نہال ہاشمی کا قصور کیا ہے؟


نہال ہاشمی کے حوالے سے ایک وڈیو کا بہت شہرہ ہو رہا ہے۔ کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ یہ تقریر کہاں کی گئی؟ کون مخاطب تھے؟ حاضرین کون تھے؟ جلسہ کہاں تھا؟ تاریخ کون سی تھی؟ دن کون سا تھا؟ اچانک یہ وڈیو منظر عام پر کیسے آگئی؟ اس کو وائرل کرنے والے کون تھے؟ سب اینکرز تک اس کیرسائی کیسے ہو گئی؟ سوشل میڈیا پر اچانک آگ کیسے لگ گئی؟ سپریم کورٹ نے کیسے اچانک نوٹس لے لیا؟ نہال ہاشمی کی یکدم طلبی کیسے ہو گئی؟ وزیراعظم نے کیسے نہال ہاشمی کی رکنیت معطل کر دی؟ کراچی میں پارٹی کا کتنا نقصان ہو ا ہے؟ نہال ہاشمی کا پارٹی میں عہدہ کیا تھا؟ اس طرح کی آتش فشاں تقریر کا مقصد کیا تھا؟ کیا نہال ہاشمی کو مضمرات کا پہلے سے علم نہیں تھا؟ کیا عدلیہ کی توہین اور تضحیک جان بوجھ کر کی گئی ہے؟ کیا اداروں کو دھمکایا جا رہا ہے؟ نہال ہاشمی کو کیا سزا ملنی چاہیے؟ پھانسی یا عمر قید بامشقت؟

بیشتر لوگوں کی خواہش ہے کہ نہال ہاشمی کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ چوک پر الٹا لٹکا دیا جائے۔ عدلیہ کے ساتھ یہ برتاؤ برداشت نہیں ہوگا۔ یہ دھونس دھمکیاں اب نہیں چلیں گی۔ نہال ہاشمی نے جو کچھ کہا ہے اس سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا لیکن تقریر کرتے ہوئے انہوں نے بارہا کہا کہ میں ایک کارکن ہوں اور اپنے لیڈر پر آنچ نہیں آنے دوں گا۔ بات سمجھنے کی صرف اتنی ہے کہ کسی ایک کارکن کی شعلہ بیانی پارٹی پالیسی قرار نہیں دی جا سکتی۔ عدلیہ کے خلاف محاذ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک شخص کا بیان آئین نہیں ہوتا، مشترکہ ارادہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔

ہمارے ذہن چھوٹے اور اور حافظہ کمزور ہے۔ ہماری یاداشت مختصر اور تنگ ہیں۔ ہم سامنے کی بات یاد رکھتے ہیں ماضی ہمارے ذہنوں سے محو ہو چکا ہوتا ہے۔ آج عدلیہ کے حق میں نعرے لگانے والوں کو یاد بھی نہیں کہ اسی ملک میں ایک ڈکٹیٹر نے اس وقت کے چیف جسٹس کو کھڑے کھڑے برطرف کر دیا تھا۔ اس کو بالوں سے پکڑ کر پولیس کی وین میں دھکیلا گیا تھا۔ اس کو گھر میں قید کر دیا گیا تھا۔ اس کے بچوں کو خوارک کی فراہمی میں روکاوٹیں ڈالی گئی تھیں۔ اس پر غدار کا الزام لگا تھا۔ اس کے فیصلوں پر جانبداری کا شک ہواتھا۔ اس پر زمین تنگ کر دی گئی تھی۔ اس کو مکے دکھا دکھا کر دھمکایا گیا تھا۔ اس پر کرپشن کے الزامات لگائے تھے۔ اس کی گاڑی چھین لی گئی تھی۔ اس کے اختیارت لے لئے گئے تھے۔ اس کو مارنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ اس پر جھوٹے مقدمات بنے تھے۔ اس کو عبرت کا نشان بنانے کا دعوی کیا گیا تھا۔

عدلیہ کے احترام کا نعرہ لگانے والوں کو بارہ مئی کی تاریخ بھی بھول گئی ہو گی۔ کراچی جیسے شہر میں انصاف اور عدلیہ کی بالہ دستی کے لئے نکالے گئے جلوس پر کھلے عام فائرنگ کی گئی تھی۔ درجنوں وکیلوں کو بھون کر رکھ دیا گیا تھا۔ لاشوں کو سڑکوں پر عبرت کے نشان کے طور پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ ایک پورے شہر کو انصاف کے حق میں آوز بلند کرنے کی پاداش میں نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ آج تک اس بہیمانہ قتل عام کا نہ سراغ لگا ہے نہ قاتلوں کی گرفتاری کے لئے کوئی کارروائی ہوئی ہے۔ نہ کوئی مقدمہ بنا ہے نہ گرفتاری ہوئی ہے۔ خوف اتنا ہے کہ اس بہیمانہ واقعے کے
بارے میں بات کرتے ہوئے بھی لوگ احتیاط ادھر ادھر دیکھ لیتے ہیں۔ کہیں انصاف کا علم بلند کرتے ہوئے خود بلی نہ چڑھ جائیں۔

نہال ہاشمی کی بدزبانی پر بات کرنے والوں کو یہ بھول گیا ہے کہ اس ملک میں ایک لیڈر ہے جو اس ملک میں نہیں رہتا تھا۔ گھنٹوں چینلوں پر اس کی ہذیان کو سننا پڑتا تھا۔ کبھی وہ پاکستان مخالف نعرے لگواتا تھا۔ کبھی بھارت کو مدد کے لئے پکارتا تھا۔ کبھی اپنی فوج کے خلاف ہو جاتا تھا۔ کبھی ایجنسیوں کے خلاف مغظلعات بکتا تھا۔ کبھی عورت مرد کے جنسی تعلقات کی باریکیوں پر سر عام گفتگو کرتا تھا۔ کبھی عدالتوں کو دھمکاتا تھا۔ کبھی سرعام بوریاں بنوانے کی دھمکیاں دیتا تھا۔ کبھی شہر کو آگ لگو ا دیتا تھا۔ کبھی قتل عام کروا دیتا تھا۔ اس لیڈر کے ہذیان پر بات کرنے کی کسی کو جرات نہیں ہوئی۔ جب تک اس کی پشت پناہی موجود تھی وہ راج کرتا رہا۔ اس وقت کسی نے اداروں کے احترام کا نہیں سوچا۔ اس وقت کسی نے انصاف کے حق میں علم بلند نہیں کیا۔

دور کی بات جانے دیں زمانہ حال کے ایک لیڈر نے کیا میڈیا پر آکر سول نافرمانی کا حکم نہیں دیا تھا؟ جلاؤ گھیراؤ کا ارداہ سرعام نہیں کیا تھا۔ یہ وہ لیڈر ہے جو پرائیوٹ محفلوں میں ادارے کے بارے میں اسقدر توہین آمیز بات کرتا ہے کہ سوچ کی شرم آتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بچے بچے نے اس وڈیو کو دیکھا ہے لیکن کیا الیکٹرانک میڈیا پر کسی نے اس وڈیو کے بارے میں ایک جملہ بھی کہا ہے؟ ایک دفعہ بھی مذمت کی ہے؟ ایک دفعہ سپریم کورٹ نے اس پاگل پن کا نوٹس بھی لیا ہے۔ یہ وہی لیڈر ہے جو سرعام جمہوریت کو، اس نظام کو، عوام کے ووٹ کو گالی دیتا ہے۔ سرکاری افسران کو اپنے ہاتھ سے چوک میں پھانسی دینے کا نعرہ بھی لگاتا ہے۔ لیڈری کے نشے میں دھت ہو کر اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا دعوی بھی کرتا ہے۔ سی پیک جیسے پراجیکٹ کی راہ میں روڑے اٹکاتا ہے۔ چین کے صدر کو اس ملک کا دورہ منسوخ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس پر تو کسی نے عبرت ناک سزا دینے کا اعلان نہیں کیا۔ اس پر تو کبھی سو موٹو نہیں لیا گیا۔ اس پر تو کبھی اداروں کی توہین کا الزام نہیں لگا۔

آخر میں کچھ ذکر ہو جایئے اپنے اینکروں کا۔ دنیا بھر میں جب کسی عدالت میں کوئی کیس چل رہا ہو تو تجزیہ کار اس پر گفگتو نہیں کرتے۔ لیکن گذشتہ چار سال کی میڈیا رپورٹ دیکھ لیں ہر اینکر نے اپنی عدالت نہیں لگائی۔ اپنے اداروں پر کھلم کھلا الزام نہیں لگائے۔ عوامی اداروں کی تضحیک نہیں کی۔ عوام کے ووٹوں کا مذاق نہیں اڑایا۔ مارشل لاء کو آئے روز دعوت نہیں دی۔ شکریہ راحیل شریف کی کمپین نہیں چلائی۔ عوامی نمائندوں پر جھوٹے الزام نہیں لگائے؟ اداروں کے بارے میں جھوٹی خبریں نہیں دیں؟ عدلیہ اور اداروں کو بدنام کرنے کی سازشیں نہیں کیں؟ دفاعی اداروں پر ستو پینے کا الزام نہیں لگایا گیا؟

نہال ہاشمی کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ ایک کارکن ہے۔ اپنے قائد کے حق میں بولنے سے چپ نہیں رہ سکا۔ یہ وہ شخص ہے جو ایک ایسے شہر میں پارٹی کا پرچم بلند کرتا ہے جو کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ ایک ایسے شہر میں بات کر رہا ہے جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا اور اب اندھیروں کا قبرستان ہے۔ نہال ہاشمی جمہوریت کے لئے جدوجہد کر ہا ہے۔ ایک رجسٹرار کی جانب سے مبینہ طور پر کی جانے والی وٹس ایپ کالوں پر شعلہ بیان ہے۔ اگر وہ ایک ڈکٹیٹر ہوتا تو اس کو سب خون معاف ہوتے۔ اگر وہ ایک ایمپائر کی انگلی کی تلاش میں رہنا والا لیڈر ہوتا تو آج بھی میڈیا کا لاڈلا کہلاتا۔ اگر وہ ایک اینکر ہوتا تو عدلیہ کی اس تضحیک پر اس کی پذیرائی ہونی تھی۔ نہال ہاشمی کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ ایک مخلص کارکن ہے اور جمہوریت کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا دینے کو تیار ہے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar