جنسی تڑکا یا علم کی جستجو؟


کچھ قارئین نے فرمایا کہ ”ہم سب“ پر جنسی مضامین کا تانتا بندھ گیا ہے؛ قارئین ہی ہمارا سرمایہ ہوتے ہیں، لہاذا ان کی تحفظات کی بہت پروا کرنا چاہیے۔ شاید مدیر ”ہم سب“ اس سلسلے میں کچھ نہ کہیں، چوں کہ میرا تعلق بھی ”ہم سب“ سے ہے، میں یہاں لکھتا ہوں، میرے قارئین بھی یہیں ہیں تو میں اس بارے میں اپنا موقف بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

قارئین کرام، کیا ”جنسیات“ ایسا لغو مضمون ہے کہ اس پر بحث نہیں ہو سکتی؟ کیا یہ کوئی مکروہ فعل ہے؟ غلیظ کام ہے؟ جنسی مضامین کا حوالہ ہے تو ایک پہلو ہو گیا ”فحش نگاری“ یا ”فحاشی“ کہ تلذذ ہی مقصود ہو؛ فحاشی کی مذمت ضرور کیجیے لیکن دوسرا پہلو علم کا ہے؛ تحقیق کا؛ مسائل کی شناخت کا؛ ان پر بات کرنا کیوں ممنوع ٹھیرا؟

ہم برصغیر کے رعایا کے لیے جنس پر بات کرنا گویا دیو کا سامنا کرنا ہے، یا کوئی گھناونا کھیل کہ ہم اس کے بارے میں چھپ کے پڑھتے ہیں، چھپ کے دیکھتے ہیں، چھپ کے سیکھتے ہیں۔ مرد عورت کے جنسی تعلق کو سمجھنے کے لیے پورن سایٹس سے رہ نمائی لیتے ہیں؛ اپنی جنسی صحت کے لیے اتنے فکرمند ہوتے ہیں، کہ دیواروں پر اشتہار لکھوانے والے حکیموں کے سے رابطہ کرتے ہیں، لیکن اپنے ارد گرد کے لوگوں سے ان مسائل پر بات چیت کرتے گھبراتے ہیں، جیسے لغو کلام ہو، گناہ عظیم کا اندیشہ ہو، یا پارسائی کھو دینے کا امکان ہو۔ یہ سوال تو ایک بھونچال پیدا کر سکتا ہے کہ ہمارے بچوں کو اسکول میں جنسی تعلیم دی جانی چاہیے یا نہیں۔ اب جنسی تعلیم سے کوئی کیا مراد لیتا ہے، یہ سوچنے کی بات ہے، جب کہ آپ سبھی جانتے ہیں ہر مسلمان گھر میں بچے کو ہوش سنبھالتے ہی قران کے اسباق دیے جانے لگتے ہیں؛ قران کی ایک آیہ مبارکہ ملاحظہ ہو۔

ترجمہ: ”وہ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، فرما دیجیے کہ وہ ناپاکی ہے، تم دورانِ حیض عورتوں سے علاحدہ رہو (جماع نہ کرو)، پاک ہونے تک (جماع کی نیت سے) ان کے قریب نہ جاو، جب وہ (نہا کر) اچھی طرح پاک ہوجائیں، تو حکم الٰہی کے مطابق ان کے پاس آو۔“

(البقرہ: ۲۲۲)

چوں کہ ہم عجمی ہیں، عربی زبان سے نا واقف ہیں، اس لیے ان آیتوں کے مفہوم پر غور کرنے کا تردد ہی نہیں کرتے، کہ کہا کیا گیا ہے۔ یہ عربی زبان میں ہے تو ما سوائے ”آمین“ یا ”صدق اللہ العظیم“ کہنے کے اور کچھ نہیں کرنا؛ لیکن اس کا ترجمہ دیکھیے، تو بھی آپ اعتراض کرنے والوں میں سے نہ ہوں گے، کیوں کہ آپ جانتے ہیں یہ خدا کا فرمان ہے۔

یہ ایک مثال ہی کافی ہوگی؛ آپ اپنی ایمان داری سے بتائیے کہ یہ جنسی معاملات میں رہنمائی نہیں تو کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہم رٹا لگانے کے عادی ہیں، اسباق کو سمجھنے والوں میں سے نہیں، تو ہمیں یہ موضوع مشتعل کر دیتا ہے۔ یہ محض آپ کی بات نہیں ہو رہی، میں بھی آپ ہی میں سے ایک ہوں۔ ”ہم سب“ پر شائع ہونے والے ایسے مضامین جن پر اعتراض کیا جا رہا ہے، کیا وہ اس زُمرے میں آتے ہیں، جسے فحاشی کہا جاتا ہے؟ یا اُس سانچے میں ڈال کے دیکھا جانا چاہیے، جسے خبر یا معلومات افزا کہا جاتا ہے؟

میری اس ہڈ بیتی کا اس موضوع سے تو کوئی تعلق نہیں، لیکن آپ کو سناتا چلوں۔ دو ہزار چار میں مجھے حج کی سعادت نصیب ہوئی؛ وہاں ایک صاحب سے مکالمہ ہوا، جن کی رائے تھی کہ نماز پڑھتے ان آیات کو منتخب کیا جانا چاہیے، جو ثنائی ہیں۔ میں نے اُن کی بات سمجھنے کے لیے کچھ سوال کیے تو انھوں نے مذکورہ بالا آیت کا حوالہ دیا، کہ نماز اللہ تعالی کی ثنا ہے، فرض کیجیے آپ اردو میں نماز پڑھتے ہیں، نماز کےدوران یہ آیت پڑھی جائے، ”وہ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، فرما دیجیے کہ وہ ناپاکی ہے، تم دورانِ حیض عورتوں سے علاحدہ رہو (جماع نہ کرو)، پاک ہونے تک (جماع کی نیت سے) ان کے قریب نہ جاو، جب وہ (نہا کر) اچھی طرح پاک ہوجائیں، تو حکم الٰہی کے مطابق ان کے پاس آو۔“ تو یہ آیت پڑھے کے ہم اللہ تعالی کے حضور کھڑے ہو کے اُسی کا فرمان اُس کو سنا کے کیا حاصل کر رہے ہیں؟ (اُن کے کہنے کا مقصد یہ تھا، چوں کہ ہم عربی جانتے ہی نہیں، اس لیے کچھ سمجھے بغیر بس رٹا لگاتے چلے جاتے ہیں)

دیکھا جائے تو میڈیکل بکس ہی نہیں کئی مذہبی کتابیں بھی ایسے مضامین سے بھری پڑی ہیں، جن میں جنسی رویوں، تعلق اور مسائل کا ذکر ہے۔ یہ ایک عام سی بات ہے؛ انتہائی معمولی، جیسا کہ ہم کھانا کھاتے ہیں، اس کو ہوا بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ بس اتنا ہے کہ جیسے کھانا کھانے کے آداب ہیں، ایسے ہی اس کے بھی کچھ آداب ہیں، جن کی پیروی کرنا چاہیے۔ جہاں ان آداب کی خلاف ورزی ہوتی ہو، اس کی نشان دہی کیجیے۔ ”ہم سب“ کے ایسے ناراض قارئین سے درخواست ہے، کہ وہ اُن مضامین پر ضرور پکڑ کریں، جن کا حاصل وصول کچھ نہیں، اور محض ریٹنگ بڑھانے کے لیے جنسی تڑکا لگایا جاتا ہے۔ آخر میں قارئین سے سوال یہ بھی ہے، کہ وہ سوچ کے بتائیں، کیا وجہ ہے کہ مذہب اور جنسیات ایسے سلگتے موضوعات ہیں، جن پر بات کرنے سے ریٹنگ بڑھتی ہے؟

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran