’نِندیا پور‘ ایک بچے کی دنیا


والد صاحب کے ساتھ گاؤں سے ٹیوب ویل جاتے ہوئے تھک جاتا تو وہ مجھے کندھوں پہ بٹھالیتے۔ بل کھاتی پگڈنڈی پر گرنے کا اندیشہ بھی نہ رہتا اور کندھوں پر بیٹھ کرآس پاس کے کھیتوں کا نظارہ بھی خوب مزہ دیتا۔ دھوپ تیز ہوتی تو اپنا رومال میرے سر پر اوڑھا دیتے۔ رومال سے بھینی بھینی خوشبو آتی تھی۔ اسی رومال میں ابو ٹیوب ویل سے دیسی گلاب کے پھول باندھ لاتے تھے۔ امی پھولوں کی گل قندبناتی تھیں۔ سب گھر والے شوق سے کھاتے تھے۔ مجھے ذراسا نزلہ بخار ہوتا تو ابو رات بھر جاگتے رہتے۔ ابرِکرم بن کر مجھ پرچھائے رہتے۔ میں جان گیا تھا کہ کوئی بھی مشکل آئے بس ابو کا ہاتھ تھامو اور مشکل بے چارگی کے عالم میں اپنا سا منہ لے کر رہ جائے گی۔ (ابو جی آپ ہمیشہ سلامت رہیں)۔

مجھے آج بھی یا دہے جب ابو مجھے پہلے دن سکول چھوڑنے گئے۔ ماسٹر جی سکول کے صحن میں نیم کی چھاؤں میں کرسی لگائے بیٹھے تھے۔ بچے زمین پر ٹاٹ اور بوریاں بچھائے جھول جھول کر سبق یاد کررہے تھے۔ کچھ بچے مرغا بنے ہوئے تھے۔ میز کے اوپر بچوں کی جسمانی، ذہنی اور روحانی نشوونما کے لیے بھاری بھر کم ڈنڈا پڑا ہوا تھا۔ ماسڑ جی کے قریب آتے آتے نہ جانے کیوں میرا دل بوجھل سا ہوگیا اور میں پناہ لینے کی غرض سے والد صاحب کی طرف مڑا۔ واپس مڑنا ہی تھا کہ والد صاحب نے ایسا زور سے تھپڑ رسید کیا کہ میں ماسڑ جی کے قدموں میں جا گِرا۔ کپڑے کا تھیلہ جو گِرا تو اس میں اردو کا قاعدہ، تختی، سلیٹ اورقلم دوات بھی ادھر ادھر بکھر گئے۔ اس دن میں دیر تک روتا رہا تھا۔ کسی نے رومال سے آنسو نہیں پونچھے تھے۔ ابو مجھے سکول چھوڑکر گھر واپس جاچکے تھے۔

سکول میں ایک عجیب سا خوف کا ماحول رہتا تھا۔ سبق یاد نہ ہوتا تو خوب پٹائی ہوتی۔ کان کِھنچتے، مکے پڑتے، ڈنڈے برستے۔ ہمارے اساتذہ کے پاس انواع وا قسام کی سزائیں تھیں جو ہم اپنی نالائقی کے بدلے میں وصول پاتے رہتے تھے۔ ہمارے ایک استاد ہمیں قطار میں کان پکڑوا کر مرغا بناتے۔ پہلے مرغے کو اس زورسے ٹھڈا مارتے کہ ہم سب مرغے اپنے ٹوٹے پھوٹے اعتماد سمیت زمین بوس ہوجاتے۔ تیسری جماعت میں ہمارے ہم جماعت حاجی محمد کی ’دھون‘ میں استاد نے ایسا مکا جمایا کہ وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گرا اور بے حس و حرکت پڑا رہا۔ پانی پلانے، تلوے سہلانے اور پنکھے جھلانے کی دس منٹ کی تگ و دو کے بعد جسم میں زندگی کے نشان واپس لوٹے۔

سکول میں ایسی ٹھکائی ہوتی تھی کہ ہمارے پاس سبق یاد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ایسا رَٹا مارتے تھے کہ خدا کی پناہ۔ پہاڑے یوں ازبر کیے کہ آج بھی کوئی بچہ پوچھے ’سیون فائیوز دا؟ ‘ تو ہم دل میں حساب لگاتے ہیں’ستو پانجا پینتی‘۔

بچپن میں پڑھی نظمیں بھی یادوں کے سمند ر میں محفوظ رہتی ہیں کبھی کبھی کوئی ٹکڑا سطح آب پہ ابھرآتا ہے۔ کچھ دیر تیرتا رہتا ہے پھر ڈوبنے لگتا ہے۔ اس کو شاعری کا جادو کہیں یا بچپن کا سحر کہ کچھ نظمیں دونی کے پہاڑے کی طرح عمر بھریاد رہتی ہیں۔ اگرچہ پرائمری سکول میں گزرے ان دنوں میں خوف کے سائے بھی تھے مگر پھر بھی ذہنی تخیل کی دنیا آبادہی رہی۔ بچپن کی نظمیں جو ہماری درسی کتب میں تھیں انہوں نے ہمارے ذہن میں نئے نئے خیالات کو جنم دیا اور ہمارے ذہن میں ایک خیالی دنیا آباد ہوتی چلی گئی۔ نظم ’ڈاکیا‘ پڑھ کر ڈاکیے کا کردار جو ذہن نشین ہوا وہ ایک محنتی، ایماندار اور فرض شناس شخص کا کردار تھا۔ جو گرمی اور دھوپ سے گھبرایا ہے پھر بھی گھر گھر جا کر خط پہنچاتا ہے۔ نظم ’ بلبل کا بچہ‘ پڑھی تو پرندوں سے پیار سا ہونے لگا۔ جب یہ لائن پڑھتے ’ میں نے اڑایا واپس نہیں آیا ‘ تو دل بیٹھ سا جاتا۔ ’میں کیا بنوں گا‘ نظم جب پڑھی تو یوں یقین بنا کہ جب ہم بڑے ہوں گے تو اپنی مرضی و منشا کے مطابق جو چاہیں گے وہی بن جائیں گے۔ اسی طرح ’ آؤ بچو سنو کہانی ‘ اور ’چنا منا دو چوزے‘ نظموں نے بھی ایک الگ دنیا تعمیر کی تھی۔

ایک بہت خوبصورت نظم تھی ’نندیا پور‘۔ شاید چوتھی جماعت میں پڑھی تھی۔ اس نظم میں خوابوں کی ایک بستی آباد کی گئی ہے۔ بہت دور ایک ندی بہتی ہے۔ نندیا پور اس ندی سے بھی پَرے ہے۔ گہری دلدل، جنگل اور بڑھیا کی ایک کٹیا کا بھی ذکر ہے۔ اس جنگل اور بڑی بی کے گھر سے بھی آگے حور کا گاؤں آباد ہے جس کانام نندیا پور ہے۔

دور بہت ہی دور یہاں سے
اور اس سے بھی دور
ندی اک نکلی ہے جہاں سے
اور اس سے بھی دور
دلدل ہے گہری سی جہاں پر
دلدل سے بھی دور
جنگل میں ہے بڑ ہیا کا گھر
جنگل سے بھی دور
یاد ہے اس کو ایک کہانی
ہے اس میں اک حور
حور یہ ہے اک ملک کی رانی
ملک ہے نندیا پور
حور کے ملک میں جاؤں گا میں
یعنی نندیا پور

آپ اس کو سادگی کا نام دیں یا میری بچگانہ حرکت سمجھیں کہ میں نے ’نندیا پور‘ اور ’میں کیا بنوں گا‘ کا تعلق جوڑ کر ایک اپنی دنیا بنا ڈالی تھی۔ میں سوچتا تھا کہ آنے والے دنوں میں نندیا پور جیسا امن و سکون ملے گا۔ دھوپ میں گھنے جنگل کے ٹھنڈے سائے ہوں گے۔ ہر طرف سکھ کی ندیاں بہتی ہوں گی۔ نانی دادی کی کہانیاں ہو ں گی۔ حوروں جیسے اجلے چہروں والے لوگ ہوں گے۔ اور ہر سو سکھوں اور خوشیوں کا بسیرا ہوگا۔

پھر یوں ہوا کہ اس تخلیلاتی دنیا اور حقیقی دنیا کی مڈ بھیڑ ہوگئی۔ حقیقی دنیا کے تھپیڑے اتنے غضب کے تھے کہ خیالی دنیا کے تختے اکھڑنے لگے۔

جب اپنے گاؤں کے چوہدری کی من مانیاں دیکھیں، غریب لوگوں کے استحصال اور مجبوریوں کا پتہ چلا، پولیس کی دھونس پر نظرپڑی تو نندیا پور بستی سے حور رخصت ہوئی اور جن بھوتوں کا بسیرا ہوتا چلا گیا۔ جب عوامی نمائندوں کے جھوٹ اور کرپشن کا علم ہوا تو نندیا پور کا خوبصورت جنگل ایک خوفناک دشت میں بدل گیا جہاں ہر طاقتور کمزور کو نگلنے کے درپے ہے۔ جب حقیقی دنیا میں قصور کے عیسائی جوڑے کو بھٹے میں جلایا گیا۔ ان کی بستیوں کو آگ لگا ئی گئی تو خیالی دنیا میں ندی کنارے بڑھیا کی جھونپڑی بھی خاکستر ہوگئی۔ بڑھیا کی کہانیا ں بھی جل کر راکھ ہو گئیں۔ جب پشاور سکول حملے میں نظمیں پڑھتے بچوں کو خون میں نہلایا گیا۔ جب گلشن پارک لاہور میں جسموں کے چیتھڑے اڑے، جب سر گودھا کے پیر کے ہاتھوں مرید قتل ہوئے، جب مشال خاں پر یونیورسٹی کے اندر پتھر برسے تو میرے ذہن میں بسی دنیا ’نندیا پور ‘کی ندی میں صاف ٹھنڈے پانی کی جگہ خون بہنے لگا۔

نندیا پور کی وہ دنیا جو ایک بچے نے اپنے دل میں آبا د کی تھی وہ پوری برباد ہو چکی ہے۔ اب ہر بھرا جنگل نہیں رہا۔ گنگناتی ندی، بڑھیا کا گھر، حور کا گاؤں سب ختم ہو چکا۔ اب چلچلاتی دھوپ ہے، راکھ اڑتی ہَے اورگند کے ڈھیر ہَیں۔

ایسی دنیا بسانا ایک بچگانہ حرکت تھی۔ اب میری مجال کہاں کہ نندیا پورسی دنیا دوبارہ بساؤں۔ اب میں بڑا ہو چکا ہو ں۔ بڑوں کی حقیقی اور اصلی دنیا میں رہتا ہوں۔ نند یا پور تو ایک بچے کی دنیا تھی۔ ایک پسماندہ گاؤں میں پرائمری سکو ل کے کچے صحن میں بوری پر بیٹھے غریب بچے کی دنیا۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti