این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کا جائز حصہ کیا ہے؟


مترجم: حسین رضا

18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد قومی مالیاتی کمیشن (NFC) کے ساتویں ایوارڈ کا اجرا پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی بڑی کارگزاری تھی۔

بظاہر یہ تاثر قائم ہے کہ ساتویں NFC ایوارڈ میں وفاق کی جانب آمدنی کی تقسیمِ کار میں چھوٹے صوبوں کو اضافی بنیادوں پر نوازا گیا جس سے بلوچستان نے سب سے بڑھ کر فائدہ اٹھایا۔ لیکن درحقیقت بلوچستان کو اب بھی ’وفاقی قابلِ تقسیم کھاتا جات‘ (*1) میں شماریاتی ہیراپھیری کے ذریعے اُس کی حق داری کے 28 ارب روپے سے محروم رکھا جارہا ہے۔

ساتویں NFC ایوارڈ کے اجرا سے قبل ’آبادی‘ کی فیصلہ کُن کسوٹی پر وفاق کی جانب سے صوبوں کو وسائل کی تقسیمِ کار کی معیاربندی کی جاتی تھی۔ اس سلسلہ میں وفاق کی جانب سے ملک بھر میں’آبادی‘ کی بنیاد پر اکٹھے کیئے گئے اعدادو شمار کی درجہ بندی سے صوبوں کو آمدنی میں اُن کا مقررہ حصہ دیا جاتا تھا۔ تاہم ساتویں NFC ایوارڈ کی معیاربندی کے لوازِمات میں آبادی کے ساتھ ساتھ غربت و پسماندگی، ذرائع آمدن اور معکوس کثافتِ آبادی کو بھی شامل کیا گیا۔ ’آبادی‘ کے جزوِترکیبی کو کم کرکے 82 فی صد حصہ دیا گیا۔ بقیہ 18 فی صد لوازم اجزائے ترکیبی میں ’غربت و پسماندگی‘ کو 10.3 فی صد حصہ دیا گیا، ذرائع آمدن کو 5 فی صد حصہ دیا گیا اور معکوس کثافتِ آبادی کو 2.7 فی صد حصہ دیا گیا۔

تقسیمِ کار کا یہ فارمولہ بلوچستان کے حق میں جاتا ہے کہ جس کا شیئر 5.11 فی صد سے بڑھ کر 9.09 فی صد ہوگیا۔

لیکن بلوچستان کو 5.11 فی صد سے اوپر دیے گئے 3.98 فی صد شیئر کا حساب ’غربت و پسماندگی‘ کے 10.3 فی صد حصہ میں شماریاتی ہیراپھیری کے ذریعے محروم رکھ کے چکا لیا گیا ہے۔
تاحال جاری ساتویں NFC ایوارڈ میں بلوچستان کے شیئر پر پیش کردہ اِس تحقیقاتی تجزیے کا موضوعِ بحث و جرح ’غربت و پسماندگی‘ کے 10.3 فی صد حصہ کو بنایا جارہا ہے۔ جبکہ آبادی، ذرائع آمدن اور معکوس کثافتِ آبادی کو جوں کا توں مستقل پیش کیا جارہا ہے۔

ساتویں NFC ایوارڈ کی تیاری میں چاروں صوبوں میں ’غربت و پسماندگی‘ سے متعلقہ اعدادوشمار مرتب کرنے کے لئے تین مختلف رپورٹوں پر انحصار کیا گیا۔ پہلی رپورٹ ’’تخفیفِ غربت سٹریٹیجی پیپر1‘‘ (*2) کی ذیلی رپورٹ تھی جو ’’اقتصادی شرح نمو میں بڑھوتری اور انسدادِ غربت کے ساتھ ترقی کا راستہ‘‘ (*3) کے عنوان سے 2003ء میں فنانس ڈویژن نے شائع کی تھی اور اس رپورٹ سے متعلقہ اعدادوشمار 1998-99 کے شماریاتی مواد سے لئے گئے تھے۔دوسری رپورٹ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی تھی جو 2003ء میں ’’پاکستان قومی انسانی ترقیاتی رپورٹ‘‘ (*4) کے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔ تیسری اور آخری رپورٹ ’’بلحاظِ صوبہ انسانی ترقیاتی انڈیکس رپورٹ‘‘ (*5) تھی جو 2008ء میں شماریاتی ڈویژن کی شائع کردہ تھی۔ ساتویں NFC ایوارڈ کی تیاری میں مجموعی اعدادوشمار کا ارتباط مذکورہ بالا تینوں رپورٹوں کے شماریاتی جمع و ترتیب پر مبنی ہے۔

یوں ساتویں NFC ایوارڈ کی تیاری میں وفاقی قابلِ تقسیم کھاتا جات سے ’غربت و پسماندگی‘ کے 10.3 فیصد حصہ میں صوبوں کو ان کی حق داری کے مطابق جو رقوم دی گئیں اُن کی مقدار درج ذیل ہے۔ پنجاب کو 23.17 فی صد رقوم دی گئیں۔ سندھ کو 23.42 فی صد رقوم دی گئیں۔ خیبرپختونخوا ( سابق صوبہ سرحد) کو 27.83 فی صد رقوم دی گئیں۔ بلوچستان کو 25.62 فی صد رقوم دی گئیں۔

مذکورہ بالا تینوں رپورٹوں میں خامی یہ ہے کہ 1998-99 ء، 2003ء اور 2008ء کے شماریات پر مبنی ہونے کے ناطے یہ رپورٹیں2009ء کے اعتبار سے منقضی ا لمیعاد ہوچکی تھیں۔ لہٰذا یہ 2009ء میں ساتویں NFC ایوارڈ کی تیاری کے عصری حالات کے اعدادوشمار کی نمائندگی نہیں کرتیں تھیں۔ یوں اِن فرسودہ اعدادوشمار کے باعث وفاقی قابلِ تقسیم کھاتا جات سے صوبوں کے مابین مالیات کی غیرمنصفانہ تقسیم ہورہی ہے اور چھوٹے صوبوں بالخصوص بلوچستان کو خسارہ ہورہا ہے۔

اِن رپورٹوں کے مجموعی نتائج کی رو سے چاروں صوبوں میں غربت کی صورت حال تقریباً ایک ہی سی ہے۔ لہٰذا چاروں صوبوں کو قریب قریب برابر کی رقوم جاری کی گئیں۔ تاہم اس نکتہ کی صداقت بارے تفصیلی وضاحت بلوچستان میں ’غربت و پسماندگی‘ کی موجودہ صورت حال کا بقیہ صوبوں سے ازسرنو موازنہ کرکے باخوبی کیا جاسکتا ہے۔درحقیقت بلوچستان میں ’غربت و پسماندگی‘ کی صورت حال بقیہ تینوں صوبوں سے موازنے میں کئی درجے زبوں حال ہے۔ اس سمیت مزید بیشتر حوالوں سے بھی ’غربت و پسماندگی‘ کے 10.3فی صد حصہ سے بلوچستان کو ملنے والا 25.62 کا شیئر کم ہونے کے ناطے غیرمنصفانہ ہے اور جس شیئر کا بلوچستان اصولاً مستحق ٹھہرتا ہے یہ اُس سے کئی کم ہے۔اس طرح ’غربت و پسماندگی‘ کے تازہ ترین اعدادوشمار پر انحصار نہ کرکے بلوچستان کو اعدادوشمار کی ہیراپھیری کے ذریعے محروم رکھا جارہا ہے۔ لیکن تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ بلوچستان اضافی فنڈز لے کر سب سے زیادہ فائدہ میں جارہا ہے۔

مختصراً عام فہم الفاظ میں یہ کہ ساتویں NFC ایوارڈ کے فارمولا کی رو سے جس صوبے میں ’غربت و پسماندگی‘ جتنی زیادہ ہوگی۔ اُس صوبے کو اُتنے ہی زیادہ فنڈز ملیں گے۔ لیکن اِس فارمولا کی رُو سے زیادہ ’غربت و پسماندگی‘ زدہ صوبوں کو زیادہ فنڈز نہیں دیے جارہے۔

علاوہ ازیں جون 2016ء میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام، آکسفرڈ کے انسدادِ غربت اور انسانی ترقیاتی منصوبے اور وفاقی وزارت برائے منصوبہ بندی و ترقی کے اشتراک سے کثیرالجہت غربت (*6 ) پر 2016ء میں ایک رپورٹ شائع کی گئی۔ اس رپورٹ کی تیاری میں ملک بھر میں غربت کی صورت حال کا تخمینہ لگانے کے لئے صحت، تعلیم اور معیارِ زندگی پر مشتمل تین بنیادی اور 16ذیلی اشاریے مقرر کیے گئے۔ ان 3 بنیادی اور 16ذیلی اشاریوں کی کسوٹی پر ہر صوبے کے لئے کثیرالجہت غربت انڈیکس (*7) مرتب کیا گیا۔ یوں چاروں صوبوں کے انڈیکس کے تقابلی موازنوں کو شرح فی صد میں دیکھا جائے تو ’غربت و پسماندگی‘ کی اصل صورت حال سامنے آتی ہے۔ 2016 ء کے تازہ ترین نتائج پر مبنی اس رپورٹ کے مطابق بلوچستان کا اشاریہ غربت 0.394 کے ساتھ اول درجہ پر ہے۔ خیبرپختونخوا کا اشاریہ غربت0.25 کے ساتھ دوسرے درجہ پر ہے۔ سندھ کا اشاریہ غربت 0.231 کے ساتھ تیسرے درجہ پر ہے۔پنجاب کا اشاریہ غربت 0.152 چوتھے کم ترین درجہ پر ہے۔ یہ تازہ ترین اعدادو شمار ہیراپھری کی بجائے حقیقت بینی سے مرتب کیئے گئے ہیں اور اور معروضی حالات کی صحیح نمائندگی کرتے ہیں۔ ویسے بھی زمینی حقائق بھی یہی ہیں کہ ’غربت و پسماندگی‘ سے بلوچستان کی حالتِ زار بقیہ صوبوں سے کئی گناہ بڑھ کر زبوں بخت ہے۔

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ان تازہ ترین اعدادوشمار سے اخذ کردہ نتائج کی رو سے اگر ساتویں NFC ایوارڈ کے لئے وفاقی قابلِ تقسیم کھاتا جات سے ’غربت و پسماندگی‘ کے حصہ میں بلوچستان کے شیئر کی تخمینہ کاری کی جائے تو تب بلوچستان کا شیئر 9.09 فی صد کی بجائے 10.41 فی صد بنتا ہے جو کہ 9.09 سے 1.32 فی صد زیادہ ہے۔ مالی سال 2016-2017ء میں وفاقی قابلِ تقسیم کھاتا جات کی تخمیناً رقوم 2.135 کھرب روپے بنتی ہیں۔اِس 2.135 کھرب روپے کے تعلق سے بلوچستان کے شیئر کی 1.35فی صد رقوم کی مالیت 28ارب روپے بنتی ہے جس سے بلوچستان کو محروم رکھا جارہا ہے۔

سادہ لفظوں میں یہ کہ ’غربت و پسماندگی‘ کے اعداد و شمار میں کی جانے والی ہیرا پھیری کے نتیجے میں بلوچستان وفاقی قابل تقسیم کھاتاجات میں اپنے شیئر کے واجب الادا 1.35 فی صد یعنی 28 ارب روپے سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس ضمن میں قابل ِ التفات نکتہ یہ ہے کہ بقیہ تینوں صوبے بلوچستان کے شیئر کا 1.35 فی صد یعنی 28 ارب روپے کی مالیات ناحق بٹور رہے ہیں۔

دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ ساتویں NFCایوارڈ کی معیاد 30جون 2015ء کو ختم ہوچکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی وفاقی قابل تقسیم کھاتا جات سے آمدنی کی تقسیم کار کے لئے وُہی فرسودہ فارمولاجاری رکھا جارہا ہے۔ یہ فارمولا ’’تقسیمِ محصولات اور امدادی گرانٹ (ترمیمی)آرڈر،2015ء‘‘ (*8 ) کے ذریعے مسلط ہے۔ موجودہ نوازلیگ حکومت کا ساتویں NFCایوارڈ کے فارمولا کو 2015ء کے بعد بھی توسیع دیے رکھنے کا فیصلہ غیرآئینی ہے۔ چونکہ 2016ء میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے مرتب کردہ اور منصوبہ بندی کمیشن کے انحصار کردہ تازہ ترین اعدادوشمار منصوبہ بندی اور تقسیمِ کار کے لئے موجود ہیں۔لہٰذا 2017 ء میں 1998ء کے اعدادوشمار کا استعمال کرنا صریحاً احمقانہ پن، مضحکہ خیزی اور ناعاقبت اندیشی ہے۔

نتیجے کے طور پر بلوچستان گزشتہ دو مالیاتی بجٹ میں سالانہ 28ارب روپے سے محروم رکھا جارہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بلوچستان تب تک اپنے شیئر کے سالانہ 28 ارب روپے سے محروم رکھا جاتا رہے گا جب تک کہ بلاکمی بیشی تازہ ترین اور حقیقت بیاں اعداد وشمار کی بنیاد پر آٹھویں NFCایوارڈ کا اجرا نہیں کیا جاتا۔  نیز یہ کہ بلوچستان 2010-2015 کی مدت میں وسائل ڈویژن کی جانب سے ادا نہ کیئے جانے والے اپنے حصہ کے واجب الادا شیئر کی وصولی کے لئے دعویٰ کرنے کا حق بھی رکھتا ہے۔

بلوچستان کے شیئر کی دُبائی گئی 28 ارب روپے کی خطیر رقم ملنے پر بلوچستان اِسے صوبہ میں معیار ِزندگی کو بلند کرنے کے لئے بروے کار لاسکتا ہے۔ اس رقم سے بلوچستان میں ناخواندگی کا سدباب کرنے کے لئے 10لاکھ بچوں کی تعلیم کا اہتمام کیا جاسکتاہے۔ اس رقم سے بے روزگاری کا سدباب اور افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنے کے لئے 45 ہزار تعلیم یافتہ بے روزگاروں کو بھرتی کرکے اساتذہ کی کمی کو بڑی حد تک پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس رقم سے انفراسٹرکچر کی ترقی کے لئے7ہزار نئے پرائمری سکول تعمیر کیئے جاسکتے ہیں۔ مذکورہ بالا تجزیاتی نتائج 2011-2016 ء کی مدت میں ادارہِ تعلیم و آگہی کی دوشماریاتی رپورٹوں ’’سالانہ تعلیمی حالت رپورٹ‘‘ (*9) اور ’’پاکستان تعلیمی شماریاتی رپورٹ‘‘ (*10) سے اخذ کردہ ہیں۔ اس طرح گزشتہ بجٹ میں بلوچستان نے صحت کے شعبہ میں 17.36 ارب روپے مختص کیئے تھے جو اُن 28 ارب روپے کا 62 فی صد بنتے ہیں اوراُن 28 ارب روپے کے ذریعے بلوچستان اپنے صحت کے بجٹ کو موجودہ بجٹ سے 1.6 گنا زیادہ بڑھا سکتا ہے۔

چونکہ بلوچستان کی اشرفیہ کو ایسے مسائل کی فکر نہیں لہٰذا اُس نے اِس ایشو کو درخوراعتنا بھی نہیں سمجھا۔

وفاقی قابلِ تقسیم کھاتا جات سے بلوچستان کی وصول کردہ مالیات کا خطیر حصہ کرپشن، اقرباپروری، بدانتظامی اور فضول خرچی میں ضائع ہوجاتا ہے جس کی لازماً چھین بین ہونی چاہیے۔ لیکن بلوچستان میں مالیاتَ عامہ میں ہونے والی خردبرد کی آڑ میں وفاق کی جانب سے قومی مالیاتی کمیشن میں بلوچستان کو اُس کے حصص سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اور ہی وفاق سمیت بقیہ صوبوں کو بلوچستان کے شیئر کی 1.35 فی صد یعنی 28 ارب روپے کی مالیات کو شماریاتی ہیراپھیری سے دبانے کا حق ہے۔

حواشی:
*1 federal divisible pool
*2 Poverty Reduction Strategy Paper-I (PRSP-I)
*3 Accelerating Economic Growth and Reducing Poverty: The Road Ahead
*4 Pakistan National Human Development Report 2003 published by UNDP
*5 province-wise HDI report published by Statistics Division in 2008
*6 Multidimensional Poverty in Pakistan 2016
*7 Multidimensional Poverty Index (MPI)
*8 Distribution of Revenues and Grants-in-Aid (Amendment) Order, 2015
*9 Annual Status of Education Report
*10 Pakistan Education Statistics Report


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).