گاڑی ریورس کرنے کا صحیح طریقہ (مکمل کالم)


              

عجیب زمانہ آگیا ہے، لطیفہ سناتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے، نہ جانے کب کہاں کس ’ازم‘ کی لپیٹ میں آ جائے۔ بہرحال۔ سردار جی ایک شخص کو گاڑی ریورس کرنے میں مدد دیتے ہوئے ہدایات دے رہے تھے کہ ”آتے جاؤ، آتے جاؤ، ہاں ہاں ٹھیک ہے، ایسے ہی آتے جاؤ۔۔۔ “ اچانک ایک زوردار آواز کے ساتھ گاڑی کھمبے میں جا لگی۔ سردار جی نے اطمینان سے آواز لگائی ”وج گئی جے۔ “ (لگ گئی ہے)۔ سردار جی نے کچھ غلط نہیں کیا تھا، انسان کو ’سب اچھا‘ کی آواز ہی پسند آتی ہے، کوئی نہیں چاہتا کہ اسے ٹوکا جائے، اُس کی بات کو غلط کہا جائے یا اُس پر تنقید کی جائے، چاہے وہ تعمیری تنقید ہی کیوں نہ ہو۔ کسی بھی قسم کی میٹنگ ہو، کاروبار ی، سرکاری یا سیاسی، ہر شخص باس کی ہاں میں ہاں ملانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے کیونکہ کوئی بھی باس یہ نہیں سننا چاہتا کہ سر آپ غلط کہہ رہے ہیں، آپ کی حکمت عملی درست نہیں، اگر آپ کے بتائے ہوئے اصول پر عمل کیا گیا تو نا قابل تلافی نقصان ہوگا، کوئی خدا کا خوف کریں، وغیرہ۔ ایک دودھ پیتا بچہ بھی اِس رویے کی وجہ جانتا ہے، لوگ تعمیری تنقید کی حوصلہ افزائی ضرور کرتے ہیں مگر سننا کوئی نہیں چاہتا، حالانکہ زندگی میں ایسے لوگوں کوغنیمت سمجھنا چاہیے جو آپ کی پسند نا پسند کی پرواہ کیے بغیر وہ بات کریں جو درست ہو، نہ کہ سردار جی کی طرح گاڑی ریورس کرواتے ہوئے نقصان کروا دیں۔ اگر آپ کی زندگی میں ایسا کوئی شخص ہے تو آپ خوش قسمت ہیں۔

پچھلے سال ایک کتاب شائع ہوئی، نام تھا  Rebel Ideas، میتھیو سید نامی شخص اِس کتاب کا مصنف تھا۔ اُس نے بھی یہی بات کی کہ ہم ایسے لوگوں کے درمیان رہنا پسند کرتے ہیں جن کے خیالات، نظریات اور زندگی گذارنے کا ڈھنگ ہم سے ملتا جلتا ہو۔ یہ غیر شعوری عادت دراصل ہمیں ایک گونہ اطمینان دیتی ہے کہ لوگ ہمارے افکار کو درست سمجھ کر اُن پر مہر ثبت کر رہے ہیں۔

اُس نے ایک مثال دیتے ہوئے لکھا کہ فرض کریں آپ ایک کمپنی کے سی ای او ہیں جو فنانشل منیجر بھرتی کرنا چاہتی ہے، دو امیدوار آپ کے سامنے ہیں جن میں سے ایک آپ کی کمپنی پالیسی کو درست سمجھتے ہوئے ہاں میں ہاں ملا رہا ہے جبکہ دوسرے امیدوار نے آپ کے پنج سالہ تجارتی منصوبے کے بارے میں کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ آپ کو کس امیدوار کو بھرتی کرنا چاہیے؟ میتھیو سید کہتا ہے کہ اپنے ارد گرد ہم خیال لوگوں کی بھیڑ اکٹھے کر لینا اجتماعی اندھے پن کا موجب بن سکتا ہے، چاہے آپ تمام قابل اور ہنر مند لوگ ہی کیوں نہ اکٹھے کر لیں اگر وہ سب ایک ہی طرح سوچتے ہوں گے تو پھر انہیں کبھی یہ پتا نہیں چل سکے گا کہ وہ کیا نہیں دیکھ پا رہے۔

میتھیو سید نے ایک مثال 9/11 کی دی کہ اپنی تمام تر اعلی افرادی قوت اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود سی آئی اے اِس کی پیش بندی نہیں کر پایا کیونکہ روایتی طور پر سی آئی اے میں ’ہم خیال‘ افراد ہی بھرتی کیے جاتے ہیں، وہی سفید فام لبرل امریکی جن کے ذہن میں مذہبی قدامت پسندی کا غلط سلط تاثر ہوتا ہے۔ اسی لیے سی آئی اے اجتماعی اندھے پن کا شکار ہوا اور یہ دیکھ نہیں پایا کہ اسامہ بن لادن کیسے اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے، وہ یہی سمجھتے رہے کہ اسامہ پتھر کے دور کا کوئی انسان ہے جو غار میں رہتا ہے۔

پس ثابت ہوا کہ کسی بھی کام کے لیے ٹیم تشکیل دیتے وقت یہ ضروری ہے کہ اُس میں متنوع خیالات کے لوگ ہوں، اِس سے اجتماعی شعور میں اضافہ ہوتا ہے اور مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات کی پیش بندی کی جا سکتی ہے۔ ذاتی زندگی میں بھی یہ بات بے حد سود مند ثابت ہو سکتی ہے، اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی کے فیصلے درست سمت میں ہیں یا نہیں تو اپنے کسی ایسے دوست سے رائے لیں جو منہ پھٹ اور بد لحاظ ہو۔ زندگی سنور جائے گی۔

ذاتی زندگی کے علاوہ معاشروں کو بھی ایسے منہ پھٹ اور بد لحاظ لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ذاتی نفع نقصان کی پروا کیے بغیر درست بات کریں چاہے اِس سے حکومتیں ناراض ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ ایسے لوگ اپنی حکومتوں اور ریاستی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں، حکمرانوں کو آئینہ دکھاتے ہیں اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ تاہم یہ بات کسی بھی دور اور کسی بھی ریاست میں آسان نہیں ہوتی اور اِس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔

برٹرینڈ رسل نے پہلی جنگ عظیم کی مخالفت کی، یہ بات ریاستی پالیسی کے خلاف تھی سو اِس جرم کی پاداش میں فلسفی صاحب کو چھ ماہ قید کی سزا کاٹنی پڑی۔ اسی طرح رسل نے 1961میں نیوکلئیر ہتھیاروں کے خلاف بھی احتجاج کیا جس پر انہیں سات دن کے لیے جیل کی ہوا کھانی پڑی، الزام تھا کہ وہ عوام کو امن و عامہ خراب کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ آج دنیا برٹرینڈ رسل کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے، جنگ کی حمایت کوئی نہیں کرتا۔ بھارتی دانشور ارن دھتی رائے ہم پاکستانیوں کو بہت پسند ہے کیونکہ ہمارے خیال میں وہ انڈین ہونے کے باوجود کشمیریوں کے حق میں بات کرتی ہے، وہاں بھارتی افواج کے مظالم کی مذمت کرتی ہے، مودی کی فاشسٹ حکومت کو بے نقاب کرتی ہے، اقلیتوں کے حقوق کی کھل کر حمایت کرتی ہے اور وہ تمام کام کرتی ہے جو ایک سچے کھرے دانشور کو کرنے چاہئیں۔ اصولاً ارن دھتی رائے کو بھارت میں غدار یا غیر محب وطن قرار دینا چاہیے کیونکہ اُس کی باتیں ریاست پاکستان کے نقطہ نظر کو ایندھن فراہم کرتی ہیں لہذا وہ محب وطن نہیں ہو سکتی؟

اسی طرح نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات امرتیاسین بھی بھارت کی کشمیر پالیسی کے ناقد ہیں، وہ اُن اقدامات کی غیر مشروط حمایت نہیں کرتے جو بھارتی حکومت اور فوج مقبوضہ کشمیر میں کرتی ہے، ظاہر ہے یہ بات بھی انڈیا کے دشمن یعنی پاکستان کے ’مفاد ‘میں ہے کہ اُن کا نوبل انعام یافتہ شخص کم و بیش وہی زبان بول رہا ہے جو پاکستان کی ریاست بولتی ہے تو کیا ہندوستان کو چاہیے کہ مسٹر سین کو غدار وطن قرار دے کر اُن سے تمام اعزازات چھین لے؟

امریکہ میں نوم چومسکی نامی بندہ بھی ہمیں بہت پسند ہے، امریکی ریاستی پالیسیوں کا شدید ناقد ہے، اِس موضوع پر کتابیں لکھ چکا ہے، کئی دہائیوں سے امریکی حکومت اور ریاست کے لتے لے رہا ہے، امریکہ کے سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام کا مخالف ہے، ویت نام جنگ میں بھی امریکی حکومت کے خلاف مہم چلائی، کئی مرتبہ گرفتار ہوا۔ اِن تمام باتوں کے باوجود کیا امریکی حکومت نے اسے غدار قرار دیا ؟ ہماری منطق کی رو سے تو امریکہ کو چاہیے تھا کہ چومسکی پر یہ سادہ سا الزام لگاتے کہ تمہاری تنقید اور ہمارے دشمنوں کا ایجنڈا ایک ہے، پس ثابت ہوا کہ تم غدار ہو، اللہ اللہ خیر سلا۔

دنیا میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ بات درست ہے کہ حکومتیں اِس قسم کے لوگوں کو پسند نہیں کرتیں مگر حقیقت میں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی حکومتوں کو درست سمت میں رکھتے ہیں اور اِن کی تنقید کی وجہ سے حکومتیں چوکس رہتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سردار جی کی طر ح گاڑی ریورس نہیں کرواتے بلکہ ڈرائیور کو بتاتے ہیں کہ اپنی گاڑی موڑ لو ورنہ گڑھے میں جا گرے گی۔ اِن تمام لوگوں کے پاس بھی چپ رہنے کا آپشن موجود ہوتا ہے۔ اگر یہ لوگ بھی وہی راگ الاپتے رہیں جو اپنے اپنے ملک میں سب الاپتے ہیں تو پھر ایک دن گاڑی کھمبے میں جا لگتی ہے اور کوئی باہر والا ہمیں بتاتا ہے کہ ”وج گئی جے۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 496 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada