کابل کے شہید اذان اور سربریدہ روزہ


کہنے والے کہتے ہیں کہ جب امریکہ نے افغانستان کے ضلع اچین میں ”بموں کی ماں“ پھینک دی تو ایک بچہ خوشی سے اچھلتا ہوا ماں کی گود میں گرکر کہنے لگا
ماں جی! آج تو میں بہت خوش ہوں کیونکہ بموں کی ماں مرگئی ہے، اب دنیا میں بم جننے والی کوئی نہیں رہی!

ماں چادر کی پلو سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی، نہیں جان مادر! ابھی تک بموں کا باپ زندہ ہے وہ دوسری شادی کرلے گا اور بچے پیدا کرتے رہے گا۔

اچین کے اس ماں بیٹے کو چونکہ ہماری طرح ”دانشوری“ کرنا نہیں آتا اس لیے اس کو شاید پتہ نہیں تھا کہ بموں کے باپ کو کسی شادی کی ضرورت ہے ہی نہیں، اس کے جنے ہوئے شیطان پہلے ہی اس کے جائز اولاد سے زیادہ ہیں۔ حلب سے لے کر موصل، صنعا سے لے کر کابل، کوئٹہ سے لے کر طرابلس اور پشاور سے لے کر گوادر تک سبھی نوحہ کناں ماؤں نے بموں کے باپ کے نام خدا کے ہاں استغاثہ دائر کر رکھا ہے۔

ان سب ماؤں نے ایک ہی عرضی پر اپنے خون جگر سے دستخط کررکھے ہیں۔ ماں کی ممتا کسی مسلک کو نہیں جانتی۔ یتیم ہونے والے بچے جغرافیے کی بین الاقوامی علامات سے واقف نہیں ہوتے۔ بے آسرا ہونے والی بہنوں کی بولی ساری گیتی (زمین) پر ایک ہی ہوتی ہے، گونگے بہروں کی زبان کی طرح، جس میں کسی حد و سرحد کی پابندی نہیں ہوتی۔

بموں کا باپ مگر درد اور دکھ کو بھی کسی زمینی اور زمانی شناخت کا چولا پہنانے پر مصر ہے۔ ایک سفید آدمی مگر اربوں ڈالر کے اسلحے کا آرڈر وصول کرکے ان ماؤں کو بھاشن دیتا ہوا پایا جاتا ہے کہ ساری دنیا کے امن کو صرف اور صرف تمہاری غلط فہمِ مذہب نے غارت کر دیا ہے اور تم اگر اس کجی کو دور کرنا چاہتے ہو تو ہماری اسلحہ ساز کمپنیوں کی خدمات حاضر ہیں، تمہاری سمجھ کی یہ خرابی تب تک دور نہیں ہوسکتی جب تک تم اپنی سرزمین کی چپے چپے کو بارود کی خوشبو نہ سنگھا دو اورتم اپنے ایک ایک گھر پر ”کاشانہ شہید“ کا لوحہ آویزاں نہ کردو۔

چلیں! ہم آپ کی کہے پر یقین کر لیتے ہیں، ہم نے واقعی مذہب کو ٹھیک نہیں سمجھا ہوگا، ہماری یہی غلطی وہ سنگین غلطی ہے جو لاکھوں ماؤں کی گود اجاڑ چکی ہے لیکن ذرا اتنا بھی تو بتا دیجیے گا کہ یہ بموں کا باپ کون ہے جس کی درندہ اولاد روز کہیں نہ کہیں انسانی آبادیوں پر چڑھ دوڑتی ہے؟

واقعی بموں کاباپ زندہ ہے، اسی نے ہی آج کابل میں روزے کو ذبح اور آذان شہید کردیئے۔

سینہ سب برچھیوں سے تا بہ کمر زخمی ہے
تیرِ بیداد سے دل زخمی، جگر زخمی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).