔

آفس، فیکٹری، کالج، یونیورسٹی، کسی ادارے کے سٹاف روم، دوستوں کی محفل یا گھر میں، اوپر لکھے ہوئے جملوں میں سے کوئی ایک یا تو آپ نے خود کسی کو بولا ہو گا یا کسی نے آپ کو کہا ہو گا یا کم از کم آپ نے اپنی زندگی میں کسی کو کہتے ہوئے ضرور سنا ہو گا۔ متوازن رویوں کے حوالے سے جہاں پورا معاشرہ ہی زوال پذیر ہے وہاں رمضان بھی اس کی زد سے باہر نہیں۔ رمضان میں ہم مسلمان واضح تین حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں کہ جیسے کہ تین فرقے ہوں۔آئیے دیکھیں وہ کون کون سے ہیں۔

کچے والے مسلمان

یہ وہ ہیں جو روزے تو رکھتے ہیں (یا شاید نہیں بھی رکھتے) لیکن باقی عبادات پوری نہیں کرتے۔
رمضان میں ان کی سب سے زیادہ سختی آتی ہے۔ باقی دونوں کیٹگریز کے لوگ ان کا جینا حرام کیے رکھتے ہیں۔
ان کو عام طور پر اس طرح کے جملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بھائی، آپ کی تو جدھر گئی نمازیں، ادھر گئے روزے۔
صرف بھوک کا روزہ رکھا ہے کیا آپ نے؟
یار، رمضان میں تو کچھ اللہ اللہ کر لیا کرو۔
آپ تو شیطان کے سب سے پکے دوست ہیں وہ موجود نہیں پھر بھی دوستی نبھائے جا رہے ہیں۔
کچھ کو تو ان کے دوست، دوستی ہی دوستی میں زبردستی بازو سے پکڑ کر مسجد لے جاتے ہیں۔

عارضی پکے مسلمان

یہ وہ مسلمان ہیں جو باقی سال کچے مسلمان ہی رہتے ہیں لیکن رمضان میں باقاعدگی سے دینی معمولات پر عمل کرتے ہیں۔
ان کو کچھ اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔
آپ تو کنٹریکٹ والے مسلمان ہیں، صرف ایک مہینے کے لیے۔
گیارہ مہینے شیطان دے، اک مہینہ رب دا۔
آپ کو شیطان کی موجودگی میں اللہ کا نام لیتے شرم آتی ہے کیا؟
بھائی سال بعد نماز پڑھنے لگے ہو، بھول تو نہیں گئے؟

اور اس کے ردعمل میں یہ کچے والے مسلمانوں پر ساری کسر نکالتے ہیں۔

مستقل پکے مسلمان

یہ وہ مسلمان ہیں جو کہ پورا سال ساری عبادات بہت باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں اور رمضان میں بھی ان کے یہی معمولات جاری رہتے ہیں بلکہ بڑھ جاتے ہیں۔
ان کو کہا تو کچھ نہیں جاتا لیکن اوپر لکھے گئے زیادہ تر جملے انہی کے بنائے ہوئے ہیں۔

کسی کو اچھے راستے پہ چلنے کی نصیحت اور تبلیغ ایک بہت ہی احسن عمل ہے۔ لیکن رمضان المبارک میں خصوصی طور پر اس عمل کو اس قدر پیچیدہ اور طنز میں لپیٹ کر ادا کیا جاتا ہے کہ دلوں میں جم جانے والا نفرتوں کا میل رمضان کے بعد بھی وہیں رہتا ہے۔ کسی کو اچھے کی تلقین کریں لیکن یہ احتیاط ضرور کریں کہیں انجانے میں آپ اگلے بندے کو اپنے سے یا دین سے ہمیشہ کے لیے بدظن تو نہیں کر رہے؟

جو عبادت آپ کے اندر دوسروں سے اعلیٰ ہونے کا غرور پیدا کر دے، وہ آپ کی اس ذہنی بیماری کا ایندھن تو ہو سکتی ہے لیکن اللہ پاک کے ہاں آپ کے مقبول ہونے کی ضمانت نہیں۔

اور ہاں، اگر یہ پڑھنے کے بعد آپ کے ذہن میں فوراً یہ خیال آیا ہے کہ جو اللہ کی عبادت نہ کرے اسے اسی طرح ذلیل کرنا چاہیے یا اس کی یہی سزا ہے تو مبارک ہو آپ نے سزا و جزا کا فیصلہ کرنے کا بھی اختیار حاصل کر لیا ہے، نام اپنا خود تجویز کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).