نصابی و غیر نصابی تحریریں


عوام کا شعور بیدار اورآگاہی فراہم کرنے میں ذرائع ابلاغ کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ عمر عزیز کی پہلی اور دوسری دہائی میں سب سے پہلے تو نصابی کتب سے سابقہ پڑا اور وہی کچھ پڑھا جو ابھی تک بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے۔ اس زمانے میں کراچی جیسے شہر میں دو اقوام کا تذکرہ نہایت نفرت اور تحقیر سے کیا جاتا تھایعنی بھارتی اور بنگالی، ان اقوام کی بزدلی، مسلم و پاکستان دشمنی کے حقیقی اورمن گھڑت قصے اور خاکے ریڈیو اور ٹی وی سے پیش کیے جاتے تھے اور غیر مہذب نعرے ہر بڑے اور بچے کی زبان پر دھرے ہوتے تھے۔ اخبار ات میں بھی حسب حال اسی طرح کی خبروں، مضامین و کالم کی بھرمار ہوتی تھی جس میں پاکستان کے حالات کی وہ منظر کشی پیش کی جاتی تھی جس کو دیکھنے کے لیے عمر عزیز کی پانچ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی آنکھیں ترس رہی ہیں۔ جب دس سال کے بھی نہ تھے تو پاکستان دو لخت ہو چکا تھا۔ اس زمانے میں محب وطن شہری سقوط ڈھاکہ کے بعد، جس کرب و اذیت سے گزرے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ سقوط ڈھاکہ جیسے واقعات سے قومیں سبق حاصل کرتی ہیں لیکن حسب معمول خوشامدی یا خوش فہم صحافیوں نے اپنی تحریروں اور کالموں سے عوام کو آگاہ کرنا شروع کیا کہ اچھا ہوا مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا وہ تو ایک بوجھ تھا۔ ان کی اور ہماری طرز معاشرت میں بہت فرق تھا وغیرہ وغیرہ۔

عمر عزیز کی دوسری دہائی میں مارشل لا، منتخب وزیراعظم کا عدالتی قتل اور امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے لڑی جانے والی افغان جنگ جس کو نام نہاد افغان جہاد کا نام دیا گیااور پہلے غیر جماعتی انتخاب کا مشاہدہ کیا۔ تیسری دہائی میں نام نہاد جمہوریت کے لیے اقتدار کی رسہ کشی، قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹر حضرات کی خرید و فروخت، مہران بینک سکینڈل، بدعنوانی اور افغان جنگ سے سبق حاصل نہ کرنے کی وجہ سے ریاستی سطح پر افغان طالبان کی سرپرستی دیکھی۔ عمر عزیز کی چوتھی دہائی میں پھر مارشل لائ، شریف خاندان کی ڈیل، محترمہ بے نظیر بھٹو کی خود ساختہ جلاوطنی اور پھر ان کی شہادت کی روح فرسا خبر سننے کے بعد، آصف علی زرداری کو صدر بنتے بھی ان گناہ گار آنکھوں نے دیکھا۔ عمر عزیز کی پانچویں دہائی میں بھی حکمرانوں کے جھوٹے وعدے، لوڈ شیڈنگ، بدعنوانی، اقتدار کی رسہ کشی، جمہوریت و اقتدار کو بحال رکھنے کے لیے قربانی کے بکرے، لسانی و علاقائی تعصب، مذہب و مسلک کے نام پر قتل و غارت گری، ملکی اداروں پی آئی اے، واپڈا، ریلوے،سٹیل مل کی مکمل تباہی، ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت اور حسب سابق سینٹو و سیٹو طرز کے فوجی اتحاد کی طرح اکتالیس ممالک کے فوجی اتحاد میں شمولیت جیسے حالات و واقعات کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ ان حالات میں جب محترم کالم نویس، مضمون نگار اور تجزیہ نگار قائد اعظم کی فہم و فراست اور وطن عزیز کی منظر کشی میں زمیں و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا تو تحریر پڑھنے کے بعد یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ اس تحریر کو اولین فرصت میں یا فوری طور پر نصابی کتب میں شامل کیا جانا ازحد ضروری ہے تاکہ سوئی ہوئی قوم کبھی جاگ نہ سکے۔ فی زمانہ عوام کا شعور بیدار اور آگاہی فراہم کرنے میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا کا بھی اہم کردار ہے۔

نصابی تحریریں کتابوں میں پڑھنے کو مل جایا کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد قلم کو مزید آزادی ملی جس کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جا رہا ہے جو مناسب نہیں ہے۔ بہرحال جمہوری حکومت نے سوشل میڈیا کو بھی قابو میں رکھنے کے لیے قانون سازی کی ہے۔ سوشل میڈیا میں غیر روایتی تحریریں یا وہ تحریریں بھی شائع ہوجاتی ہیں جن کی پرنٹ میڈیا کی ادارتی پالیسی اجازت نہیں دیتی۔ لیکن اب سوشل میڈیا میں بھی نصابی طرز یعنی افیم کی گولی کی طرح پر اثر تحریریں شائع ہو رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بھی کوئی مقتدر حلقوں کا حربہ ہو کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے عوام میں بیداری کی لہر جو اٹھی ہے۔ اس طرح کی تحریریں عوام میں سوشل میڈیا کا اثر و نفوذ زائل کرنے میں کارگر ثابت ہوں گی۔ اس و جہ سے سوشل میڈیا پر بھی غیر نصابی کے ساتھ، نصاب میں شامل کی جا نے والی تحریریں کالم کی شکل میں شائع کی جا رہی ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).