یہ کیسا شوق ہے تسطیر کی شیرازہ بندی کا


نصیر احمد ناصر کا شمار ان اشخاص میں ہرگز نہیں ہوتا جنہیں میر نے پراگندہ طبع لوگ کہا تھا۔ اچھی خاصی منضبط اور مربوط شخصیت کے مالک ہیں۔ مگر ایسا ہے کہ فلک کی گردش اور ادب کی چٹیک سے خشک دامن نکل آنا۔۔۔۔ کم از کم اس زمانے میں یوں نہیں ہوتا۔ کسی اور جنم میں کیا صورت ہوتی، راقم کے حیطہ خیال سے ماورا ہے کہ قلندر کے لئے ایک جنم کا عذاب ہی کافی ہوتا ہے، دوبارہ اگر کسی نے یاد فرمایا تو حفیظ جالندھری صاحب  کو آگے ڈھکیل دیں گے۔ جنت کے باسیوں کے لئے بھی مشاعرے کی روایت سے شناسائی ضروری ہے۔

دیکھئے حفیظ جالندھری کے ذکر سے ایسا گمان نہیں کیجئے گا کہ ہمارے نصیر احمد ناصر اردو شعر کی کافوری روایت سے تعلق رکھتے ہیں۔  نصیر جدید اردو نظم کے معماروں میں سے ہیں۔ یہ وہ نسل تھی جس نے قومی آزادی کے بعد کے عشروں میں لفظ، واردات اور شعور کی تثلیث سے اپنا شعری لحن تسطیر کیا۔ میں ما بعد جدیدیت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ پوسٹ کولونیل مطالعے کی اہلیت بھی مجھ میں نہیں۔ میں تو احیائے علوم کی پرپیچ صدیوں کی کسی خندق میں ایسا مورچہ زن ہوا کہ کہ مجھے کچھ خبر نہ ہو سکی کہ فصل بہار اور خزاں رت کدھر سے گزریں۔ اب جو خواب کے کھنڈرات سے گزرتا ہوں تو جہاں تہاں ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جن کے سخن کی مجھے پوری سمجھ تو نہیں، لیکن ضبط فغاں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا۔۔۔۔ نصیر احمد ناصر نظم لکھتے ہیں تو مجھے اطمینان ہو جاتا ہے کہ ہمارے عصر کی واردات دستاویز ہو رہی ہے۔ اور یہ محض کسی درماندہ راہرو کی خود کلامی نہیں، نصیر احمد ناصر رحیل کارواں کی بصیرت اور پہل کاری سے بہرہ مند ہیں۔ گزشتہ بیس برس سے تسطیر کی آئینہ بندی ںصیر احمد ناصر کی خارا شگاف تیز بینی کا ثبوت ہے۔ تسطیر کا اجرا بیسویں کے ان برسوں میں ہوا تھا جب ادبی رسالے کی روایت اینی تمدنی توانائی سے بہت حد تک محروم ہو چکی تھی۔ چنانچہ ضرورت تھی کہ نئی زمینوں کی جستجو کی جائے، نئے طرز کی تخم ریزی ہو اور پھر لگن سے آبیاری کی جائے۔۔۔۔ نصیر احمد ناصر نے داخلی اور خارجی تحدیدات کے باوجود دوعشروں تک جس طرح ردے پر ردا جما کر تسطیر کی اپنی ایک روایت تعمیر کی ہے، اس سے ان کے اپنے شعری مقام میں ایک اہم ادبی رہنما کی جہت بھی شامل ہوئی ہے۔

2005 سے 2009 تک تسطیر کی اشاعت میں مدیر مکرم کی مصروفیات اور خرابی صحت کی وجہ سے ایک تعطل آیا تھا۔ پھر 2010 ء سے 2012 تک اشاعت کے بعد تسطیر بند ہو گیا۔ اسباب وہی تھے، مدیر تسطیر کی مصروفیات اور جسمانی صحت کی سطر بندی میں عدم استحکام۔ مقام مسرت ہے کہ اب تسطیر کو کتابی سلسلے کے طور پر نئے سرے سے شروع کیا گیا ہے اور اس کے دورِ نو کا اولین شمارہ اپریل 2017ء شائع ہو چکا ہے۔

تسطیر کے اس نئے عہد کی خشت اول کی تعریف کیا کی جائے، ایک نوآموز شاعر کے استثنیٰ کے ساتھ، سبھی لکھنے والے جدید اردو ادب کی کہکشاں میں مستند مقام رکھتے ہیں۔ مدیر ہم سب نے مدیر تسطیر سے گزارش کی تھی کہ ہم سب کے پڑھنے والوں کو اس خوان نعمت سے ایک نمونہ عطا کیا جائے۔ انہوں نے مستنصر حسین تارڑ کا تحریر کردہ عبداللہ حسین کا پس از مرگ انٹرویو عنایت کیا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے سوالات کے جواب ان خطوط سے اقتباس کئے گئے ہیں جو عبداللہ حسین نے اپنی زندگی میں مستنصر حسیں کے نام تحریر کئے تھے۔ تحریر کے اس انوکھے انداز سے جانا جا سکتا ہے کہ تسطیر کے اس شمارے میں کیسے کیسے معدن سموئے گئے ہیں۔ قیاس کن ز گلستان من بہار مرا۔۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).