استاد ساجد علی…. الف سے اگلی بات


\"aasim\" یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر ساجد علی جیسے اساتذہ ہمارے درمیان موجود ہیں اور مکالمے میں راہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ مغربی یونیورسٹیوں میں مابعدجدیدیت کے نام پر سائنس مخالف یلغار کا بڑا حصہ یقیناً ژولیدہ فکری کا ہی شاخسانہ ہے۔ وہاں سے یہ پچھلے پچاس سال سے ہمارے ہاں بھی Traditionalism (روایت پرستی) کے نام پر درآمد ہو چکی ہے اور ہمارے مذہب پسند جدیدیت مخالف نقاد اس کی مدد سے ’سائنسی علمیت پر نقد‘ کے نام پر چربے تیار کرنے میں لگے ہیں۔ آپ سے جزوی اتفاق کرتے ہوئے میری طالب علمانہ رائے میں فلسفہ سائنس کے تناظر میں شاید متوازن رویوں کی تلاش دورِ جدید میں سب سے اہم کام ہے۔ مثال کے طور پر نیوٹن اور لائئبنز وغیرہ جیسے قدما کو چھوڑ کر جہاں طبعی فلسفہ اور متعین سائنس کی درمیانی سرحدیں مستحکم نہیں، دورِ جدید میں ایڈنگٹن، ہنری پوان کارے بلکہ خود ہائزن برگ وغیرہ کے متون کئی ایسے اہم فلسفیانہ سوال اٹھاتے ہیں جہاں کم از کم نظری طور پر سائنسی تناظر کی معروضیت و موضوعیت کی طرف کچھ اہم اشارے ملتے ہیں۔ ایسے میں سوکل کا مضمون اگرچہ ’پیروڈی‘ ہی سہی، اپنے اندر کسی حد تک دلچسپ سچائیاں بھی رکھتا ہے۔یوں کہئے کہ میں سائنسی علمیت کے تناظر میں دائیں اور بائیں بازو کے درمیان اس خوبصورت توازن کی دریافت میں بھی دلچسپی رکھتا ہوں جس کی ایک اہم مثال گراس اور نارمن کی بے مثال کتاب ہے جس کا آپ نے حوالہ دیا۔ اب شاید وقت آ گیا ہے کہ سائنسی محقق چارلس پرس، وائٹ ہیڈ، رسل اور ہائزن برگ وغیرہ جیسے اعلی دماغوں سے راہنمائی لیتے ہوئے اپنے طبعی میلانات اور مفروضوں کو عیاں کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کریں۔

آپ نے جیومیٹری کی آفاقیت کی طرف بہت دلچسپ اشارہ کیا اور یقیناً آپ کے ذہن میں کوئی ایسا نکتہ رہا ہو گا جس کے بارے میں پوری معلومات نہ ہوتے ہوئے میرے جیسے طالب علم کا جزوی اختلاف بھی شاید ایک غیرمعقول جسارت ہو، لیکن میرے ذہن میں فوراً یہ خیال آیا کہ خود آئن سٹائن کے نظریہ اضافت کے اہم ترین اشاروں میں سے ایک اشارہ یہی ہے کہ زمانی و مکانی کرّے کی جیومیٹری اصل میں اقلیدسی نہیں بلکہ ایک approximation ہے۔ یہاں کششِ ثقل کے باعث کسی تصوراتی تکون کے اندرونی زاویوں کا مجموعہ بالکل ٹھیک ٹھیک ایک سو اسی تو نہیں ہو گا۔ تقریباً ایک سو اسی ہو گا لیکن پورا پورا نہیں۔ میں نے ایک بار اپنی انڈر گریجویٹ کلاس میں ذکر کیا تو طالب علم ماننے سے ہی انکاری تھے کیوں کہ ان کے ذہن میں جیومیٹری کا ایک ایسا معروضی تصور ہے جہاں ایسی عجیب و غریب تکونیں خطرے کا باعث ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سیاق و سباق کا ایک مسئلہ تو ہے کیوں کہ دیکارتی ریاضیاتی نظام اور اقلیدسی جیومیٹری کے اطلاق سے نظری فزکس میں مسائل حل نہیں ہوتے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ کتنے ہی قسم کی غیراقلیدسی جیومیٹریاں اب ایجاد ہو چکی ہیں اور ان کی مدد سے کئی اہم مسائل حل ہو رہے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ مغرب میں سائنس سماج میں ایک اپنی عملی جہت رکھتی ہے اور باہر سے ہونے والی تنقیدوں پر کئی معاشی مفادات کے باعث بھی سوال اٹھتے ہیں جو سائنسدانوں کے طبقات کے درمیان سیاسی کشمکش پر بھی مبنی ہیں۔ روپرٹ شیلدریک جیسے سنجیدہ محققین کے ساتھ ہونے والا برتاو¿ چشم کشا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کارل پاپر اور تھامس کوہن کے درمیان دلچسپ اختلافی مباحث کے بارے میں آپ مجھ جیسوں سے کہیں زیادہ واقف ہوں گے۔ اب دلچسپ سوال یہی ہے کہ اس آفاقی عقلیت پسندی اور سائنسدانوں کی بطور انسان موضوعی ترجیحات کے درمیان توازن کہاں موجود ہے؟ آپ یقیناً اتفاق کریں گے کہ اس کا پوری طرح ظاہر ہونا بھی ہمارے تیسری دنیا کے طالب علم کے لئے بہت ضروری ہے اگر ہم سائنسی فکر کو اپنانا چاہتے ہیں اور اس میں ایک تعمیری کردار ادا کرنے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔

 

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments