رمضان میں پھلوں کی قیمتیں کم کروانے کا کارگر نسخہ


 کہا جا رہا ہے کہ تین روز پھل خریدنا بند کر دیجئے یعنی پھل فروشوں کا بائیکاٹ کیجئے کیونکہ پھل فروش دام زیادہ ماںگ رہے ہیں ، یوں وہ دباؤ میں آ کر قیمتیں کم کر دیں گے – سننے میں آیا ہے کہ کچھ بیوروکریٹ بھی اس نیک خیال میں شامل ہیں – ایسی معصوم و بے چاری تحریک چلانے والوں کے لئے اتنی سی عرض ہے کہ آخر آپ اکنامکس کیوں نہیں پڑھتے ؟

رمضان میں پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے اس کی کچھ ٹھوس وجوہات ہیں –

اول یہ کہ پھل جلد خراب ہو جانے والا (perishable) ایٹم ہے – اسے ذخیرہ کرنا مشکل ہے ، ذخیرہ کرنے کی صورت میں اس کا خرچہ بھی بڑھتا ہے اور ذائقہ پر بھی اثر پڑتا ہے – پھل جب پک جاتا ہے تو لازم ہے کہ اسے جلد سے جلد گاہک تک پہنچایا جائے ورنہ یہ گل سڑ جائے گا اور نقصان ہو گا –

دوسری بات یہ ہے کہ پھل کی مخصوص رسد (سپلائی ) ہوتی ہے – یہ فیکٹریوں میں نہیں تیار ہوتا کہ اگر مزدور بڑھا دیئے گئے زیادہ پھل پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے – یہ کسان کی بھی نہیں سنتا – اپنے وقت پر پکتا ہے تب ہی کسان سے منڈی تک پہنچتا ہے –

تیسری اہم بات یہ ہے کہ رمضان میں پھلوں کا استعمال بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے – افطاری کے وقت خاص طور پر اور دوپہر کو جب ریستوران بند ہوتے ہیں تو بعض لوگ جنہیں روزہ نہیں ہوتا وہ پھلوں سے ہی سیر ہونے کی کوشش کرتے ہیں – مگر پھلوں کے اس زیادہ استعمال کا بڑا سبب افطاری ہی ہے –

وہ تمام پیداواری اشیاء جو خام مال میں یا براہ راست … زراعت یا جلد خراب ہونے والے پھلوں سے جڑی ہوتی ہیں ، رمضان شریف میں ڈیمانڈ کے بڑھنے سے ان کی قیمتوں میں اسی تناسب سے اضافہ ہوتا ہے – جبکہ وہ اشیاء جو زراعت یا جلد خراب ہونے والے پھلوں سے نہیں جڑی ہوتیں جیسے سافٹ ڈرنکس (پیپسی کوکا کولا ) تو ڈیمانڈ کے بڑھنے سے اس کی پیداوری استعداد بڑھا دی جاتی ہے یوں اکنامکس کے “ماس پروڈکشن ” کے اصول کے تحت ان کی یونٹ کاسٹ (Unit Cost ) کم ہو جاتی ہے – اب کمپنیوں کی مرضی کہ ڈسکاؤنٹ دیں یا وہی قیمت بحال رکھیں – چونکہ ماس پروڈکشن (زائد پیداوار ) کا یہ اصول زراعت اور پھلوں سے پیداوار پر لاگو کرنا رمضان میں مخصوص سپلائی کے سبب ممکن نہیں ہوتا اس لئے کم یونٹ کاسٹ کا تصور اس میں نہیں پایا جاتا –

وہ ممالک جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں رمضان المبارک میں زیادہ ڈیمانڈ اورمحدود سپلائی کا پھلوں اور زراعت سے جڑی اشیاء کی قیمتوں پر اثر پڑتا ہے – اگر یہ اثر نہ پڑے تو پھر اس چیز کی قلت (شارٹیج) ناگزیر ہوجاتی ہے- یہاں دبئی میں بھی اس کا اثر میں نے نوٹ کیا ہے – جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں جیسے یو کے امریکہ وغیرہ وہاں اس کا اثر کافی کم ہے جسے کمپنیاں یا تو نظرانداز کر دیتی ہیں یا پھر وہ indirect pricing سے مدد لیتی ہیں یا پھر اسٹریٹجک pricing سے مستقبل کے لئے فائدہ لیتی ہیں – بعض اوقات جب کسی پروڈکٹ (شے ) کی مارکیٹ میں مقابلہ کی فضا حاوی ہو تو ایک کمپنی کو دوسری کمپنی کے مقابلہ میں قیمتوں کو بڑھانا مشکل ہو جاتا ہے یوں وہ نقصان برداشت کرنے پر مجبور ہوتی ہے ورنہ اس کا کسٹمر اس کے حریف کی شے خریدنے لگے گا ، مگر یہ نقصان بھی چند روز برداشت کیا جا سکتا ہے اگر تو پیداواری لاگت کم نہیں کی جا سکتی ….، عموما عید کرسمس جیسے تہواروں میں کمپنیاں ڈسکاونٹ دے کر گاہک کو اپنا مستقل خریدار رکھنے کے لئے ایسے نقصان برداشت کر لیتی ہیں یوں نارمل دنوں میں اس سے ریکوری کر لی جاتی ہے- مگر یہ سب چیزیں شے کی نیچر پر انحصار کرتی ہیں کہ اصل وہ ہے کیا اور اس پر ڈیمانڈ و سپلائی کا اثر کیا ہے –

آخری بات یہ کہ ٹھیلے والے غریب پھل فروشوں کا بائیکاٹ نہ کیجئے بلکہ اپنے دسترخوان پر دیہان دیجئے – اگر آپ پھلوں کا اتنا استعمال شروع کر دیں جتنا رمضان سے پہلے تھا تو قیمتیں یقین کیجئے رمضان سے پہلے والی قیمت پر آ جائیں گی – اگر اس سے بھی کم کر دیں گے تو قیمتیں اس سے بھی کم ہو جائیں گی – قیمتیں دیمانڈ اور سپلائی کو کیوں رسپانس کرتی ہیں ؟ کیوں کرنی چاہئیں اور کیوں نہیں کرنا چاہئیں اس پر مفصل تحریر پڑھنے کے لئے میری کتاب : غربت اور غلامی خاتمہ کیسے ہو ، کا باب “قیمتوں کا نظام وسائل کی بہترین تفویض کا ضامن ہے”  مطالعہ فرمائیے-

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan