دائروں کا سفر


میں پیشہ ور لکھاری نہیں ہوں اس لیے لکھتے ہوئے خود پر اختیار نہیں رہتا کہ کیا لکھ رہا ہوں اور کیا نہیں لکھنا چاہیے تھا چنانچہ وطن عزیز کے حالات دیکھتے ہوئے لکھنے کا سلسلہ ترک کر رکھا ہے۔ جو محسوس کرتا ہوں اسی کو کاغذ پر اتارنے کی کوشش کرتا ہوں اور ان دنوں جو محسوس کر رہا ہوں اگر تحریر کروں تو اس کی تشریح کی زد میں آ سکتا ہوں۔ اس لیے خیال کو قید کر رکھا ہے۔ سوچ کو بیڑیاں ڈال دی ہیں۔ یہی ایک قربانی ہے جو قومی مفاد میں دے سکتا ہوں ورنہ مجھ سے عامی کے پاس وطن پر نثار کرنے کو ہے ہی کیا۔

اس وقت دنیا اپنا کثیر سرمایہ شدت پسندی کے خلاف جنگ میں خرچ کر رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر روس اور امریکہ یہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مقامی سطح پر قانون نافذ کرنے والے ادارے، سیاست دان اس جنگ کی قیادت کر رہے ہیں۔

مشرق وسطیٰ ان دنوں بین الاقوامی تجربہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ ان تجربات کی نذر لاکھوں زندگیاں ہو چکی ہیں مگر شدت پسندی جوں کی توں موجود ہے۔ میں جب بھی غور کرتا ہوں کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے تو ایک ہی خیال ذہن میں آتا ہے کہ بد دیانتی اور نیت کا درست نہ ہونا اصل رکاوٹ ہیں۔ دونوں گروہوں کو شدت پسندی کے خاتمے سے زیادہ دلچسپی انہیں اپنے زیر دست لانے کی ہے۔ اس وقت بھی شدت پسند بطور سٹریٹجک فورس استعمال ہو رہے ہیں۔ خطے میں تسلط برقرار رکھنے کے لیے انہیں اپنی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ شدت پسندی محض قتل غارت گری ہی نہیں ہے بلکہ یہ مکمل کالی معیشت ہے۔ جہاں چند گروہ شدت پسندوں میں غیر قانونی طور پر اسلحہ کی تقسیم سے کروڑوں کما رہے ہیں وہیں ان سے تیل اور دیگر سمگلنگ کا سامان خرید کر اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ساری جنگ کہیں نہ کہیں معیشت سے جڑی ہوئی ہے۔ مقصد کہیں پر اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہے اور کہیں دوسرے کی معیشت کو برباد کرنا ہے۔ یہاں پر محض کالی صنعت ہی پروان نہیں چڑھ رہی بلکہ کئی سفید پوش اس کالی صنعت کے خاتمے میں مددگار بن کر اربوں کما رہے ہیں۔ گزشتہ بیس سالوں میں معیشت جس طرح غیر حربی طور پر ترقی کر رہی ہے شدت پسندی اگر ختم ہو گئی تو سامان حرب کی فروخت پر انحصار کرتی قوتیں معاشی بدحالی کا شکار ہو جائیں گی۔ ہمیں مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

پاکستان میں شدت پسندی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ میں اس وقت اس میں الجھنا نہیں چاہتا۔ موجودہ واقعات پرمختصر بات کرنا چاہوں گا۔ گزشتہ سولہ سال سے ہم وار آن ٹیرر میں مصروف ہیں۔ بہت سال تو ہم یہ ہی طے نہیں کر پائے کہ یہ ہماری جنگ ہے یا امریکہ کی۔ تاہم سیاسی جماعتوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ انہوں نے عوام کو اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ یہ ہماری ہی جنگ ہے۔ یہ محض ہتھیاروں کی ہی جنگ نہیں ہے بلکہ سوچ اور فکر کی جنگ ہے۔ ہم پر تو یہ واضح ہو گیا مگر سیاست دانوں کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑی اور مستقبل میں کسی نہ کسی صورت ادا کرنا پڑے گی۔ ستر ہزار سے زائد افراد اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں۔ ہمارے فوجی جوانوں نے ابتداً عوامی تائید کے بغیر ایک کٹھن جنگ لڑی ہے اور تاریخ کی سب سے زیادہ شہادتیں اس جنگ میں پیش کی ہیں۔ ان بے مثال قربانیوں کے بعد بھی مگر ہم یہ جنگ مکمل طور پر جیت نہیں سکے ہیں۔ ابھی بھی مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے اور آخری شدت پسند کے خاتمے تک قومی تعاون ضروری ہے۔

ان ہی دنوں میں دی نیوز کی ایک سٹوری چھپی ہے جس کے مطابق شدت پسندوں کے ایک گروپ جس نے ہتھیار ڈال کر طالبان سے علیحدگی اختیار کی ہے کو فاٹا اور خیبر پختون خوا کے کچھ علاقوں میں دفاتر قائم کرنے کی اجازت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت کو صورتحال واضح کرنا ہو گی اور ایسی کسی کوشش سے اجتناب کرنا ہوگا جو قومی اجماع سے متصادم ہو۔ حکومت سیاسی طور پر کمزور پوزیشن میں کھڑی ہے اسے بڑے سیاسی فیصلوں سے اجتناب برتنا ہو گا۔ جب تک پاناما کے کیس سے بری نہیں ہوا جاتا یا اگلے انتخابات نہیں ہو جاتے بنیادی تبدیلی کے فیصلے موخر کرنا ہوں گے بصورت دیگر تاریخ معاف نہیں کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).